تحریر : فرحین چوہدری
اتنے دن سے اعصاب تناؤ کا شکار ہیں ، میڈیا چلا چلا کر گلا پھاڑ پھاڑ کر
کچھ دھنڈورے پیٹ رہا ہے ، مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کے اپنے اپنے خیالات
بھانت بھانت کی بولیاں ۔سکرین پر عمران خان اور قادری صاحب کے شغل میلے ،
پھولی ہوئی رگیں ، دھواں دھار تقریریں ، حکومتی حلقوں کی وضاحتیں اور
وارننگز ، ان سب کے درمیان کچھ مصالحتی کردار ، جیسے سراج الحق اور کئی
پردہ نشین ، جن کی مفاہمتی کوششیں قابال ستائیش ہیں ۔
لیکن سب سے زیادہ حیرت ان عوام پر ہے جو بار بار دہرائے جانے والے ـ ’’سین‘‘
پھر دُہرا رہے ہیں ۔ جوش و خروش کے ساتھ ، پکنک منانے آ جاتے ہیں ، جنہیں
اس ملک کے مستقبل سے زیادہ شائد ہلا گُلا اور تھوڑی سنسنی زیادہ پسند ہے ۔
یا پھر پِسے ہوئے طبقات جو گھر میں بھی بے چین اور معاشی مسائل کا شکار ہیں
، کم از کم جلوس کا حصہ بن کر کھانا پینا اور ’’شغل‘‘ ساتھ ساتھ رہے گا ۔
کئی دن سے صورت ِ حال کا جائزہ لینے کے بعد کل میں خود رات گئے تک پورے
اسلام آباد میں پھرتی رہی ، ہر طرف امن امان ہے ، لوگ حسب معمول رات بارہ
بجے بھی مارکیٹیس اور ریسٹورنٹس میں موجود تھے ، تمام کنٹینرز ہٹا دیے گئے
تھے ۔ اور اردگرد کے سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں ۔
شاید ہمارے پاس ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ باشعور اقوام کی طرح کرنے کو
اور کچھ نہیں سو ہم سال دو سال میں ایک ایسا عوامی مظاہر یا تماشا بپا کرکے
اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ، ورنہ تو ہم سو رہے ہیں ۔ سو نہ رہے ہوتے
تو کم از کم اتنا ضرور سمجھ لیتے کہ میڈیا سنسی خیزی اور اشتہارات کی
بھرمار کے لیے صرف منفی خبریں اور تصادم کے ہی واقعیات دکھاتا ہے ۔ پاکستان
میں اسلام آباد میں ہونے والی مثبت سرگرمیوں سے تعمیراتی منصوبوں سے ،
محفلوں سے اسے کوئی غرض نہیں کہ ایسی خبروں میں سنسنی خیزی نہیں پہچان نہیں
۔
میں قلم اٹھانے پر مجبور ہوئی جب میں نے چونکتے ہوئے عمران خان کا بیان
سُنا ’’وزیراعظم عمران خان جھوٹ نہیں بولے گا‘‘
اور تو کیا اب تک عمران خان جھوٹ بول رہے تھے؟ اور جھوٹ بولتے رہیں گے وزیر
اعظم بننے تک ؟ اور جمہوریت کی بجائے وہ کرسی کے پیچھے بیچھے قافلہ لیے چل
رہے ہیں ۔
اُدھر قادری صاحب کنیڈا سے فلائیٹ پکڑتے ہیں اور دل ہنگامہ خیز کی تسلی کے
لیے یہاں تقریریں جھاڑ کر چند ہزار کے مجمعے میں تالیاں بجوا کر اپنی سیاسی
انا کی تسکین کے بعد سدھار جاتے ہیں ۔
دونوں کا آپس میں طالبان کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں ۔ پھر انکے ساتھ وہ
سارے آزمائے ہوئے اور پٹے ہوئے مہرے ہیں جنکی کرپشن کی داستانیں عوام کو
بھولی نہیں ہونگی ، جنکیے صاحبزادوں اور برادران آمریت اور جمہوریت دونوں
کے مزے لوٹے اور جوتیوں میں دال بانٹی ۔ ایسے لوگ کیا انقلاب لائیے گے اور
اس انقلاب کی کیا صورت ہو گی ؟ خدارا جاگ جائیں میرے پیارے پاکستانیو اپنے
مستقبل سے مت کھیلو ، اس وطن کی آزادی سے تعمیر و ترقی سے بہت ہو چکا مذاق۔
یہ لوگ جو ایک صوبے کو دس دس سال کے حکومتی ادوار کے دوران ملک کو نہ
سنبھال سکے نہ عوام کو کچھ دے سکے اب کیا دیں گے ؟
بات یہ ہے کہ وطنِ عزیز آج ہی نہیں پچھے ۶۸ سال سے آزمائیشوں سے گزر رہا ہے
، اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں کے ہاتھوں زخم در زخم ہے ۔ آنے والا جانے
والے پر الزام لگاتا ہے ، خزانہ خالی ہونے کا واویلا مچاتا ہے ، جبکہ یکایک
بیرون ملک اکاوٗنٹ اور اثاثے بڑھنے لگتے ہیں انکے ، احتساب کا نعرہ بلند
ہوتا ہے اور پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں سارے نعرے ’’مُک مکا‘‘ کے پردوں
تلے دم توڑ دیتے ہیں ۔
بچپن سے آج تک یہ چند کھوکلے نعرے سُنتے آئے ہیں
’’ملک لٹیروں کے حوالے ہے‘‘
’’ہم انقلاب لائیں گے ‘‘
’’غریب عوام کی مشکلات ختم کریں گے‘‘
لیکن حیرت سے ہم دیکھتے رہے کہ نعرے وہ ہی رہے مگر سیاست کی سکرین پر چہرے
بدلتے گئے ۔ دستانے پہنے ہاتھ عوام کا خون نچوڑتے رہے ، لاشوں کی سیاست
ہوتی رہی ، ملک لُٹتا اور ٹوٹتا رہ ، میرا پاکستان زخموں سے چور چور اپنا
سفر طے کرتا رہا۔ نہ احتساب ہوا ، نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئی اور نہ ہی
عوام کی قسمت بدلی ۔
یہ سارے نعرے ’’کڑاہی کے اُبال‘‘ کبھی کُرسی کی محبت میں کبھی بیرونی
اشاروں پر اور کبھی اپنی ’’دماغی صلاحیتیوں‘‘ کی بدولت آتے اور جاتے رہے ۔
جانے ہماری عوام کی یاداشت اس قدر کمزور کیوں ہے ؟ ان انقلابی لیڈروں کے
اصل چہرے بھول کیوں جاتی ہے ؟ آمروں کے آگے جھکنے اور مفادات کے سودے کرنے
والے یہ پرانے پٹے ہوے مہرے سیاست کی نئی بساط پر نئی چال چلتے کے چکروں
میں ہیں ۔
جاتے جاتے ایک ہاتھ اور سہی قوم کے ساتھ !
عمران خان کو اﷲ نے ویژن دیا ، قوم کی محبت ملی ، کھلاڑی کے طور پر ، لیکن
وہ بھول رہے ہیں کہ کھیل اور سیاست کے میدان کے اصول بہت مختلف ہوتے ہیں ،
اقتدار کی جنگ میں تو باپ بیٹے کا دشمن اور بیٹا باپ کا دشمن ہوتا ہے ۔
کھیل میں تو ہار جیت کے بعد مخالفین ایک دوسرے کوگلے لگاتے ہیں ۔
پاکستانی کی حیثیت سے محض اپنی غیر جانبدرانہ سوچ اور تجزیہ آپ کے سامنے
پیش کر رہی ہوں۔
مجھے اس وطن کی گلیوں سے ، میدانوں سے ، جنگلوں سے ، ذرے ذرے سے پیار ہے ،
اس وطن کے ہر شہری سے آنے والی نسلوں کے ہر چہرے پر خوشی اور اطمینان
دیکھنا چاہتی ہوں ، یہ ہی ہم سب کا خواب ہے ، لیکن اس وقت میں جب ہماری
سرحدوں پر ہرجانب سے بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں ، پاک آرمی اندر چھپے دہشت
گردوں اور بیرونی دشمنوں سے برسر پیکار ہے ، ایسے کڑے وقت میں حکومت اور
فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے قوم کو آپس میں لڑانا انکی توجہ دوسری
جانب مبذول کروانا اور معاشی نقصان کرنا کیا ملک کے ہمدردوں کا کام ہوتا ہے
یا دشمنوں کا؟
۱۳۰۰ ارب سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے ، معیشت کو ان چند دنوں میں عملی
طور پر کاروبار ٹھپ ہیں ، دماغی طور پر لوگ مفلوج ہوئے ہیں ، ٹی وی کے آگے
بیٹھے تبصرہ آرائیوں میں مصروف ہیں ، یہ قوم کا تعمیری سفر ہے یا تخریبی
سفر؟
خُدارا اس قوم پر اس ملک پر رحم کھائیں ، بہت ہو چکے جمہوریت اور انقلاب کے
نام پر ڈرامے اور دھرنے ، یہاں کیا الیکشن میں پہلے کبھی دھاندلی نہیں ہوئی
؟ ،مظاہروں میں کبھی لوگ نہیں مارے گئے ؟ کراچی میں سالہا سال سے قتل و
غارت بپا ہے ، شہری کٹ رہے ہیں گورنر سے پچھلے ۱۳ سال سے کسی نے استعفٰی
مانگا؟ ، کے پی کے میں دو مہینے بعد اداروں میں جھگڑے ہوتے ہیں سیٹوں پر ،
وہاں دہشت گردی کے واقعیات پر عمران خان نے حکومت چھوڑی ؟
اگر ایسے ہی مقدمات کھولنے ہیں تو پھر سب سے پہلے ’’انقلابی‘‘ اپنا احتساب
کریں ۔
طاہر القادری صاحب اپنی پارٹی کے فنڈز اپنے کنیڈا میں قیام ، اپنے اصل
اغراض و مقاصد اور Imported انقلاب کا اصل چہرہ عوام کو دکھائیں ۔ مذہب کے
نام پر عوام کو گمراہ نہ کریں ، عمران خان سالہا سال سے جمعے کیے گئے صدقات
خیرات اور کھالوں کا حساب دیں ، شوکت خانم اور دیگر بزنس کی تفصیلات عوام
کے سامنے لائیں ، بورڈ آف ڈائرکٹرز کے نام بتائیں اور پوری ایمانداری سے
حساب دیں۔
حدیث میں ہے سنگسار کرنے والوں میں وہ شامل ہو جنہوں نے خود کبھی کوئی گناہ
نہ کیا ہو ، اس کے بعد ۶۸ سال سے حکمران اور سے احتسابی عمل شروع ہو ۔
ہر حکمران کے دور میں ہونے والی کرپشن ، قتل و غارت ، آئینی دست درازیوں ،
آمریت و جمہوریت کی آر میں مفادات کی جنگ ، بیرون ممالک میں اثاثوں کی
تفصیلات ، سب کچھ عوام کے سامنے لایا جائے
ایک غیر جانبدارانہ کمیشن کے ذریعے ان میں موجود ناموجود کو سزائیں سنائیں
جائیں ۔ اس کے بعد موجودہ حکمرانوں کا بھی احتساب کیا جائے ۔
کئی کئی سال آمروں کو وقت دیا ، کمیشن مافیا کو چھوٹ دی ، خود کُش حملوں کے
بانیوں سے دوستیوں کے ہاتھ بڑھائے ۔
تو پھر جمہوری حکومت سے صرف ۱۴ ماہ بعد ہی استعفٰے کا مطالبہ کسی اور ہی
سمت میں اشارہ کرتا ہے ۔
چین ، تُرکی اور ملائشیاء کے مالی اورتکنیکی تعاون سے حکومت ِ پاکستان کا
پیسہ لگائے بغیر دھڑا دھڑ تعمیری منصوبوں کی تکمیل شائد کھٹک رہی ہے کسی کو
؟
عوام کو ان منصوبوں کی تکمیل اور تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہیے تا کہ محض
افواہوں کی بنیاد پر کرپشن کے الزام ختم ہوں ، یہ حکومت کی ذمے داری ہے ،
ورنہ ایسے مداری ، عوام کو ہجوم میں تبدیل کر کہ تعمیری عمل کی راہ میں
رکاوٹ بنتے رہیں گے ۔
یاد رکھیں ایسے بچکانہ ، غیر حقیقی اور نعرے بازی والے رویے تاریخ معاف
نہیں کیا کرتی ، ایسے غیر جمہوری سیاسی رویوں کے باعث ہم پچھلی کئی دہائیوں
کے باوجود تمام تر معدنی زمینی اور انفرادی وسائل کے باوجود مسائل کا شکار
ہیں سب زیادہ نقصان مجھے ، آپ کو ہم عوام کو اور پاکستان کو پہنچ رہا ہے ،
یہ سارے لیڈران اے بی سی نام کچھ بھی ہوں انکے یہ تو اپنے محفوظ محلات میں
آرام فرمائیں گے ، طیاروں میں اڑیں گے ، ان کے بچے بہترین یونیورسٹیوں میں
تعلیم حاصل کریں گے ، کرتے ہیں ، بیرون ملک علاج ، عیاشی اور چین کی بنسی
بجتی رہے گی ۔ سہتا کون ہے ؟ بھُگتتا کون ہے ؟ مرتا کون ہے ؟ اور کس کی
نسلیں غربت کی چکی میں پستی ہیں ؟ عوام کی ۔ ۔ ۔ ہماری سوچیں کون ہے جو
ترقی کے ہر سنگِ میل پر پہنچنے سے پہلے ہی انتشار پھیلاتا ہے ، کس کی نظر
میں پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کھٹکتی ہے ؟
کون ہے ہمارا اصل دشمن ؟ اسے پہچانیں اسکے چہرے سے نقاب نوچ ڈالیں اگر بقا
چاہتے ہیں ، کب تک عوام قُربانی دیں ؟؟
اب انکی قربانیوں کا وقت ہے ، انکے وسائل کے خرچ کرنے کا وقت ہے جو صرف
دُگڈگی بجاتے ہیں ، جیبیں بھرتے ہیں اور روانہ ہو جاتے ہیں ۔
جہا ں اتنے سال انتظار کیا ، دو سال اور سہی ایک منتخب حکومت کو پچھلے
مسائل سمیٹنے اور آگے کے سفر کے لیے مہلت تو دیں ۔ نہ حکومت فرشتوں کی ہے
نہ انقلابی آسمان سے اُترے ہیں ، تھوڑا وقت اور۔۔ |