ایک عورت بہت جھگڑالو تھی ،وہ اپنے سسرال میں جھگڑا کرتی
اور پھر سسرال والوں کو دباؤ میں لینے کے لیے دریا پر خود کشی کرنے چلی
جاتی اس کا شوہر اسے پکڑکر لے آتا ،کبھی اس کی ساس اسے منا کر لے آتی ،کبھی
سسر اور کبھی دیور حضرات اسے دریا کے کنارے سے پکڑ کر لے آتے بار بار کی اس
کی حرکتوں سے تنگ آکر ایک دفعہ سسرال والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کوئی
نہیں جائے گا ،چنانچہ اگلی مرتبہ جب وہ یہ دھمکی دے کر گئی کہ وہ خود کشی
کرنے جارہی ہے اور کوئی اسے بچانے نہ آئے والا روایتی جملہ بول کر گھر سے
چلی گئی تو اس دفعہ واقعتاَکوئی نہیں گیا اس عورت نے دریا کے کنارے بیٹھ کر
کچھ دیر انتظار کیا کہ کوئی اسے منانے کے لیے آئے گا لیکن کوئی نہیں آیا جب
بہت دیر ہو گئی تو وہ بہت گھبرائی کہ اب کیا ہو گا اسی لمحے اسے اپنے پڑوس
والوں کی ایک بکری نظر آئی جو دریا پر پانی پینے آئی تھی وہ بکری جب پانی
پی کر جانے لگی تو تو وہ عورت اس بکری کی دم پکڑکر گھر واپس آگئی اور گھر
والوں سے کہا کہ میں تو دریا میں چھلانگ لگانے جا ہی رہی تھی کہ یہ بکری
درمیان میں آگئی یہ سوچ کر کہ شاید آپ لوگوں نے اس کو بھیجا ہے میں اس کی
دم پکڑکر گھر واپس آگئی ۔اسلام آباد میں ہمارے ایک ہیرو ،مستقبل کے متوقع
حکمران،اور ابھرتے ہوئے سیاستداں نے جس طرح اپنے آپ کو سیاسی خود کشی کے
کنارے لا کر کھڑا کردیا ہے ،اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی ملکی یا
غیر ملکی نادیدہ قوت کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئے ہیں یا پھر اس حوالے سے انھوں
نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا ،17اگست کی شام کی وہ تقریر جس کے بارے میں
کہا گیا کہ وہ اپنی زندگی کی اہم تقریر کریں گے کارکنان ذہنی طور سے تیار
رہیں پہلے اس کا وقت دن کے تین بجے طے ہوا پھر رات آٹھ بجے کہا گیا ساڑھ
آٹھ بجے اس اہم تقریر کا آغازہوا تو محسوس ہوا کہ وہ کپتان جو کرکٹ کے
میدان میں آخری بال تک فتح کی ترنگ میں کھیلتا تھا اور کبھی اس کے چہرے پر
شکست کے آثار نظر نہیں آتے تھے لیکن اس تقریر میں وہ بانکپن نہیں تھا جو
ہمیں 14اگست سے پہلے نظر آتا تھا دراصل یہ ایک اعصابی جنگ ہے اور ہمیں اس
تقریر میں کپتان کے اعصاب ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوئے ،سول نافرمانی کی تحریک کا
اعلان ،پہلے ایک ہفتے ،پھر تین دن اور پھر دودن کا حکومت کو وقت دینا یا
اپنے لیے وقت حاصل کرنا کپتان کے چہرے پر مسکراہٹ تو تھی لیکن پھیکی پھیکی
،پرجوش کارکنان زندگی کی اہم تقریر کا یہ مطلب لے رہے تھے کہ اب ہم کپتان
کی قیادت میں ریڈ زون میں داخل ہو ں گے ،وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کریں گے
گولیاں چلیں تو پہلی گولی کپتان اپنے سینے پر روکے گا لیکن اپنے پرجوش
کارکنان کو کچھ تو دینا تھا پھر تقریر میں یہ کہنا کہ خدا کے واسطے نواز
شریف تم استغفیٰ دے دو خود اعتمادی کے بحران کا پتا دیتی ہے۔ چوہدری نثار
کو اپنا دوست کہہ کر مخاطب کرنا ایک اچھی بات ہے ۔جہاں تک طاہرالقادری صاحب
کی بات ہے تو ان کا سارا انحصار اپنے مریدوں پر ہے ان کے اگر ایک بھی
مطالبات پورے نہیں ہوئے تو ان کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ
ان کے پاس کوئی پارلیمانی قوت نہیں ہے وہ تو ایک سائیڈ ہیرو کے طور پر اس
ڈرامے کا حصہ ہیں ویسے بیشتر اہل وطن تو انھیں ایک کامیڈین کے طور پر لے
رہے ہیں ۔تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیا جائے کہ عمران خان ریڈ زون توڑنے
کا اعلان کرتے ہیں تو پھر کیا ہوگا اسلام آباد کی زمین ریڈ ہو جائے گی اور
کوئی تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی جب یہ تیسری قوت آتی ہے تو جن افراد یا
جماعتوں کے ذریعے سے آتی ان کو اپنے ساتھ ملا کر ان کی سیاسی حیثیت کو
بلندی سے پستی کی سطح تک لے آتی ہے اور جو افراد یا جماعتیں مستقبل میں ان
کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں یا وہ جن سے اقتدار چھینتے ہیں انھیں بھی وہ سیاسی
یا پھر جسمانی طور سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں عمران خان کے لیے سوچنے کی
بات یہ ہے کہ اگر اس طرح مجمع اکٹھا کر کے حکومت بدلنے کی روایت پڑگئی تو
کل مولانا فضل الرحمن پورے ملک کے مدرسوں سے دس لاکھ طلبہ کو جمع کر کے
اسلام آباد لا سکتے ہیں اس کے بعد کوئی اور یہ کام کر سکتا ہے یہ تو انارکی
پھیلانے والی بات ہو جائے گی ،دوسری طرف نواز شریف کو بھی سوچنا چاہیے کہ
آج آپ اعصابی جنگ جیت کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے پالا مار لیا بلکہ اگر آپ
نے تبدیلی اقتدار کے راستوں کو آسان نہ بنایا اور انتخابات پر سے عوام کا
اعتماد اٹھ گیا تو اس سے بھی ملک میں انارکی پھیلنے کا خطرہ ہے اس صورت میں
بھی کوئی طالع آزما موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے عمران خان کے مطالبات بالکل
غلط نہیں ہیں پچھلے الیکشن میں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی تو ہوئی ہے آپ
بیس پچیس سیٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات چیک کروالیں اگر دھاندلی پروف ہو
جائے تو کوئی مضائقہ نہیں مڈٹرم انتخابات کروالیے جائیں کراچی کے حوالے سے
تو الیکشن والے دن ہی سکریٹری الیکشن کمیشن کا یہ بیان آیا تھا کہ کراچی
میں تو الیکشن ہوئے ہی نہیں ہیں کراچی میں تو دوبارہ انتخابات ہونے چاہیے
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر معاملات
کو پوانٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے بچائیں اس پورے سیاسی بحران میں جماعت
اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق صاحب کی مصالحانہ اور متوازن شخصیت ابھر
کر سامنے آئی ہے ،اس سے یہ توقع باندھی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی
جماعتوں سے رابطہ کر کے اس بحران کا کوئی حل نکال سکتے ہیں ۔17اگست کے
کراچی میں غزہ ملین مارچ کے فوری بعد وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے
،اس سے قبل انھوں نے پی پی پی کے خورشید ساہ سے کراچی میں تفصیلی ملاقات کی
ہے اسلام آباد میں ان کی وزیر اعظم جناب نواز شریف سے ملاقات متوقع ہے اس
کے بعد شاید عمران خان سے بھی ملاقات ہو جائے بلکہ یقیناَ یہ ملاقات ضرور
ہونا چاہیے کہ اصل اسٹیک ہولڈر تو وہی ہیں عمران خان کو وزیر اعظم کے
استغفے کا مطالبہ واپس لینے پر غور کرنا ہو گا اس لیے کہ ان کی یاد دہانی
کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام
مصطفی میں پبلک میں تو بھٹو کا سر چاہیے کے نعرے لگ رہے تھے لیکن قومی
اتحاد بھٹو سے مستغفی ہونے کا مطالبہ کررہا تھا جس کی مولانا مودودی نے
مخالفت کی تھی کہ پی این اے کو بھٹو سے استغفیٰ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے
مولانا کے اس بیان پر اس وقت کے سیاست دانوں نے انتہائی خفگی کا اظہار کیا
تھا یہاں تک کے مولانا کو یہ کہنا پڑا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے،لیکن بعد
میں کیا ہوا کہ سعودی سفیر ریاض الخطیب کی ثالثی میں جب پی این اے کے بھٹو
سے مذاکرات شروع ہوئے تو پی این اے کو اپنے استغفے کا مطالبہ واپس لینا
پڑا،عمران خان کو بھی حکومتی وفد سے مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے
تاکہ مفاہمت کی کوئی راہ نکل سکے میرے خیال میں اس میں سب سے اہم اشو یہ
ہونا چاہیے کہ مڈ ٹرم انتخابات ہوں یا جنرل الیکشن ہوں آئندہ کوئی بھی
الیکشن ہو وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہو ،فوج کی نگرانی میں ہو ،الیکشن
کمیشن باختیار ہو ،انتخابی نتائج کا فوری اعلان نہ ہو ،ایک صوبے کے
انتخابات میں دوسرے صوبے کا عملہ بلایا جائے اور یہ کہ یہ انتخابات متناسب
نمائندگی کے تحت ہوں جنرل ضیاء کے زمانے ایک تجویز پر کام ہو رہا تھا کہ
قومی اسمبلی کی جتنی بھی نشستیں ہوں اس کے نصف پر عام انتخابات ہوں اور ان
انتخاب میں جو جماعتیں جتنے ووٹ حاصل کریں اسمبلی کی بقیہ نصف نشستیں ان
ووٹوں کے تناسب سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کر دی جائیں ،میرے خیال سے اگر اس
تجویز پر بھی غور کرلیا جائے تو موجودہ بحران سے ہم کوئی بہتر نتائج حاصل
کر سکتے ہیں ۔تو جناب سراج الحق صاحب آگے بڑھیے اور اس نازک موقع پر اپنا
تاریخی کردار ادا کیجئے- |