یہ کیسی جمہوریت ہے ؟

معاشرتی اقدار کی پاسداری میں سیاسی مصلحت پزیریاثر گیر ہوچکی ہے۔جمہوریت کی بدترین خامی یہی ہے کہ غلط بات کو بھی اکثریت کے فیصلوں کے سبب درست تسلیم کیا جاتا ہے ، جبکہ اسلام میں عددی قوت کو نہیں بلکہ موقف کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔عسکریت پسندوں نے جب اپنے ویڈیو پیغام میں جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیا تو اس بیان پر سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور میکاولے کے نظام کو اسلام پر فوقیت دینے کیلئے لاتعداد دلائل دئیے گئے۔بلا شبہ اسلامی نظام کے سامنے تمام دنیاوی نظام کفر ی نظام ہیں ۔ کفر کے لغوی معنی انکار کرنے کے ہیں ،یعنی اسلامی نظریہ حیات کو جو بصورت نظام مفصل تسلیم نہیں کرتا ، وہ دراصل اسلام سے انکار(کفر) کرتا ہے کیونکہاسلامی نظام میں اس قدر وسعت موجود ہے کہ کسی بھی شخصی نظام کو اس پر فوقیت نہیں دی جا سکتی ۔سچ کو سچ کہنا اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ،صرف اسلامی نظام میں ہے جبکہ میکاولے کا نظریہ سیاست جیسے ہم جمہوری اقدار کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ، مکمل جھوٹ کی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے جہاں جھوٹ کواس قدر خوبی سے بیان کیا جاتا ہے کہ جھوٹ ، سچ اور سچ ، جھوٹ معلوم ہوتا ہے ۔قرآن کریم بلاشبہ ظاہری باتوں سے بڑھ کر اسلامی نظریہ حیات ، نظام صلوۃ ، نظام زکوۃ اور نظام ربوبیت کے اتھ نظام انصاف کا ایک ایسا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جیسے من وعن نافذ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔خلفائے راشدین کا انتخاب ، بذریعہ ووٹ نہیں آیا تھا لیکن ہم ایسے اب تک کا بہترین خلافت کا نظام سمجھتے ہیں ، جبکہ خلافت کے بعد جب ملوکیت بھی آئی تو تاریخ اسلام میں ایسے خلفیہکے سنہرے ادوار گزے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ کسی شخصی نظام میں اس قدر عوام کی منفعت کے فلاحی و ترقیاتی کام کئے جاسکتے ہیں ، لیکن جب جمہوریت کے نام پر ایک ایسا شخصی نظام متعارف کرایا گیا جس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابل کا امیدوار ، اپنی جاہ و حشمت ، سرمایہ داری ، جاگیر داری اور خوانین کے بل بوتے پر عوام کو کس قدر پس سکتا ہے تو لڑاؤ اور حکومت کرو ،کی شق نے اسلام سے متصادم نظام جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ۔لیکن خرابی یہ رہی کہ امت واحدہ تفرقے کی بنیاد پسند و ناپسند پر منقسم تھی ۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد امت واحدہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جس کا سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ اسلام نے نظریہحیات کو بصورت قرآن متحد اور ایک اﷲ کی رسی (قرآن) کو تھامنے کا درس دیا تھا ، وہاں مسالک کے فراونی نے اسلامی تشخص کو پس پشت ڈال کر اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ۔ اسلاف کے کارناموں پر تکیہ کرتے ہوئے ، جہاز کے بجائے اونٹ کی سواری کو باعث ثواب سمجھے جانے لگا ، ابلاغ کو کفر اور اسلام سے فروعی فتوؤں سے خارج کرنے کا اہم ذریعہ گردانا گیا۔ جس کے سبب ان گروہی و فروعی فتوؤں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ایک شخص بھی مسلماں نہیں ہے۔ کیونکہ فرقہ واریت کے عفریت نے کسی بھی مسلک کے مسلمان کو مسلمان نہ سمجھا ، اور کفری فتوؤں نے دنیا کے سامنے اسلام کا تشخص پُرتشدد نظام نافذ کرنے کی ضد کی صورت میں پیش کرنا شروع کردیا ۔ عرب و عجم کی جانب سے پوری دنیا میں مسلم حکومتوں میں جمہوریت کے نام پر اثر و رسوخ اتنا بڑھا دیا گیا کہ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت بھی اپنی داخلی و خارجی پالیسیاں مرتب کرنے سے قاصر ہیں ، جس کے نتائج اس صورت میں مل رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست کا تصور دنیا کے سامنے ایک دہشت گردد اور دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے عناصر کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پرلیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کا مقصد دو قومی نظرئیے کا احیا ء تھا لیکن ایسے جب بنگال کے سمندر بُرد کردیا گیا تو بچا کچا پاکستان آج خود ساختہ اسلام کے نرغے میں ہے جسمیں کسی عام انسان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بجائے نقصان پہنچانے پر مکمل توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔افغانستان میں طالبان کی جانب سے"آپریشن بہار"غیر ملکی افواج کو اپنی سرزمیں سے نکالنے کے لئے شروع کردیا گیا تو پاکستان میں عسکریت پسندوں نے عام بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانے کیلئے "آپریشن انتخابات" شروع کیا ۔جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیکر اسلام کے حقیقی تصور کو پیش کرنے کے بجائے اسلام سے دور مسلمانوں اور اسلامی نظام حیات سے نا واقف اقوام کو اسلام کے نام پر پُر تشدد موقف اپنانے پر قوت صرف کی جا رہی ہے۔اس وقت عبوری دور ہے اور اسلامی نظام حیات کی کوئی عملی شکل کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہے ۔فلاح و اصلاح کیلئے اقوام عالم میں حکومتوں کے قیام کیلئے ایک فرد ایک ووٹ کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ، جس کے بعد اپنے تئیں اُس ملک کی عوام کے نمائندے اپنی حکومت کو دنیا کی دیگر مملکتوں کے سامنے طاقت ور اور معاشرتی اقدار کے نگہبان کے طور پر پیش کرتے ہوئے سپر پاور کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جبکہپاکستان جیسے ترقی پزیر ایٹمی ممالک ایٹم بم بنا کر لاکھوں انسانوں کی جان لینے کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں لیکن عوام کو ترقی و سکون میسر کرنے کیلئے ایک منٹ کی بجلی پیدا نہیں کرسکتے ۔قدرتی وسائل سے مالامال مملکت کو اقربا پروری ، بد عنوانیوں اور خارجی ممالک کیلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کے پر تشدد رجحان نے ایک عام پاکستانی کو نظام جمہوریت سے اس قدر متنفر کردیا ہے کہ ایسے پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت پر بھروسہ نہیں رہا ، تبدیلی کا کوئی عمل پاکستان میں کامیابی سے پورا ہی نہیں ہونے دیا جاتا ، جمہوریت کے متصادم آمرانہ نظام نے پاکستان کی پالیساں مرتب کیں تو اب پاکستان قیام پاکستان کے بعد تبدیلی کے پہلے ارتقائی منازل سے گذر رہا ہے تو آج بھی عوام کی مرضی کے برخلاف اُن ہی جماعتوں کو دوبارہ مظلومیت کی آکسیجن فراہم کی جارہی ہے ، جو ہمیشہ اقربا پروری ، جاگیرداری ، سرمایہ دارانہ نظام کو کامیاب کرتی رہی ہیں ، عوامی شعور کی پہلی سیڑھی پر ہی اب اتنی مشکلات پیدا کیں جارہی ہیں کہ جن جماعتوں کو عوام مسترد کرکے کرسی، کرسی کے کھیل سے باہر نکالنے کی خواہاں تھیں اب انھیں مظلومیت کا لبادہ اوڑھا کر ایک بار پھر عوامی شعوری جمود کو پاش کرنے کی سعی کو روک دیا گیا ہے۔جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیکر صرف تین سیاسی جماعتوں کو نشانے رکھنے کے مفروضے نے اسلام کے آفاقی نظام کو ایک بار پھر عوام کے سامنے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسلام کے نظام میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا کہ سیاسی جماعتوں میں حد بندی رکھ کر ایک ہی انسانی نظام کے ماننے والوں پر اپنی مرضی تھوپ کر کہا جائے کہ دراصل اسلام ، کا اصل نظام تین کے بجائے دیگر جماعتوں میں ہے۔جمہوریت کو کفر کا نظام کہہ کر ، من پسند سیاسی جماعتوں کے ہاتھ پیر کھلے چھوڑ دئیے جائیں اور جب مخلوط ، غیر متوازی ، غیر مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے تو بین الاقوامی قوتیں ایسی جمہوری نظام کے بل بوتے پر اپنی مرضی کے قوانین منظور کراتی رہیں اور عوام بین کرتی رہے۔اگر اس قسم کے نظام کو جمہوریتٍ کا کفری نظام کہا جا رہا ہے تو واقعی یہ ایک ایسا کفری نظام ہے جس میں من پسند جماعتوں کو من وعن آزادنہ سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت دی جائے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744232 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.