گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستانی عوام بے یقینی کی کیفیت میں
مبتلا ہے اور روز بروز اس بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے
عمران خان اور عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے اپنے کارکنوں کو
جمع کرکے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے گراؤنڈ کو میدان
کارزار بنا رکھا ہے۔ دونوں رہنماؤں کی گفتگو ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مزید
تلخ ہوتی جاتی ہے اور دونوں کارکنوں کے شور کے زور پر حکومت پاکستان اور
ریاست کے دوسرے اداروں سے وہ کام کروانے پر مصر ہیں، جو بظاہر ناممکنات میں
دکھائی دیتا ہے۔ دونوں حضرات آئینی اور قانونی طور پر متفقہ منتخب کیے گئے
وزیراعظم کو چلتا کرنے پر بضد ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو ہر
حال میں استعفیٰ دینا ہوگا، اگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا تو ان کی حکومت کو
نہیں چلنے دیں گے اور پہیہ جام کردیں گے۔ سول نافرمانی کا اعلان تو وہ پہلے
ہی کر چکے ہیں، جبکہ حکومت کسی غیر آئینی و غیر قانونی مطالبے کو ماننے کے
لیے تیار نہیں، لہٰذا حکومت کے دونوں ”انقلابیوں“ کے ساتھ ہونے والے اب تک
کے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ حالات یہی بتاتے ہیں کہ حکومت معاملات
کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے،اسی لیےسپریم کورٹ کی جانب سے دھرنوں
کو ہٹانے کے حکم کے بعد بھی حکومت نے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔مبصرین کے
مطابق عمران خان اپنے سخت اورغیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے دن بدن تمام حلقوں
میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، جبکہ حکومت کی اسی پرامن پالیسی نے تمام
اپوزیشن جماعتوں اور تقریباً پوری پاکستانی قوم کو حکومت کا حمایتی بنا دیا
ہے۔ یہ شاید ملک میں پہلا موقع ہے کہ تحریک انصاف کے سوا تقریباً اپوزیشن
پارٹیاں بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروا
رہی ہیں۔ بلکہ اکثر پارٹیاں کھلے عام پارلیمنٹ کے باہر دیے جانے والے
دھرنوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کو جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دے رہی ہیں۔
سابق صدر زرداری وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ان کی حمایت کا اعلان کر چکے
ہیں اور جماعت اسلامی پہلے سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جبکہ
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کارکنوں کو اسلام
آباد دھرنوں کے خلاف مظاہروں کی کال دے دی ہے اور جمعیت علمائے اسلام(ف)
پہلے سے اسلام آباد میں دھرنوں کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے، ان کے
علاوہ کئی غیر سیاسی جماعتیں بھی اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنوں کے
خلاف احتجاج کر چکی ہیں، لیکن عمران خان کسی کی بات ماننے کے لیے تیار ہی
نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وہ اب ایسی بند گلی میں پہنچ چکے ہیں کہ اس
سے نکلنے کا راستہ وزیر اعظم سے استعفیٰ یا سیاسی خودکشی ہے، اس لیے عمران
خان دھرنوں کی ناکامی سے مستقبل میں ملنے والی بدنامی کے خوف سے بار بار
وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں، حالانکہ یہ واضح ہے کہ کسی منتخب
آئینی وزیراعظم سے یوں زور زبردستی استعفیٰ لینے کی آئین اجازت نہیں دیتا،
لیکن وہ کسی کی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ دن بدن
بالکل تنہا ہوتے جارہے ہیں، ان کی اس تنہائی پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز
کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کے خلاف ہوچکی ہیں، پرجوش
انداز میں کھیل کا آغاز کرنے والے عمران خان کو اب دھرنا پرامن انداز میں
ختم کرنے کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ آزادی مارچ میں
لوگوں کی تعداد تحریک انصاف کی توقعات سے کہیں کم رہی، جس کی وجہ سے احتجاج
موثر اور نتیجہ خیز نہ ہوسکا۔ دباﺅ کا حربہ کام نہ آنے پر عمران خان کو
انتہائی اقدامات کے اعلانات کرنے پڑے۔ سول نافرمانی کے اعلان اور کارکنوں
کو ٹیکس اور یوٹیلٹی بل نہ دینے کی ہدایت کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا۔ حکومت
اور تحریک انصاف دونوں پر بحران کے حل کے لیے دباﺅ بڑھتا جارہا ہے۔ معاملات
آگے بڑھانے کی کنجی عمران خان کے پاس ہے، جنہیں اپنے احتجاج کو پرامن طور
پر ختم کرنے کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔
عمران خان کی سیاسی تنہائی کا معاملہ یہی تک نہیں رکا، بلکہ اب تو ان کی
اپنی جماعت میں بھی پھوٹ پڑچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے ایوان زیریں کی
رکنیت سے مستعفی ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا گروپ تشکیل دیتے ہوئے اپنا
چیئرمین بھی منتخب کرلیا ہے۔ 13 ارکان اسمبلی پر مشتمل اس گروپ نے گلزار
خان کو اپنے لیڈر کے طور پر منتخب کیا ہے، جبکہ گروپ کے لیے ایک وائس
چیئرمین کو بھی چنا گیا ہے۔ ریٹائر بیوروکریٹ گلزار خان نے پی ٹی آئی میں
عام انتخابات سے ایک سال قبل شمولیت اختیار کی تھی اور وہ این اے 4 پشاور
سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ جب کہ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پی ٹی
آئی کے مزید ارکان اسمبلی اس مخالف گروپ میں شمولیت پر غور کر رہے ہیں۔ ان
ناراض اراکین کا اجلاس پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اپنے پارلیمنٹ میں موجود
افراد کے استعفوں کے بیان کے بعد ہوا۔ ذرائع کے مطابق ناراض گروپ کے کچھ
لوگوں نے اپنی نشستوں کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور ناراض گروپ کے ایک
رکن کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کو کہہ دیا ہے کہ ہم اسی صورت میں
مستعفیٰ ہوں گے، جب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، صوبائی وزراءاور ارکان اسمبلی
استعفے دے دیں گے، اس کے بغیر ہم اپنی نشستوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ پارٹی
قیادت اپنی کے پی حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی
ارکان قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے کا کہہ رہی ہے، جو کہ موقع پرستی لگتا
ہے۔ یہاں کوئی اصول نہیں۔“ واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی ارکان
کے استعفے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے
گنتی نہیں کی کہ 34 میں سے کتنے استعفے انہوں نے جمع کرائے ہیں۔ تاہم وفاقی
دارالحکومت کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی نے صرف سترہ استعفے جمع
کرائے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین نے اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنوں کو ملک کے لیے
انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہی صورتحال مزید کچھ دن
جاری رہی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ تعلیمی ادارے بند ہیں، سرکاری
دفاتر اور وزارتوں میں کام ٹھپ ہے، سیکورٹی فورسز خاص کر پولیس کی اکثریت
دھرنوں کی حفاظت پر مامور ہے، جس سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے بقول
”لانگ مارچ“ کے منفی اثرات لمبے عرصے تک پاکستان کی معیشت کا پیچھا کرتے
رہیں گے۔ مالی نقصان اگر پورا ہوا بھی تو اس میں کئی سال لگ جائیں گے، جبکہ
تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر کئی نقصانات ایسے ہیں جن کی شاید کبھی تلافی نہ
ہوسکے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیرکے
مطابق لانگ مارچ کے باعث ملکی معیشت کو یومیہ 150 ارب روپے کا نقصان ہو رہا
ہے۔ اس طرح چند دنوں میں مارچوں سے ملکی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان
ہوا، جبکہ دھرنا تاحال جاری ہے اور نہیں معلوم کہ مزید کتنے دن جاری رہے
گا۔ طلبہ کی تعلیم پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ دارالحکومت کے تعلیمی اداروں
کی تعطیلات میں تیسری مرتبہ توسیع کے بعد ان کے ستمبر میں کھلنے کے امکانات
ہیں۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ دو غیر
ملکی سربراہ مملکت اور ورلڈ بینک کے وفد نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا
ہے۔ دھرنوں کے سبب روپے کی قدر میں ایک ہفتے کے دوران دو روپے سے بھی زیادہ
کی کمی ہوچکی ہے۔ دھرنے کے انسانی صحت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں، دھرنوں
کی وجہ سے سیکڑوں افراد گیسٹرو ”اسہال“ قے اور بلڈ پریشر کم ہونے سے بیمار
ہوچکے ہیں۔ ریڈ زون میں مارچ اور دھرنے کے سبب وزارتوں میں بھی کام ٹھپ پڑا
ہے۔ وہاں پر سب سے زیادہ مشکلات وزرات مذہبی امور کو درپیش ہیں، کیوں کہ حج
سیزن سرپر ہے، لیکن سعودی سفارتخانے کی طرف جانے والے راستے بند ہیں، جس سے
حج آپریشن میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہدھرنا
سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو مدنظر رکھیں۔
قادری صاحب تو موجودہ نظام کے ہی قائل نہیں ہیں، جبکہ عمران خان کو تو اپنے
مطالبات کو آئینی حدود تک محدود رکھنا چاہیے، اگر وہ یونہی اپنی ضد پر قائم
رہیں گے تو معاملہ مزید طول پکڑتا جائے گا اور ملکی کو روز بروز اربوں روپے
کا نقصان ہوگا، جس سے یقینا ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ |