خفیہ سفارتکاری تحریک آزادی
کو ختم کرنے کی سازش یا مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ بھارتی کوشش۔۔؟ محترم قارئین بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر
پر خفیہ سفارتکاری کے حوالے سے راقم نے جب شیخو جی سے سوال کیا کہ 62سال ہو
چکے مسئلہ کشمیر بھارت کی ہٹ دھرمی، ہمارے آپس کے نفاق، کمزور مؤقف، عالمی
برادری کی بے حسی اور وطن عزیز میں جمہوریت کے عدم استحکام کی وجہ سے حل
نہیں ہو سکا، تاہم اب کی بار تو بھارت نواز جماعتیں بھی اس مسئلہ کے فوری
حل کے لئے میدان میں کود پڑی ہیں اور خود بھارت بھی اس مسئلہ کو حل کرنے
کےلئے تمام کشمیری حریت قیادت کےساتھ بات چیت کرنے پر تیار ہے ۔آپ کا کیا
خیال ہے کہ اس مرتبہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔۔۔؟
شیخو جی ۔۔۔ دیکھو پیارے مسئلہ کشمیر کے حوالے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی
چاہئے کہ یہ بنیادی طور مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور جدوجہد کا ہدف” آزادی
برائے اسلام “ہے، جو لوگ مسئلہ کشمیر کو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام سے
جوڑتے ہیں، وہ دراصل لادین سیاست کے پیروکارہیں اور وہ کسی بھی صورت میں
اسلام یا ملت کو فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع
ہوتا ہے جب وہ دین و سیاست میں تفریق کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں آپ نے یہ خبر
نہیں پڑھی کہ مقبوضہ و آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری سول
سوسائٹی کے نمائندوں اور حریت قائدین نے نئی دہلی اور بھارت نواز کشمیری
جماعتوں کے ساتھ بعض حریت پسند رہنماﺅں کی مجوزہ بات چیت کی شدید الفاظ میں
مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ بھارت کا دراصل کشمیریوں کی تحریک آزادی
کو ختم کرنے کا ایک اور حربہ ہے۔ یہ خلاصہ ہے مقبوضہ جموں کشمیر ہائی کورٹ
بار ایسوسی ایشن کے اہتمام سرینگر میں منعقدہ کانفرنس کا جس کا عنوان”
تنازعہ کشمیر اور عالمی مباحثہ “ تھا۔ کانفرنس سے حریت کانفرنس کے بزرگ
رہنماء سید علی شاہ گیلانی، لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک، حریت
کانفرنس میر واعظ گروپ کے سینئر رہنما شبیر احمد شاہ، سینئر حریت رہنماء
نعیم احمد خان، بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم، سرکردہ ماہر قانون
ایڈوکیٹ ظفر احمد شاہ، ڈاکٹر حمیدہ نعیم، انسانی حقوق کے معروف کارکن
ایڈوکیٹ پرویز امروز، امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر شیخ محمد حسن، دختران
ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی، جموں صوبہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ظہور
الدین، ایڈوکیٹ محمد امین بٹ، پروفیسر بٹ، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے
صدر فیاض احمد سوداگر، راجوری پونچھ سے تعلق رکھنے والے قاضی ارشاد احمد
جبکہ برطانیہ، امریکہ، پاکستان اور مظفر آباد سے بھی رہنماﺅں سے ٹیلیفونک
خطاب کیا یا ان کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔ مقررین نے حق خود ارادیت کو
مسئلہ کشمیر کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان قرار دادوں پر عمل درآمد سے
ہی ریاست کی وحدت اور سالمیت برقرار رہ سکتی ہے۔ بھارت خفیہ مذاکرات کی آڑ
میں کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کا ہدف تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اتحاد
سے ہی بھارت کے ان حربوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر
کو متنازعہ قرار دینے، فوجی انخلاء، کالے قوانین کے خاتمے اور قیدیوں کی
رہائی کے بعد صرف اور صرف سہ فریقی مذاکرات ہونگے جن کا مقصد کشمیر کے
تنازعہ کو آئین کے دائرے کے باہر حل کرنا ہوگا۔ تمام رہنماﺅں نے حریت قیادت
اور جماعتوں کے اتحاد اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت پر بھی زور
دیا۔
راقم نے شیخو جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ پھر حریت کانفرنس میر واعظ گروپ
کیوں کر بھارت سے خفیہ سفارتکاری جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اس گروپ کے سینئر
ترین رہنماء تو کانفرنس میں اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ دوہری
پالیسی نہیں ۔۔۔۔؟
شیخو جی ۔۔ جدوجہد میں بزدلی یا مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں حق خود
ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھنی چاہئے اور اقوام متحدہ کی
قراردادوں کی عمل آوری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔
پاکستان کو بھی کشمیریوں کے مؤقف کے برعکس بھارت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں
کرنا چاہیے۔ حریت آئین اور2008ء کے معاہدے میں اس طرح کے مذاکرات کی کوئی
گنجائش نہیں، تحریک آزادی کی آبیاری لاکھوں لوگوں نے اپنا خون دیکر کی ہے
اس لئے اس تحریک کا سودا کرنا یا اس کا استحصال کرنا کسی کے بس کی بات نہیں
اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ رسواء ہوگا۔ مذاکرات حریت
آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔ بھارت مذاکرات کا ایک مرتبہ پھر راگ مسئلہ
کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کیلئے الاپ رہا ہے۔ منموہن سنگھ کے بیانات سے
لگتا ہے کہ یہ داخلی مسئلہ ہے اور اگر انہیں واقعی مذاکرات میں دلچسپی ہے
تو وہ پہلے اپنا ایجنڈا واضح کریں۔ کشمیریوں کی منزل حق خود ارادیت ہے اور
اس کے حصول کیلئے1947 سے کاررواں چلتا آرہا ہے جس کے دوران کچھ تھکے، کچھ
بکے اور کچھ جھکے بھی لیکن تحریک نہیں رکی اور آج بھی جاری ہے۔
شیخو جی نے تھوڑے سے توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کشمیر مسئلہ کے
تاریخی پس منظر کا ذکر کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لیکر تمام دو
طرفہ مذاکرات و معاہدات کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ حق خود ارادیت
مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد کے نتیجہ میں کشمیری عوام کا کیس
قانونی، سیاسی، جغرافیائی، تاریخی، اخلاقی اور دیگر پہلوﺅں کے حوالے سے
انتہائی مضبوط ہے، جسے محض طاقت یا ہٹ دھرمی کے بل پر دفن نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کےساتھ دو طرفہ مذاکرات یا تکونی طرز کی بات چیت مسئلہ کشمیر کو حل
کرنے میں معاون نہیں بنے گی بلکہ اس کے نتیجہ میں یہ مسئلہ الجھ کر رہ جائے
گا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1993 میں حریت کانفرنس قائم کرتے وقت جب اس کا
آئین مرتب ہوا تو اس میں مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف حق خود ارادیت کو
قراردیا گیا‘ تاہم آئین کی رو سے اگر حق خودارادیت کا حصول کسی وجہ سے
ناقابل عمل تصور کیا جائے تو اس صورت میں آئین میں سہ فریقی مذاکرات کی
گنجائش رکھی گئی ہے لیکن یہ سہ فریقی مذاکرات اقوام متحدہ کی سرپرستی یا
کسی غیر جانبدار ملک کی نگرانی میں منعقد ہونے چاہئیں۔ مسئلہ کشمیر کے
حوالہ سے عالمی سطح پر دئے جانےوالے بیانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ
مختلف ممالک ایسے بیانات زیادہ تر اپنے قومی مفاد کیلئے دیتے ہیں۔ ہند نواز
جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اٹانومی اور
سیلف رول کے فارمولے پیش کرتی ہیں وہ حقیقتاً کشمیر کی غلامی کو دائمی
بنانے کے فارمولے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک134 بار دو طرفہ مذاکرات ہوئے
ہیں لیکن ہندوستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت جموں کے ڈھائی اضلاع لے لے، انہیں یہ پتہ ہونا
چاہئے کہ ان اڑھائی اضلاع میں بھی 60فیصد سے زیادہ مسلمان آباد تھے لیکن آج
وہ اقلیت میں ہیں، یہ اکثریتی مسلمان کہاں گئے، انہیں زمین کھا گئی یا
آسمان نگل گیا؟ یہ غور وفکر کرنے کی بات ہے۔
راقم نے ایک مرتبہ پھر شیخو جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ حریت کانفرنس میر
واعظ گروپ تو بھارت کے ساتھ پس پردہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس ضمن
میں سینئر حریت لیڈران پروفیسر عبدالغنی بٹ اور بلال غنی لون سرگرم ہیں
جبکہ عید الاضحی کے بعد حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لئے حریت رہنماﺅں
پر مشتمل وفد کے دورہ اسلام آباد کے لئے تاریخیں طے کی جارہی ہیں۔ حریت
کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وہ مسئلہ
کشمیر پر خفیہ سفارت کاری کے دوران سہ فریقی معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا محور سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی تجاویز ہیں٬
تاہم بھارت کشمیر کے انتظامی امور مشترکہ طور پر چلانے کےلئے تیار نہیں ہے۔
اس لئے وسیع تناظر میں ایک معاہدے پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ
ہم مذکورہ مذاکراتی عمل کو جاری رکھتے ہوئے اپنے لوگوں کو بھی اعتماد میں
لیں۔ ہمارا مقصد مسئلہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات ہے، ہمارا مقصد کوئی دو
طرفہ ایگریمنٹ کرنا ہرگز نہیں ہے۔ ماضی میں یہ دو طرفہ معاہدے محض اس لئے
ناکام رہے کیونکہ ان میں تینوں فریقوں کی رضامندی شامل نہیں تھی، لیکن اب
کی بار جو کچھ بھی ہوگا کشمیر ، بھارت اور پاکستان کا مشترکہ فیصلہ ہوگا۔
میر واعظ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹریک ٹو پر ہونے والے مذاکرات فائدہ مند
ثابت ہوئے ہیں کیونکہ دنیا میں کئی بڑے مسائل پر ٹریک ٹو کے ذریعے ہی پیش
رفت ہوئی ہے۔ تو شیخو جی یہ سب کیا ہے، آخر مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو گا۔ ؟
شیخو جی ۔۔ موجودہ عالمی حالات میں بھارت مسئلہ کشمیر کو دبانے میں نہ صرف
مکمل طور پر بے بس نظر آتا ہے بلکہ یہ مسئلہ اس کے گلے میں کانٹے کی طرح
اٹک گیا ہے، جس کو حل کئے بغیر بھارت کا بھی اب گزارا ممکن نہیں، لیکن اس
کے آڑے ماضی کی اپنی ہٹ دھرمی آرہی ہے اور وہ اپنی سبکی سے بچنے کے لئے طرح
طرح کے حربے استعمال کرکے دنیا اور کشمیریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا
چاہتا ہے جس کے لئے اس مرتبہ اس نے خفیہ سفارتکاری کا ڈرامہ رچایا ہے٬ تاہم
میر واعظ حریت گروپ اور اس کے نوجوان قائد میر واعظ عمر فاروق بھارت کے
ماضی سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کی چالوں کو بھی سمجھتے ہیں، ان کے بیانات
اور میڈیا سے گفتگو میں بھی اس کی غمازی نظر آتی ہے اس لئے میرا نہیں خیال
کہ وہ تحریک آزادی کو سبوتاژ کرنے یا لاکھوں شہداء کی قربانیوں کا سودا کر
کے مسئلہ کشمیر کا بھارت کی خواہش کے مطابق حل قبول کر لیں گے، البتہ اس
مرتبہ وہ ایک ایسی کوشش کرنے جا رہے ہیں جو ماضی کے برعکس ہے اور ان کی
باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھارت کو سہ فریقی مذاکرات پر تیار کرنے میں
جتے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ انہیں اللہ رب العزت کامران فرمائے، تاہم
ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے خفیہ
سفارتکاری کو کامیاب بنانے کیلئے اعتماد سازی کے عملی اقدامات اٹھائے، وادی
سے فوج کا انخلاء، کالے قوانین کا خاتمہ، سیاسی اسیروں کی فوری رہائی،
مقبوضہ و آزاد کشمیر کے باسیوں کی دونوں اطراف آمدورفت کی آزادی یقینی
بنانا ہو گی، یعنی حریت قیادت کا متفقہ چھ نکاتی فارمولا تسلیم کرنا ہوگا
تب جا کر محض مذاکرات کے معاملے میں بھارتی حکومت کی سنجیدگی ظاہر ہو گی۔
ورنہ یہی میر واعظ جو آج بھارت کو اپنا دوست اور ہمیں خفیہ مذاکرات کا حامی
ہونے کی وجہ سے اپنا مخالف نظر آتا ہے، بھارت کے سامنے سب سے پہلے سینہ سپر
ہوگا۔ رہی بات مسئلہ کشمیر کے حل کی تو بانی پاکستان نے جس طرح وادی کشمیر
کو ارض پاک کی شہ رگ قرار دیا تھا آج ملک میں پانی کی قلت نے اس حقیقت کو
نہ صرف ثابت کر دیا ہے جس کو ہم نے نظر انداز کر دیا تو اتھوپیا، کانگو
جیسا مستقبل ہمارا مقدر ٹھہرے گا۔
شیخو جی نے تھوڑی سے خاموشی کے بعد کہا پیارے پوری دنیا بھی مخالف ہوجائے
تب بھی کشمیر آزاد ہوکر رہے گا، کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا ہمالیہ
پہاڑ سے بھی بڑا جھوٹ ہے۔ دانشور اور سکالرز قوم کے کردار سازی کیلئے کام
کریں۔ مذاکرات کے خلاف کوئی بھی نہیں٬ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت
کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادں پر
عملدرآمد کرے۔ پاکستان نے بھی اب کہہ دیا ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات چاہتا
ہے، صرف فوٹو سیشن نہیں جبکہ میر واعظ عمر فاروق نے بھی کہا ہے کہ وہ تمام
حریت قیادت کو شامل کر کے ہی بھارت سے مذاکرات کریں گے، ورنہ نہیں٬ تاہم یہ
طے ہے کہ بھارت لاکھ ڈرامے رچا لے، ہزاروں بہانے بنالے، ظلم وبربریت کے
مزید ریکارڈ قائم کر لے، لیکن کشمیری کسی صورت اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے
والے نہیں بلکہ بھارت سرکار کو ہی ہار ماننی پڑے گی اور کشمیریوں کو ان کا
حق لوٹانا پڑے گا۔ |