اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی

تقسیم ہند سے قبل ایک اخباری نمائندے نے مولانا سید ابوا لاعلیٰ مودودی سے سوال کیا کہ آپ نے جماعت اسلامی کیوں بنائی ؟مولانا نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی بنانے کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ہم جس اسلامی نشاۃ ثانیہ کی بحالی یا اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں اس کے لیے انسانوں کے ایک ایسے گروہ یا ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جو ان ہی اسلامی اصول و ضوابط کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اختیار کرے جن اصولوں کو وہ معاشرے میں نافذ کرنا چاہتا ہے ۔دنیا میں ہم جس قسم کا انقلاب چاہتے ہیں اسی قسم کے کارکنان کی ٹیم تیار کی جاتی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ جو جماعت اس وقت تشکیل پاکستان کے عمل سے گزررہی ہے وہ اس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کررہی ہے اگر خدا نہ خواستہ مذکورہ جماعت ، اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس ملک کے باشندوں کے سامنے ایک متبادل جماعت ہونا چاہیے جو اس ملک میں اسلامی نظام کی جدو جہد جاری رکھے ۔اگر پاکستان میں جماعت اسلامی نہ ہوتی تو کیا ہوتا اس موضوع کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جماعت اسلامی کے ان کارناموں کا ذکر کریں یا ملک کے سیاسی ومعاشرتی سفر میں ان اہداف کی بات کریں جو جماعت نے 1947سے اب تک حاصل کیے ہیں ۔26اگست1941کو قائم ہونے والی جماعت 14اگست1947میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ،مولانا مودودی ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور اس طرح جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھالی،یوں تو مولانا فکری کام اور لٹریچر کی تیاری کا کام شروع سے کر ہی رہے تھے لیکن پاکستان میں بھی علمی اور فکری کام کا سلسلہ جاری رہا یہاں ہم اس مختصر سے مضمون میں ان عوامی اور سیاسی کاموں کا ذکر کریں گے جن کے اثرات ملک کی سیاسی اور معاشرتی زندگی پر مرتب ہوئے ۔قیام پاکستان کے بعد پہلا عوامی اور خدمتی کام ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کی دیکھ بھال اور مہاجر کیمپوں میں ان کی ضروریات پوری کرنا یہ کام مولانا مودودی نے اپنی نگرانی میں اس وقت کے وسائل کے مطابق بھرپور انداز میں کیا ،یوں تو اور بھی سماجی تنظیمیں اس میں متحرک تھیں ،لیکن جماعت اسلامی نے لاہور اور دیگر مقامات پر مہاجرین کی مدد کی ۔اس کے بعد دوسرا کام مولانا نے اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھر پور انداز میں فعال منصوبہ بندی سے کام لیا ان ہی کوششوں کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے مولانا مودودی صاحب کو دعوت دی کہ وہ ریڈیو پاکستان سے اس حوالے سے تقریری سلسلہ شروع کریں اس طرح مولانا محترم کی ریڈیو پاکستان سے پانچ تقریر یں نشر ہوئیں اسی دوران قائد اعظم کی وفات ہوگئی تو یہ سلسلہ بند ہو گیا ۔11ستمبر1948کو قائد اعظم کا انتقال ہوا اور نومبر1948مولانا محترم کو گرفتار کرلیا گیا یہاں سے مولانا کی آزمائشوں کا آغاز ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اسلامی دستور سازی کے حوالے سے مولانا کی کوششیں بھی تیز سے تیز تر ہو تی جاتی ہیں جماعت اسلامی کی اس ملک میں اول روز سے یہ کوشش رہی ہے کہ جمہوریت کا سلسلہ بحال رہے اسی لیے جمہوریت کی بحالی کے لیے مولانا نے کمیونسٹوں تک سے اتحاد کیا ۔دستور سازی کے سلسلے میں مولانا کو درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا اچھی طرح سے ادراک تھا اسی لیے مولانا نے قرارداد مقاصد تیار کیا اور پھر دن رات ایک کرکے ملک کے 22چوٹی کے علماء حضرات جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل تھے کو اس پر آمادہ کیا اور اس طرح دستور کے لیے ایک قرارداد مقاصد ان تمام علماء کے دستخطوں سے منظور کرائی ،جس کے بارے میں مولانا نے کہا کہ جس طرح کوئی شخص کلمہ پڑھ کہ مسلمان ہو جاتا ہے اسی طرح آج قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد یہ ملک مسلمان ہو گیا ۔تمام مکتبہ فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔جنرل ضیاء کے زمانے میں یہی قرارداد مقاصد دستور کا حصہ بن گئی ۔1953 میں قادیانی موومنٹ کا آغاز ہوا اور مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا ہو گئی ،لیکن ملکی اور بین الاقوامی بالخصوص سعودی عرب کے دباؤ پر حکومت کو رہا کرنا پڑا ۔اس کے بعد اسلامی دستور سازی کے سلسلے میں جماعت اسلامی کی کوششیں مسلسل جاری رہیں اور اس طرح 1956میں ایک اسلامی دستور بن کر تیار ہو گیا ،اس دستور کے تحت پہلے ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں جماعت اسلامی نے نمایاں کامیابی حاصل کی کراچی سے جماعت کے 17نمائندے کامیاب ہوئے تھے ،اس بلدیاتی انتخاب کے نتائج نے اسلام بیزار عناصر کے ہوش اڑادیے اور ایک منظم سازش کے تحت دستور کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا ،یہ جمہوریت پر اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کی پہلی کاری ضرب تھی ،مولانا نے اس پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا مارشل لاء کے تحت ملک میں جو اصلاحات کی جارہی تھیں مولانا کے ایک جملے نے تعلیم یافتہ طبقے میں اس کو بے اثر بنادیا جب کسی نے مولانا سے یہ پوچھا کہ مولانا آج کل مارشل لاء کے تحت جو اقدامات اور اصلاحات کی جارہی ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے مولانا نے جواب دیا کہ پیشاب سے بیت الخلا کو دھویا جارہا ہے ۔پھر مولانا نے مارشل لاء کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اگر گھر کے چوکیدار کو گھر کی حفاظت کے لیے بندوق دے دی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ چوکیدار اس بندوق کے ذریعے اس گھر پر ہی قبضہ کرلے ،مولانا کے اس بیان پر صدر ایوب خان بہت چراغ پا ہوئے ۔1963میں لاہور میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع تھا ایوب خان تو پہلے ہی ناراض تھے مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کے حکم پر اجتماع پر غنڈوں کے ذریعے حملہ کیا گیا جس میں ایک کارکن اﷲ بخش شہید ہوئے ،جس وقت گولیاں چل رہی تھیں مولانا اسٹیج پر تقریر کر رہے تھے کسی نے کہا مولانا آپ بیٹھ جایے تو مولانا نے جواب دیا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا ۔1964کے عام انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے پر فاطمہ جناح اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار تھیں ،جماعت نے اس الیکشن میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا جس پر بہت تنقید ہوئی تو مولانا نے کہا کہ ایوب خان میں صرف ایک ہی خوبی ہے کہ وہ مرد ہیں اور فاطمہ جناح میں ایک ہی خامی ہے کہ وہ عورت ہیں اور کسی بڑی برائی کو ختم کرنے کے لیے چھوٹی برائی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے ۔لیکن ایک منظم دھاندلی کر کے ایوب خان نے وہ الیکشن جیت لیا جس سے مشرقی پاکستان میں مایوسی کی ایک لہر دوڑگئی کہ مشرقی پاکستان کے عوام سے فاطمہ جناح کا دل و جان سے ساتھ دیا تھا ۔1965میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا اس موقع پر پوری قوم متحد ہو گئی مولانا نے بھی ایوب خان سے ہاتھ ملایا لیکن فروری1966کے تاشقند معاہدے میں ایوب خان میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار گئے اس کے بعد سے ایوب خان کے خلاف ایک تحریک اٹھی جس میں جماعت اسلامی نمایاں طور پر اپنا رول ادا کرہی تھی ایک موقع پر ایوب خان گول میز کانفرنس کے ذریعے سے اقتدار سیاست دانوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو گئے تھے مولانا مودودی نواب زادہ نصراﷲ خان اور دیگر سیاسی رہنما حضرات اس پر تیار تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن نے اس کی شدید مخالفت کی اور پھر ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا یحییٰ خان نے 1970میں عام انتخابات کروائے کہ اس اسمبلی کو ایک سو بیس دن کے اندر دستور بنانا تھا پھر اس دستور کے تحت دوبارہ انتخاب ہونے تھے لیکن اس انتخاب کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں فوج کے ساتھ ملک کے استحکام کی جنگ لڑی اور اپنے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں دیں ،بقیہ پاکستان میں گو کہ جماعت کی صرف چا ر نشستیں تھیں لیکن دستور سازی میں جماعت اسلامی نے دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ایک طویل اور تھکا دینے والے مذاکراتی عمل سے گزر کر ایک متفقہ دستور تیار کیا جو آج شدید خطرے میں ہے ۔یہ ایک طویل داستان ہے جماعت نے ملک کے ہر شعبہ میں اپنے اثرات مستحکم کیے آج طلباء ہوں مزدور و کسان ہوں نوجوان ہو صحافی یا دانشور ہوں ہر شعبے میں جماعت اسلامی کے اثرات غالب ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی اس ملک میں نہ ہوتی تو شاید سب کچھ ہوتا لیکن قرار داد مقاصد پر مشتمل اسلامی دستور نہ ہوتا اور نہ ہی اس ملک میں جمہوریت ہوتی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.