۶ جنوری ۱۰۲۶ بروز جمعرات ایک عجیب سا لشکر اپنے علاقے
سے کوسسوں دور ایک ایسی مہم سر کرنے نکلا ہے جسے اگر آپ اس وقت کے تناظر
میں دیکھیں تو اسے کسی دیوانے کی مہم یا پھر ایک ناکام جنگی حکمت عملی ہی
کہیں گے کہ جہاں نہ ہی کوئی کمک پہنچنے کی امید ہو اور نہ ہی واپسی کا کوئی
راستہ ہو جہاں آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی صورتحال ہو، ایسے میں ایک
کرخت چہرے نورانی ماتھے اور روشن آنکھوں والا شخص اضطراب کی کیفیت میں اپنے
خیمے میں چہل قدمی کر رہا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ یہ اسکی کوئی پہلی مہم ہے
یا اسے لڑائیوں کا تجربہ نہیں ہے پر یہاں اس میدان جنگ تک پہنچنے میں جو
مشکلات پیش آئی تھیں اور جنگ طویل ہونے کی صورت میں خوراک اور پانی کی قلت
شدید ہوجانے کا خطرہ بھی تھا ۔ یہ جنگجو بخوبی جانتا تھا کہ اسکی فوج لڑنے
سے پیچھے نہیں ہٹے گی پر بنیادی انسانی ضروریات کے بغیر طویل عرصے تک لڑنا
اپنی فوج کو خود کشی کروانے جیسا تھا جہاں دشمن اپنے ٹھکانے پر قلع بند تھا
جب کہ اسکی فوج کھلے میدان میں ایک لشکر جرار کا مقابلہ کرنے چلی آئی تھی ۔
ایسے میں اس بہادر حکمران نے اپنے بہت قریبی دوست اور بہترین سپہ سالار کو
اپنے خیمے میں بلوایا اور کہا " کل جمعتہ المبارک ہے فوج کو تیار رکھنا میں
کل ہی حملہ کرنا چاہتا ہوں"
سپاہ سالار جسے اپنے حکمران کی دانائی اور اسکی جنگی حکمت عملیوں پر مکمل
بھروسہ تھا اور اسکے ہر فیصلے پر بنا اپنی رائے دیے فوج کو تیار کردیتا تھا
، آج تھوڑا پریشان نظر آیا اور اسکی یہ پریشانی کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی
۔۔
اگلے دن نماز کے بعد اس بہادر حکمران نے اپنی فوج سے جو خطاب کیا وہ تاریخ
کی کتابوں میں کچھ اس طرح سے درج ہے :
"میرے بھائیوں یہاں ہمیں کسی جاسوس کی رہنمائی حاصل نہیں ۔ مجھے کچھ خبر
نہیں قلع کے اندر کیا ہے ۔ اور جب ہم قلعے کے اندر جائیں گے تو ہمیں یہ بھی
نہیں معلوم کہ ہمارا مقابلہ کتنے بڑے لشکر سے ہوگا اور وہ لشکر کہاں کہاں
سے آئے گا۔ ہمیں صرف باہر کی خبریں مل سکتی ہیں ، دشمن فوجیں مختلف جگہوں
سے ہمارا محاصرہ توڑنے کے لئے ہم پر عقب سے حملہ کریں گی اور میں آج آپکو
دوسرے خطروں اور دشواریوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں ، آپ ناتجربہ کار نہیں
ہیں ۔ آپ جانتے ہیں جو فوج اپنے وطن سے اتنے دور لڑنے جاتی ہے اسے دشمن
تیروں اور تلواروں سے مارنے کے بجائے بھوکا اور پیاسا مار سکتا ہے ، یہاں
کی ہوائیں بھی ہماری دشمن ہیں اور ہمیں کہیں سے رسد بھی نہیں مل سکتی ۔ تیر
جو کمانوں سے نکل جایئں گے وہ واپس نہیں آئیں گے ، دوسرے لفظوں میں ہمیں
اپنے ہتھیار بھی دیکھ دیکھ کر استعمال کرنے ہوں گے ۔ ہمیں کہیں سے کمک نہیں
مل سکتی ، اگر محاصرہ طول پکڑ گیا تو رسد اور فوج کی کمی ہمیں پسپا ہونے پر
مجبور کردے گی ۔ میں آپکو خبردار کرتا ہوں اگر ہم ناکام ہو کر پسپا ہوگئے
تو فوج بددل ہوجائے گی ۔ لیکن بھی یاد رہے کہ دشمن ہمیں پسپا نہیں ہونے دے
گا ،ہم میں سے کوئی خوش قسمت ہی پسپائی کی صورت میں زندہ نکل پائے گا، لمبے
محاصرے اور ناکامی کے بعد فوج اس صحرا میں سے گزرنے کے قابل نہیں رہے گی جو
ہمارے اور غزنی کے درمیان حائل ہے ۔۔ "
اسکے بعد جنگ شروع ہوگئی اور بہادر حکمران اپنی فوج کے ساتھ خود بھی میدان
میں اترا ۔ ایک طویل جنگ کے بعد فتح اسکا مقدر بنی اور آج تاریخ میں اس
معرکہ کو ’’ سومنات کی فتح‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جی ہاں آپ بالکل
صحیح سمجھے وہ بہادر حکمران کوئی اور نہیں بلکہ " محمود غزنوی" تھا ۔۔
محمود غزنوی ایک بہادر حکمران تھا، جس نے ہندوستان پر کم و بیش سترہ حملے
کئے اور کسی بھی حملے پر اسے اتنا سوچ و بچار یا فکر مندی کا سامنا نہیں
کرنا پڑا جتنا اسے "سومنات" کی باری کرنا پڑا۔ تاریخ شاہد ہے محمود غزنوی
جیسا سپوت شاید ہی اس خطے کی مٹی نے پیدا کیا ہو، پر ساتھ ہی ساتھ اسکی
اپنے فوجیوں سے کی جانے والی تقریر اور اندیشوں کو کھل کر بیان کردینا بھی
کوئی بزدلی نہیں تھی بلکہ حقیقتوں کا ادراک کرنا تھا ، کہ جب جنگ شروع
ہوجائے تو پھر آسانی سے نہیں رکا کرتی اور صرف ایک جذباتی فیصلہ آپکی قوم
کو مدتوں تک اپاہج کر دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ محمود غزنوی کی زندگی کا یہ
واحد معرکہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کم و بیش دو سال کا طویل
عرصہ لگ گیا۔ سلطان کو جب سومنات میں ذبح کئے جانے والی مسلمان عورتوں کی
خبر ملی تو اس نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فوج کو جنگ کا حکم نہیں دے دیا
بلکہ عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست کے خلاف سر کش عناصر کی بیخ کنی اور
چند دوسرے خطرات کو صاف کرنے کے لئے کمر کس لی۔ اس دور میں سلطان محمود
غزنوی اپنی ریاست میں سلجوقیوں کی گندی نظر بھانپ چکا تھا جو غزنی کو توڑ
دینے کے در پے تھے .۔
سومنات پر حملے سے قبل سلطان محمود نے اسرائیل سلجوقی، جو کہ " غز" نامی
قبیلے کا سربراہ تھا اور خود کو سلجوقی بھی کہلواتا تھا، کو ملاقات کا
پیغام بھیجا ، اور اسکے ساتھ بخارا اور سمرقند کی ریاستوں کے حکمران
الیتگین کو بھی دعوت دی، جسکا مقصد انہیں اپنی جنگی طاقت دکھانا تھا ، اور
سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ آستین کے سانپ سلطان محمو د غزنوی کو اپنے ہی ملک
میں مصروف نہ رکھتے تو شاید سلطان محمود غزنوی بھی صلاح الدین ایوبی کی طرح
یورپ کا رخ کرتے ، پر افسوس صد افسوس کہ ایسے بہادر جنگجو اور حکمران کو
ظالموں نے اندرونی لڑائیوں میں ہی الجھائے رکھا ، اس سب میں یہودیوں کا بھی
بہت بڑا عمل دخل تھا، جنھوں نے قادر خان، توغان خان اور ابو منصور ارسلان
جیسے مسلم حکمرانوں کو محمود غزنوی کے پیچھے لگائے رکھا ، اور جب بھی وہ
کسی مہم پر جاتا تو پیچھے غزنی میں سازشیں شروع ہوجاتیں جسکی وجہ سے کئی
بار اپنا کام ادھورا چھوڑ کر سلطان کو واپس آنا پڑتا ۔ لیکن اس بار سلطان
نے سوچ لیا تھا کہ اب ریاست کے خلاف کام کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا ،
لہٰذا اس دعوت میں جب اسرائیل سلجوقی پر سلطان کو شک ہوا کہ وہ دھوکہ دے گا
تو اسکی خوشامد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے قید کر کے کشمیر کے قید خانے میں
پھینکوا دیا گیا جہاں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے اس نام نہاد مسلمان کو موت نصیب
ہوئی ۔ دوسرا فسادی الیتگین ،جو اپنی طرف سے سلطان کو بلیک میل کر کے کچھ
علاقے لینے آیا تھا اور اپنی ادھر ادھر کے جمع کئے ہوئے جنگلی گروہوں پر
بہت ناز کیا کرتا تھا ، غرور میں انکار کر بیٹھا لہٰذا سلطان نے اسے بھی
گرفتار کروا کر ملتان قید خانے میں پھینکوا دیا جہاں آخری دم تک قید رہا ،
جبکہ جن جنگلی گروہوں پر اسرائیل سلجوقی اور الیتگین کو ناز تھا وہ یا تو
تتر بتر ہوگئے یا سلطان کی اطاعت قبول کر کے غزنی کی فوج کا حصّہ بن گئے ۔
اور اس طرح سلطان نے سب سے پہلے اپنی ریاست کو محفوظ کر لیا ۔
مندرجہ بالا واقعات لکھنے کا مقصد صرف یہ سمجھانا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو
دہراتی رہتی ہے، بس نام اور چہرے ہی بدلتے ہیں پر کردار ہمیشہ ایک سے ہی
رہتے ہیں۔ آج کے دور کی جدت کو اگر نکال دیں تو آپکو پاکستانی فوج اسی
محمود غزنوی کی فوج دکھائی دے گی ، کہ جو طاقت تو دنیا کے دوسرے کونے تک
جانے کی رکھتی ہے پر کہیں اسرائیل سلجوقی ( بی ایل اے) تو کہیں الیتگین کی
شکل میں تحریک طالبان پاکستان والے دشمن کے آلہ کار بن کر کھڑے ہیں ، کہیں
قادر خان کی شکل میں سندھو دیش تحریک والے فساد مچا رہے ہیں تو کہیں ایلک
خان کی طرح نام نہاد مسلمان عام عوام کو افواج کے خلاف بھڑکا کر اپنی مذہبی
دکان چمکانے میں سرگرم عمل ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب مجھے تاریخ کے اسی واقعہ
کی مثل دکھائی دیتا ہے کہ جب سلطان محمود نے حتمی فیصلہ کرلیا تھا کہ اب ان
ریاستی دشمنوں کے خلاف حتمی کروائی کرنی ہے ، اور انھیں جہنم میں پہنچا کر
ہی دم لینا ہے۔ لہٰذا اس نے وہی کیا جو اسکی ریاست کے حق میں بہتر تھا،
وہاں جو قتل ہوئے یا جنہیں قید میں ڈالا گیا ان میں ایک بھی غیر مسلم نہیں
تھا ،سب کے سب ’لا الہ ‘ کا ورد کرنے والے تھے، اس قتل و غارت کا محمود
غزنوی کو افسوس بھی تھا ، پر یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ جب جسم کا کوئی
حصّہ ناسور بن جائے تو اسے کاٹ دینا ہی بہتر ہوتا ہے ورنہ سارا جسم اسکی
لپیٹ میں آجاتا ہے۔ افواج اپنی قوم کے بل پر ہی لڑتی ہیں جب تک افواج کو
معلوم ہو کہ عوام انکے پیچھے کھڑی ہے صرف اور صرف تب ہی جنگیں لڑی بھی جاتی
ہیں اور جیتی بھی ۔ آج پاک فوج کے اس عمل پر تنقید کرنے والے اور پس پردہ "
وطن پرستی" کا مردہ نعرہ لگانے والے اگر سلطان محمود غزنوی کے دور میں
موجود ہوتے تو شاید تب بھی قوم کو سلطان کے خلاف گمراہ ہی کر رہے ہوتے اور
سلطان کو اسلام کا عظیم مجاہد کہنے کے بجائے " وطن پرست" جیسے القابات سے
نواز رہے ہوتے !
اسکے علاوہ شروع میں جس تقریر کا متن لکھا گیا ہے وہ سومنات پر حملہ کرنے
سے قبل کا تھا کہ جب ریاست غزنی ہر طرح کے بیرونی شر سے پاک تھی تب بھی
سلطان کو ہونے والی فکر اپنی جگہ بلکل بجا تھی، آج اگرنہتے مسلمانوں پر
اسرائیل کی بربریت کا اگر کسی کو سب سے زیادہ دکھ ہے تو وہ پاکستان کی عوام
اور افواج ہی ہیں ، پر سوال یہ ہے کہ کیا آج پاکستان کی ریاست اتنی مضبوط
ہے کہ سمندر پار جا کر اسرائیل سے جنگ کر سکے ؟ کیا پہلے سے تین جنگوں میں
الجھی ہوئی ، چھ ایجنسیوں سے لڑتی ہوئی، معاشی طور پر کمزور بجٹ کی حامل
فوج اس قابل ہے کہ اسرائیل اور اس کے ۸۰ سے زائد حواریوں کا تن تنہا مقابلہ
کرسکے؟ کیا جنگ شروع ہوجانے کے بعد پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کو اندر سے
ہی توڑنا نہیں شروع کر دیں گی ؟ چلیں مان لیا ہمارے حملے کے جواب میں
امریکی اور اسرائیلی رحم دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایٹمی حملہ نہیں کریں گے
لیکن کیا ہم پھر بھی اسرائیل اور اس کے یورپی حامیوں کے مقابلے میں معاشی
طور پر اتنے مضبوط ہیں کہ ایک لمبی جنگ لڑ سکیں ؟ اور جنگ بھی ایسی کہ جس
میں ہمیں کہیں سے کمک نہیں ملنی ، ہتھیار نہیں ملنے اور دشمن عقب پر کہاں
کہاں سے حملہ کرے گا ہمیں نہیں خبر ۔ افغانستان میں موجود بھارتی لابی ہو
یا افغان حکومت کی پاکستان دشمنی ، پاکستان سے زخم کھایا ہوا سویت یونین ہو
یا ۱۹۶۷ میں پاک فضائیہ کے دیے زخم چاٹتاہوا اسرائیل ، یہ سب پاکستان کے
وجود کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتے ہیں۔ اب یا توجذباتی لوگوں کی جذباتی
باتوں میں آ کر بیرونی لڑائی شروع کر کے خود کو اپنے ہاتھوں ٹکڑوں میں
بانٹنے کا انتظام کرلیا جائے یا پھر پہلے آستین کے سانپوں کو کچلا جائے اور
پھر پوری قوت سے بیرونی دشمن کو آنکھیں دکھائی جائیں !! یہاں حال تو یہ ہے
کہ جیسے جیسے پاکستانی فوج میر علی سے آگے بڑھتی جارہی ہے ویسے ہی
افغانستان کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیاں عروج پر پہنچتی جارہیں ہیں، تو
دوسری جانب بھارتی افواج سیالکوٹ اور سکردو میں روایتی غنڈہ گردی پر اتر
آئی ہے، یعنی اس وقت پاک آرمی تین محاذوں پر بیک وقت جنگ کر رہی ہے، اسکے
علاوہ بلوچستان میں بھارتی آشیرباد کے ساتھ خاموش لڑائی اور کراچی کی گلیوں
میں ملک دشمن گروہوں کی کاروائیاں الگ سے درد سر بنی ہوئی ہیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ لڑائی لڑنااور دفاعی حکمت عملیاں بنانا جن کا کام
ہے انھیں ہی کرنے دیں۔ کسی نوکری پیشہ یا گلی محلے کے لیڈر کی کوئی تُک
نہیں بنتی کہ پانچ دس منٹ سوشل میڈیا پر بیٹھے اور فوج کو " حکم" دینا شروع
کردیا کہ ادھر جاؤ اُدھر نا جاؤ، یہ نہ کرو وہ نا کرو۔
بقول شاعر:
ہے برا زمانہ مگر ناصح،
آپ کے گھر میں کیا نہیں ہوتا ۔
پاک فوج بہت بہتر طریقے سے جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے، کب کرنا ہے اور کس
طرح سے کرنا ہے ، جنگ میں جذبات نہیں دماغ چلا کرتے ہیں ، اگر جنگ صرف
جذبات کی بناء پر جیتی جا سکتی تو میرے آقا ﷺ فتح مکہ کے لئے ۹ سال، صلاح
الدین ایوبی فتح بیت المقدس کے لئے ۱۳ سال اور محمود غزنوی سومنات کے مندر
کے لئے ۲۵ سال تیاریاں نا کرتے۔ اسلئے بہتر ہے کہ اپنے دفاعی اداروں پر
بھروسہ رکھا جائے ۔ وگرنہ ہم میں اور محمود غزنوی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے
والوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا جو اسکی جنگی چالوں کو اس وقت انتہائی
احمقانہ کہا کرتے تھے اور آج تاریخ گواہ ہے کہ اس جیسا حکمران اور جنگی
چالوں میں ماہر اس خطے میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیئے کہ پاک آرمی نے
کچھ عرصے پہلے جب ایک سپر پاور کو دھول چٹائی تھی تو اپنا کوئی فوجی
افغانستان میں لڑنے کے لئے نہیں بھیجا تھا ،ہماری فوج کا ایک اندازرہا ہے
کہ جب دشمن سمجھتا ہے کہ وہ جنگ جیت چکا ہے یہ اصل جنگ لڑنا ہی تب شروع
کرتے ہیں اور یقین کیجئے جب پاک آرمی لڑنا شروع کرتی ہے تو چیخیں افغان
دفتر خارجہ سے لے کر دہلی سرکار کے حلق تک سے نکلتی ہیں !!
لہٰذا ان اﷲ کے سپاہیوں پر بھروسہ رکھیں اور یہ یاد رکھیں کہ لڑائی اس جوش
سے نہیں لڑی جاسکتی جس میں عقل کا عنصر شامل نا ہو۔ |