ذرائع ابلاغ عامہ میں الیکڑونک
میڈیا کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ، خاص طور پر پاکستانی الیکڑونک
میڈیا کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو عوام میں یہ رائے عامہ عمومی پائی
جاتی ہے کہ پاکستانی الیکڑونک میڈیا رائی کو پہاڑ بنانے میں کمال مہارت
رکھتا ہے۔ پاکستانی چینلوں پر تنقیدفعل ممنوع نہیں ہے ہم جانتے ہیں کہ
پاکستان کی سیاسی جماعتیں کس طرح اپنے مقاصد کیلئے اس اہم ذریعہ کو استعمال
کرتی اور کر رہی ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کی طاقت ور لابیاں بھی اپنے
مقاصد کیلئے ذرائع ابلاغ کے تمام موثر ذرائع کو باقاعدہ مربوط منصوبہ بندی
کے تحت استعمال کرتی ہیں اور اپنے اہداف کو کامیابی سے حاصل کرلیتی ہیں ۔یہودیوں
کی مقبول کتاب "پروکوٹولز"کے بارہویں باب کے اقتباس ہے کہ"ہماری منظوری کے
بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو
یقینی بنانے کیلئے ہم یہودیوں کیلئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم
کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبریں جمع کرنا ہو ، اس
صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے
بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔"یہ کتاب دنیا بھر کے منتخب کی گئی یہودی داناؤں
کی پوری ایک جماعت نے مل کر تحریر کی ہے ۔"پروکوٹولز" نامی اس کتاب میں صرف
پوری دنیا کے میڈیا پر کنٹرول ہی نہیں بلکہ وسیع تر اسرائیل کا جو پلان
بتایا گیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی کس طرح پوری دنیا میں قابض ہونے کی
منصوبہ بندی کے ساتھ جند پروٹوکولز بھی لکھے ہیں کہ وہ دنیا میں قبضے کے
بعد کس طرح حکومت کریں گے۔پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل
تعداد چالیس سے زیادہ بتائی جاتی ہے -
ہم دور حاضرہ میں دیکھ چکے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کو اپنے مفادات کیلئے جس
چالاکی کی ساتھ مغربی استعماری قوتوں نے مسلم ممالک کے خلاف استعمال کیا ہے
اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔امریکہ نے عراق اور افغانستان کے خلاف کمال چالاکی
سے جھوٹا پروپیگنڈا کرکے میڈیا کا موثر استعمال کیا اور ان ممالک میں
جارحیت کے لئے جواز پیدا کیا ، عراق کے خلاف کیمیاؤئی ہتھیاروں کی برآمدگی
اور نائن الیون کے بعد صہیونی سازش کے تحت افغانستان کے خلاف میڈیا
کااستعمال کرکے لاکھوں انسانوں کی جانوں کو اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھا دیا۔
یہ صہیونی میڈیا طاقت ہے جس نے فلسطین ، غزہ میں ہونے والے مظالم کو دنیا
میں غیر جانبدارنہ انداز میں دکھانے میں رکاؤٹ پیدا کی ، بیرونی استعماری
قوتوں کا موثر ہتھیار ہی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والے فرقہ وارنہ خانہ
جنگیوں کی حقیقی کہانیوں کو من پسند انداز میں پیش کرکے دیگر مسلم ممالک کے
مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں، شام اور عراق میں
کیا ہو رہا ہے اور اس میں کس کی خطا زیادہ ہے ، ہمیں اس کا درست اندازہ
لگانے کیلئے کمال احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہم جو کچھ بھی اعداد و
شمار ھاصل کرتے ہیں وہ سب یہود و نصاری کے زیر اثر میڈیا کی مرہنوں منت
ہوتا ہے ۔اگر متحارب گروپس کی ویب سائٹ پر جا کر احوال واقعی حاصل کریں تو
مبالغہ آرائی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ سچائی کا اندازہ لگانے کیلئے آپ کو
غیر جانبداری سے تھوڑا نیچا اترنا پرتا ہے۔اگر ایک فرقہ خود مظلوم ثابت
کرنے کیلئے دوسرے فرقے کو ظالم قرار دیتا ہے تو یہی صورتحال دوسرے فرقے پر
بھی صادق آتی ہے ،اس لئے کسی بھی بین الااقوامی معاملے پر حقیقت مندانہ
تجزیہ کرنے کیلئے تمام فریقین کو نزدیک سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کچھ
یہی صورتحال جہاں اسلامی ممالک کے ساتھ یہود و نصاری نے روا رکھی تو بد
قسمتی سے پاکستان میں بھی کچھ ایسی صورتحال سیاست دانوں کی جانب سے اپنے
مخالفین کیلئے دیکھنے میں آئی کہ جہاں انھوں نے جس نیوز چینل یا میڈیا گروپ
پر اجارہ داری قائم کرلی ، وہاں اس کا طوطی بولے جانے لگا۔
آزاد صحافت کا تصور پاکستان میں بڑی شد ومد سے لیا جاتا ہے لیکن عملی طور
پر اس کا مظاہرہ بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ
پاکستانی میڈیا کی تمام بھاگ دوڑ کسی خاص جگہ سے کنٹرول کی جا رہی ہے ،
پاکستانی میڈیا وہی بولتا ہے ، جو اس کی زبان پر رکھا جاتا ہے۔خاص طور پر
الیکڑونک میڈیا کا کردار اتنا متنازعہ ہے کہ اسے قطعی طور پر غیر جانب
دارنہ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔
مخصوص مائنڈ سیٹ کیلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ کتنا اخلاقی اقدار کے قریب ہے ،
بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ شدت پسندی کے ہر رنگ روپ نے فسطائیت اختیار کرکے
اپنے افکار و نظریات کو جبری طور پر متعارف کرانے کیلئے میڈیا کو کنٹرول
کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور اسی پالیسی کی وجہ سے ہی پوری دنیا میں
پاکستان کو صحافتی کوریج کے اعتبار سے خطرناک ترین ملک قرار دیا جا تا ہے۔
عدم تحفظ اور مفادات فروعی کے اسباب تلے پاکستانی میڈیا ، مکمل کنٹرول
پالیسی کے تحت چلتا ہے ۔اس کا اہم نقطہ عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ
و دھرنے ہیں ، جنھیں پاکستانی میڈیا نے شمال مغربی علاقوں میں شدت پسندوں
کے ساتھ پاک افواج کی جنگ پر فوقیت دی ، غزہ میں یہود و نصاری کی جانب سے
بر بریت کی تاریخ رقم کئے جانے کی مسلسل روش کو نظر انداز کرنے کی پالیسی
اپنائی گئی ۔مشرقی سرحدوں پر اور شمال مغربی سرحدوں پر نادان دوست اور دشمن
ملک کی مسلسل جارحیت پر خاموشی اختیار کرلی گئی ، معاشی طور پر پاکستان کی
دگرگوں حالات پر ایسے بیانات کو فوقیت دی گئی جس میں تارکین وطن کی جانب سے
ترسیلات زر کی فراہمی کیلئے غیر قانونی راستے اختیار کرنے کی ترغیب کے ساتھ
غربت سے بد حال عوام کو سول نافرمانی کی تحریک کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں
کے درمیان تنازعات کیلئے تھرڈ ایمپائر کی اصطلاح استعمال کرکے ان دھرنوں کے
خلاف دیگر جماعتوں کے کارکنان میں فرسٹریشن میں اس قدر اضافہ کیا گیا کہ وہ
بھی جوابا احتجاجی مظاہروں پر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئے تاکہ تصادم کی
راہ مخفی قوتوں کیلئے ہموار کی جاسکے۔
الیکڑونک میڈیا اس مرحلے پر وہی روش ان دونوں جماعتوں کے ساتھ اختیار
کرسکتا تھا جو دیگر سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے جلسے جلوس اور پریس
کانفرنسوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ، لیکن الیکڑونک میڈیا ، اس مہم جوئی میں
خود ایک فریق بنتا نظر آتا ہے کہ ان کے بعض اینکرز پرسن کھلم کھلا جمہوریت
یا حکومت کے خلاف گل افشانی کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستانی الیکڑونک میڈیا کا
کردار ذاتی طور پر مدبرانہ اور سنجیدہ تصور نہیں کرتا ، کیونکہ الیکڑونک
میڈیا اس قدر موثر ذریعہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کا اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے تک
عوام بے خبر رہتی ہے اور وہ اس ہی رو میں بہہ جاتی ہے جس ریلے میں ایسے
الیکڑونک میڈیا لے جانا چاہتا ہے۔الیکڑونک میڈیا کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے
، کنٹرولڈ الیکڑونک میڈیا کی مثال بھی دور آمریت کی طرح ہے جس میں مخصوص
مائنڈ سیٹ کو جبری طور پر عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔الیکڑونک
میڈیا کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ایسے اس مہم جوئی کا کیا فائدہ ہو رہا ہے
؟۔ کیا وہ اس مہم جوئی سے ضمیر کی مارکیٹ میں ریٹنگ بڑھا رہا ہے یا گھٹا
رہا ہے ۔ انھیں یہ ضرور سوچنا ہوگا۔ |