ابو یمنی
افغان جنگ میں روس کے بعد اب امریکہ کو بہی جو ہزیمت اٹہانا پڑی ہے اس سے
جہاں امریکی افواج کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے وہیں امریکن think tank
میں بہی شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔کیونک اس جنگ کے نتائج نے امریکن
معاشرت، معشیت اور سیاست پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں ۔امریکن حکمت
عملی نے اب ایک نیاء رخ لے لیا ہے اور عراق کی خانہ جنگی( anarchy) سے خود
بخود پیدا ہو جانے والی فرقہ وا را نہ معرکہ آرائی پر مبنی اختلافات کو ایک
مربوط سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔
"dispensable nation" نامی کتاب کے مصنف ولی رضا نصر کے تجزئے سے بہی بات
سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے اپنے مزعومہ new world order کے لئے دنیا میں
عسکری مہمات کا جو سلسلہ شروع کیا تہا اس کے نتائج نے اس ساری منصوبہ سازی
کو غلط ثبت کر دیا ہے ۔ جبکہ بقول ولی رضا نصر امریکہ کو اپنی منصوبہ سازی
میں جتنی اہمیت و جگہ سفارتی حکمت عملی اور سفارتی ذرائع کو دینی چاہئے تہی
اس کا ایک چوتہائی بہی نہیں دی گئی ۔ یہی شام کے معاملہ میں بہی بروئے کار
لایا گیا جس کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو موت کے منہ میں د ہکیل
دیا گیا اور لاکہوں لوگ معذوری کے مستقل عذاب میں مبتلاء ہو کر لا یموت
فیہا و لا یحیحی کی تصویر بن کے رہ گئے ہیں ۔
اس وقت عالم اسلام جس عالمی سازش کا شکار ہے اور بڑی تیزی سے روس اور
امریکہ کے دام فریب میں آ کر اپنے عوام کو ان دونوں طاقتوں کے مفادات کی
بہنث چڑہا رہا ہے ، تو وہ سازش ہے فرقہ پرستی کا بے قا بو جن جو آج کے
سیاسی منظر نامے میں پوری طرح کارفرما نظر آتا ہے اور بعض اسلامی ممالک کے
سربراہان بلکہ مطلق ا لعنان حکمران اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور جبر و
استبداد کے بل بوتے پر اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے اس جن کے آلہء کار بنے
ہوئے ہیں ۔ بادیء انظر میں فرقہ پرستی پہ قائم یہ نظریات دو بلاکس مین
تقسیم دکہائی دیتے ہیں ۔
۱۔ وہ مسلم ممالک جن کے حکمران مذہبی طور پر شعیت کے پیروکار ہیں وہRussian
block میں شامل ہو گئے ہیں جن میں ایران اور شام سر فہرست ہیں ۔
۲۔ وہ مسلم ممالک جن کے حکمران مذہبی طور پر وہابیت کے راستے پر گامزن ہیں
وہ American blockکا حصہ بن گئے ہیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے اور
خلیجی ریاستیں اس کی ہمنوا ہیں ۔
چنانچہ ان ممالک کے معدنی وسائیل با ا لخصوص تیل کی دولت کا فائدہ بہی
بعینہ اس تقسیم کی بنیاد پر امریکہ اور روس کو ہو رہا ہے ۔ مندرجہ بالا دو
بلاکس میں منقسم مسلم ممالک کے حکمرانون کی پالیسیوں سے قطع نظر ،جہاں ان
ممالک میں شدت پسند رحجانات کے حامل افراد موجود ہیں وہیں اعتدال پسند اور
moderateمسلمانوں کی بہی کمی نہین ہے ۔ لہذا یہ کہنا قطعی غلط ہو گا کہ ان
ممالک کی حکومتی پالیسیاں وہاں کے اجتماعی عوامی شعور اور جذبات کی عکاس
ہیں ۔
مندرجہ بالا بلاکس مین با ا لترتیب بڑھتا ہوا شیعی و وہابی اثر و نفوذ
بجائے خود ایک نئے عالمی محاذ کا اشارہ کرتا ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے
بہی لگایا جا سکتا کہ روس کی سب سے بری تیل کی صنعت LUKOILکی سربراہی ایک
آذربئجانی شیعہ شخصیت Vahid Yusuf Olgu کے سپرد ہے ۔روسی رہنما پیوٹن کی
شام کے حوالے سے سیاسی سر گرمیاں بہی کوئی ڈہکی چہپی بات نہیں ہے ۔ اسی طرح
امریکی ریپبلیکن سینیٹر Rand Paul کا میڈیا پر آنے والا درج ذیل تنقیدی
بیان ہے۔
"Rand Paul has leashed out at President Barack Obama for asking
Americans to be 'allies with al Qaida' 12 years after 9/ 11".
علاوہ ازیں طالبان سے مذاکرات کا امریکی عندیہ اور دوہا مذاکرات بہی اسی
سلسلہ کی کڑیاں ہیں ۔
یہاں یہ بات جاننا بھی انتہائی اہم ہے کہ ان دو انتہاوئں پہ موجود فرقہ
پرست عناصر جن کی ا ز سرنو فرقہ وارانہ پھیلاؤ کی سازشوں کا آغاز اس وقت
ہوا جب روس تقسیم ہو گیا اور روسی مسلمانوں و وسط ایشائی مسلم ریاستوں نے
آزادی کی فضاؤں میں سانس لینا شروع کیا ۔ یہ مسلمان روسی تسلط سے آزاد تو
ہو گئے لیکن پون صدی کے اشتراکی استعمار کی وجہ سے اپنی مذہبی شناخت و تشخص
کے حوالے سےcrisis کا شکار تہے اور ان کی نگاہیں بیرونی مسلم دنیا پر لگی
تہیں ۔ دستاویزات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت ان مسلمم ریاستوں
میں وہابی اور شیعی اثر و نفوذ شروع ہوا ۔ Dina Lisnyanky اپنے مضمون
مطبوعہ Current Trends In Islamist Ideology میں رقم طراز ہیں "this was
the back ground of the well-documented Wahhabi penetration into Central
Asia that began after the breakup of Soviet Union.The Saudi religious
establishment,along with the Egyption Islamic establishment of
al-Azhar, move swiftly to revive Islam in these lands."
کچھ آگے چل کر مزید لکھتی ہیں۔ ٍٍٍ"Radical Shiite religious infiltrtion
into the former Soviet Union began in the eearly 1990s,as Iran
dispatched religious agents first into Azerbaijan.In these countries the
Iranians launched a campaign to convert Sunnis into Shia- that is, to
bring them into light"(istabsar).
خطرناک صورت حال یہ ہے کہ دونوں جانب سے نشر و اشاعت کے تمام موجودہ ذرائع
کو اپنے نام نہاد سیاسی visionکے حق میں اس شد ومد سے استعمال کیا جا رہا
ہے کہ معاملاتlevel of media war تک پہنچ چکے ہیں ان ہر دو انتہا پسندانہ
سیاسی مؤقف و مذہبی رحجانات کے درمیان ملکوں اوران میں موجود غالب مگر
خاموش اکثریت کا کردار بجائے خود بڑا تکلیف دہ ہے۔ان ممالک میں ملائشیا ء ،
انڈونیشیاء ، پاکستان ، بنگلہدیش ، ترکی ، مصر ، سوڈان ،الجذائیر ، تیو نس
، مراکش وغیرہ شامل ہیں ۔ اگر مندرجہ بالا تناظر میں آپ صورت حال کا حقیقت
پسندانہ اور معروضی تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچنا کچہ ذیا دہ مشکل نہین
کہ یہ سب کسی great game کا حصہ ہے جس کا لاذمی اور نا قابل تلافی نقصان
اولا’ تو مسلم دنیا کو پہنچے گا لیکن اس کے نقصانات اور اثرات سے game کے
playerبہی نہ نچ سکیں گے ۔ شیعہ ۔ وہابی بلاکس میں تیزی سے تقسیم ہوتی مسلم
دنیا نہ تو ’ا مہ کے فائدے مین ہے اور نہ ہی دنیائے انسانیت کے مفاد میں ہے
۔
دنیا کے تمام ممالک اور با الخصوس مسلم ممالک جو ابہی ان دو انتہاؤ ں مین
سے کسی ایک طرف جھکاؤ سے مکمل یا جزوی طور پر محفوظ ہیں ان کا کردار
انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ ہو گیا ہے ۔ ایسے تمام ممالک کو بہ یک زبان ہو
کر کسی بڑے عالمی تصادم کو ہونے سے روکنے میں بہرپور کوششیں کرنا چاہییں جو
امریکہ + وہابیت اور روس + شیعت کے اتحادوں کے نتیجہ مین اس سوہنی دہرتی پر
بسنے والیے سات ارب انسانوں کے سروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے ۔ کیو نکہ
تاریخ ہمین بتاتی ہے کہ جب بہی سیاسی د یوانگی کے ساتہ مذہبی جنون نے اتحاد
کیا ہے قتل و غارت گری کے سوا اس کا نتیجہ کچہ بہی نہیں نکلا ۔عرب دنیا میں
اس تباہی و بربادی کا آغاز ہو چکا ہے لیکن یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہین یہ
جلد یا بہ دیر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ مین لے لے گا ۔ بین ا لاقوامی اور
علاقائی forumsان حالات سے نبرد آزما ہونے مین بے بس دکہائی دیتے ہیں یا
پہر مثبت کردار ادا کرنے سے کترا رہے ہیں ۔علاوہ ازیں مختلف ممالک بہی اپنی
اپنی ریاستی حدود میں ایسے شدت پسندانہ زحجانات کا باعث بننے والے عوامل سے
نمٹنے میں با وجوہ ناکام نظر آتے ہیں ۔ |