کون جیتا کون ہارا

ہمارے ملک کی بد قسمتی اور بد ترین زبوں حالی نہیں تو اور کیا ہے کہ نہ کبھی جمہوری حکومت کامیاب رہی اور نہ آمریت،فوجی قیادت میں پاکستان کا نظام صحیح طور پر عمل کر پاتا ہے اور نہ جمہوریت میں ،موجودہ جمہوری دور بھی دھیرے دھیرے سرمایہ کی طاقت اور بیرونی دباؤ کے عمل دخل سے بگڑتا جا رہا ہے اور جمہوریت کی صحت تمام تر دعوؤں کے باوجود کمزور ہو رہی ہے ،عمران خان اور طاہر القادری کی قیادت میں نواز شریف کے خلاف دھرنے عروج پر ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا مارو یا مر جاؤ،ایک ہفتہ سے جاری احتجاج نے پاکستان کو تین سو پچاس کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے ،آزادی اور انقلاب احتجاج کا موقف ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دیں اسمبلیاں تحلیل ہوں ہم برسر اقتدار آئیں اور نیا جمہوری پاکستان بنائیں نہیں تو یہ دھرنے جاری رہیں گے،دونوں لیڈر ان دھرنوں کو انقلاب سے منسوب کر رہے ہیں اور نواز شریف ان کے دھرنوں نما انقلاب کو دن رات کچلنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا ۔

جمہوریت ایک واضح اور ٹھوس نظریہ ہے اس میں نہ کسی قسم کا ابہام ہے اور نہ ہی کسی اور نظریہ کی ملاوٹ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کو ایک نظریے کی بجائے اقتدار اور حصول کی ہوس کا زینہ بنا کر استعمال کیا جاتا ہے گزشتہ کالم میں جمہوریت کے اہم نکات پیش کئے تھے ان نکات میں سے ایک نقطہ پر بھی پاکستان میں عمل درآمد نہیں ہوتا ،سیاسی پارٹیاں بر سر اقتدار آتے ہی بڑے پیمانے پر ملکی خزانے کو لوٹنا شروع کر دیتی ہیں اور ذاتی ملکیت سمجھتی ہیں آج پاکستان کو جمہوریت کے نام پر نقصان پہنچایا جا رہا ہے ،موجودہ نظام میں اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ممبر کو ہی جمہوری نظام کا محافظ سمجھا جا رہا ہے اور نظام کو انگلیوں پر نچانے کا اختیار بھی انہیں سونپ دیا گیا ہے ۔

پاکستان میں ایوب خان ، یحی ٰخا ن،ضیا الحق اور نہ ہی پرویز مشرف بہتر حکمران ثابت ہوئے ،ان حکمرانوں نے کسی بھی طرح پاکستان کو معاشی پسماندگی سے نجات نہیں دلائی اسی لئے پاکستان کے عوام بھی ایسے حکمرانوں سے ہمیشہ نالاں رہے کیونکہ یہ حکمران ہمیشہ اپنی کرسیوں کو مضبوط کرنے میں مصروف رہے اور عوام کی جانب کوئی دھیان نہ دیا،لیکن پھر بھی عوام جب جب نام نہاد جمہوریت سے عاجز آئی یہی دعا کی کہ فوج آئے اور جب فوج کرسی سنبھالتی ہے تو جمہوریت کے دعوے دار بیرون ممالک سے آمر آمر کی رٹ لگا کر انہیں غدارکا لقب دیتے ہیں،اور یہ کھیل جاری رہتا ہے اسی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے اور عوام بھوک و افلاس کی چکی میں پستی ہے۔

ہمیں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ حالات بھی انسان کا اس وقت ساتھ دیتے ہیں جب خود انسان کے اندر ایمانداری سے آگے بڑھنے کی سچی لگن ہو کسی کے کندھے پر رکھ کر بندوق نہ چلائی جائے بلکہ اپنی ہمت ، طاقت اور جدو جہد کو بروئے کار لایا جائے،ایک دوسرے سے مخلص رہیں ، یاد رہے انتقام انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین کر ناکارہ بنا دیتا ہے ،انسان کی زندگی بہت مختصر ہے کسی کو اپنی موت کا علم نہیں کہ کب اور کہاں اس کا مقدر بن جائے اس لئے ہم اپنے ہر دن کو غنیمت اور آخری دن جانیں اور ایمانداری سے ایک مثالی زندگی اپنائیں ۔کسی شے کا درست اور بہتر استعمال ہی اس کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے اور کامیابی کی دلیل ہوتا ہے ،ہمیشہ وہی افراد تاریخ میں زندہ رہتے ہیں جو اپنا آج۔ کل کے لئے محفوظ بنا لیتے ہیں کیونکہ نیک نیتی اور جدو جہد سے معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اس لئے سب سے پہلی شرط حکمرانوں میں ایمانداری لازم ہے اور یہی راستہ کامیابی کا بھی جو ہمیں منز ل تک پہنچا سکتا ہے ،پاکستان کی حالت اس وقت ہی سدھر سکتی ہے جب یہ کٹھ پتلی حکمران امریکا کے سیاسی پنجے سے بچ سکیں، ملکی حالات بد سے بد تر ہو رہے ہیں ساری دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہیں عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے ،کہ نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے ایسے میں لیڈرز اپنی ضد اور انا پرستی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس خطرناک کھیل کے انجام سے بے خبر ہیں ،جیت یا ہار کا فیصلہ سرحدوں پر ہوتا ہے جبکہ ریاست کے اندر محاذ بنا لئے گئے ہیں ،ایسے میں دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں خانہ جنگی یا پھر فوج۔فیصلہ ان لوگوں کو کرنا ہو گا کہ اس تماشے سے کس کا نقصان ہو گا کس کو ٹھیس پہنچے گی ان کی انا کو یا ملک وقوم کو؟

اگر نواز شریف استعفیٰ دے دیتے ہیں اور دوبارہ شفاف الیکشن ہونے پر عمران خان اور طاہر القادری بر سر اقتدار آجاتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ دو سال کے اندر پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نون نے پھر انقلابی پارٹیوں کا جینا حرام کر دینا ہے،پھر کسی اور مسئلے کو ایشوز بنا کر شارٹ اور لانگ مارچ ہوں گے پھر حکومت برطرف ہو گی ،پھر حمزہ شریف اور بلاول بھٹو میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گی اور تاحیات جاری رہے گی۔

سوال یہ ہے یہ سب اقتدار کی جنگ جاری رکھیں گے لیکن عوام کا کیا ہو گا ؟ ہمارے باپ دادا یہ جنگیں دیکھ چکیں ہیں آج ہم دیکھ رہے ہیں کل ہماری اولاد دیکھے گی واہ جمہوریت ۔ملک ہو تو پاکستان جیسا۔حکمران ہوں تو پاکستان جیسے ۔عوام ہو تو پاکستان جیسی۔۔۔۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246016 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.