انصاف؟

انقلاب، انصاف اور انسانی حقوق کی بات چلی تو میرے والد محترم چوہدری محمد حسین صاحب نے ایک تاریخی واقعہ سنایا کہ 1930-35 کی بات ہے، پونچھ (مقبوضہ) کے ایک نوجوان مولانا ہدایت اﷲ چیچی حصول علم کے لیے پنجاب میں تھے، گھر واپس جاتے ہوئے ان کا گزر جہلم سے ہوا، جہاں ان کا ایک بیگ جس میں ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد موجود تھے، کسی نے چوری کرلیے۔ مولانا نے تھانے میں اس واقعے کی رپورٹ درج کروائی اور اپنے وطن (پونچھ) کے لیے روانہ ہوگئے۔ جہلم سے پونچھ تک چار دنوں کا پیدل سفر تھا، وہ کئی دنوں کے مسافت کے بعد گھر پہنچے، ان کا تعلق پونچھ شہر کے نواحی گاؤں کھنیتر سے تھا۔گرمیوں کے موسم میں اہل کھنیتر اپنے مال مویشیوں سمیت ڈھوک (بلند چوٹیوں) کی طرف چلے جاتے تھے۔ مولانا بھی اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھوک چلے گئے جو پونچھ سے مزید دو دن کی پیدل مسافت پر تھا۔ مولانا کی آمد کے ایک ماہ بعد جہلم سے ایک پولیس اہل کار مولانا کو تلاش کرتا، کرتا کھنیتر پہنچا، وہاں سے مولانا کو ملنے ڈھوک چلا گیا یوں تقریبا ایک ہفتے کی پیدل مسافت کے بعد پولیس اہل کار مولانا ہدایت اﷲ سے ملا اور انہیں ساتھ لے کر جہلم چلا گیا۔ جہلم پہنچ کر تھانیدار نے انہیں ان کا چوری شدہ بیگ، جس میں ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد تھے ، حوالے کیے۔

مولوی ہدایت اﷲ پونچھ سے آزادی کی خاطر ہجرت کرکے تراڑکھل آباد ہوئے،وہ ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد انہوں نے آخری دن تک قانونی کی حکمرانی کی آخری نشانی کے طور پر اپنے پلے باندھ رکھے، سالوں آزادکشمیر میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کرتے مایوسی کے عالم میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پتہ نہیں کتنی نسلوں کو اس دن کی انتظار میں موت کو گلے لگانا پڑے گا۔ آج معاملہ حد سے گز ر گیا ہے، ظالم تو ہر دور میں موجود رہاہے ہیں لیکن اس کو للکارنے والوں سے میدان کبھی خالی نہیں رہا، آج کا دورللکار سے خالی ہے۔ ظلم کے راستے میں رکاوٹ بننے والا کوئی نہیں۔ رہبر بھی رہزوں کے ہمنوا ہیں، اﷲ ہی اس قوم کو ان رہبروں اور رہزوں سے نجات دلائے۔

گزشتہ ہفتے کی دو معمولی خبروں نے مجھے بے سکون کر رکھا ہے۔ میرے ذہن میں انگریز دور کا انصاف جس کی ایک مثال مولانا ہدایت اﷲ کے ساتھ پیش آنے والا واقع تھا اور ایک تصویر پاکستان کے موجودہ دجالی نظام کی ہے۔ ملاظہ فرمائیے اخباری خبر کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ کی بیٹی جو بیرون ملک سے اسلام آباد ائیر پورٹ پر پہنچی تو اس کے سامان سے شراب کی قیمتی بوتلیں برآمد ہوئیں، اطلاعات کے مطابق پولیس نے شراب قبضے میں لے کر صاحب بہادرکی بیٹی کو بخیروعافیت روانہ کردیا ، دوسرے روز اسی اخبار میں یہ خبر شائع ہو ئی کہ ایک خاتون اپنے والد کے ہمراہ برطانیہ جارہی تھی، اس کے ہینڈ بیگ سے پستول کی ایک گولی برآمد ہونے پر پولیس نے باپ اور بیٹی کو حراست میں لے کر کاروائی شروع کر دی۔ہمارے معاشرے میں اس طرح کی ہزاروں کہانیاں ہیں لیکن مولانا ہدایت اﷲ کے ساتھ پیش آنے والے واقع کی ایک بھی کہانی ڈھونڈے کو نہیں ملے گی۔

قانون کی حکمرانی کی اس سے عمدہ مثال کیا ہوسکتی ہے۔ کیا آج کا آزادکشمیر یا پاکستان ایسی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون کہاں ہے، انصاف کس شے کا نام ہے۔کیا ہمیں آزادی کے بعد ایسا انصاف مل سکا، قانونی کی ایسی حکمرانی دیکھنے کو ملی؟ ہم تو رشوت کو عباد ت سمجھ کر قبول بھی کرتے ہیں اور ادا بھی۔جو ’’رشوت‘‘ سے انکار کرے، اس کے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر شک کیا جاتا ہے۔ مجھے پاکستان سے عقیدت ہے لیکن قانون کے لفظ سے شدید نفرت ہے۔جس ملک کے حکمران، انتظامیہ، عدلیہ اور عسکری ادارے قانون کی روزانہ توہین کرتے ہوں اور غریب عوام کو معمولی قانون شکنی پر سزا دیتے ہوں، ایسے معاشرے سے محبت کون کرے گا۔ اس دجالی سماج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان سارے مسائل کا حل تو اسلامی نظام زندگی ہے ۔ جو ایک، ایک فرد تو تبدیل کیے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ یہ فریضہ کون ادا کرے گا۔سید مودودی ؒ نے جب اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے کہاتھا کہ کوئی یہ کام کرے نہ کرے مجھے تو اکیلے ہی یہ کام کرنا ہے۔ اس کام میں اپنی زندگی تج دینی ہے۔ آج ان کے پیروکار بھی اگر اس نصیحت پر توجہ دیں تو حالات کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117134 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More