این آر او کے بعد قرض معاف کرانے
والوں کی فہرست بھی شائع کی جائے
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک ہفتے قبل جب یہ کہا تھا کہ ہم این آر
او کے مقدمات کیلئے عدالتوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں ہم جیلوں سے پہلے
گھبرائے تھے نہ آئندہ گھبرائیں گے٬ آزاد عدلیہ کا ہر فیصلہ قبول ہوگا٬ تو
پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ڈی ڈے اتنی
جلدی آجائے گا۔ عید قربان کے ساتھ ہی ایک اور قربانی کی تیاریاں قابل فہم
تو ہیں، لیکن ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیری لوگر بل، بلیک واٹر، این
آر او پر اسمبلی میں ہزیمت اٹھانے کے بعد این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں
کی فہرست نے بہت سے چہروں کا رنگ سرخ کردیا ہے۔ بہت سے مراعات یافتہ افراد
تو اس بات پر شدید ناراض ہیں، ان کے نام اس فہرست میں شامل ہی کیوں کئے گئے،
امریکہ میں مقیم سفارت کار کی آواز میں سوز محسوس ہورہا تھا۔ اور ان کے غم
وغصے کا اظہار ایک ٹی وی چینل پر کامران خان سے چیختی چلاتی آوازوں میں بات
چیت سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کے کئی وزراء اس بات کا جواب دینے سے قاصر
تھے کہ ان کے وزیراعظم نے ان کے ناموں کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے کیسی بے
مہری کا ثبوت دیا۔ این آ ر او پر عوامی حلقوں کی جانب سے بھی شدید ردعمل کا
اظہار ہوا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بدنام زمانہ آرڈینینس سے
فائدہ اٹھانے والوں میں سیاست دان کی تعداد آدھے فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ
فائدہ اٹھانے والے بیوروکریٹس صرف تین فیصد ہیں۔۷۹ فیصد لوگوں کا نام وپتہ
بے نام ہے نہ تو قوم کو ان کے کرتوتوں کا علم ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں
واویلا ہے۔ یہ امر بھی استعجاب کا باعث ہے کہ ۱۴۰۸ میں سے ۷۹ فیصد یعنی
۳۹۷۷ کا تعلق سندھ کے صوبے سے ہے۔ گویا ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے
والے کرپشن سے پاک ہیں، اس فہرست سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کہ صرف ایم کیوایم متحدہ ایسی جماعت ہے جس کے مقدمات کی تفصیل دی گئی ہے۔
جبکہ دیگر کرپشن کرنے والوں کی تفصیل نہ دے کر ان کے جرائم کو ہلکا ظاہر
کیا گیا ہے۔ یہ بات قوم کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ان ناموں کے ساتھ کرپشن
کی مالیت بھی بتائی جائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کس نے کس قدر لوٹا ماری کی
ہے۔ وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی یہ بات بھی کہہ چکے ہیں کہ ‘ہم احتساب
کا صاف و شفاف اور سب کیلئے قابل قبول قانون بنانا چاہتے ہیں اسے اتفاق
رائے سے پارلیمنٹ میں لا کر منظور کرائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں سیاستدانوں سے
زیادہ دوسرے لوگ ہیں۔ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے نمایاں سیاستدانوں
میں صدر آصف زرداری، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، گورنر سندھ ڈاکٹر
عشرت العباد خان، سابق وزیر اعلیٰ سرحد آفتاب شیر پاؤ اور نصرت بھٹو سمیت
۴۳سیاستدان، تین سفارتکاروں اور دو سو اڑتالیس بیورو کریٹس سمیت آٹھ ہزار
اکتالیس افراد شامل ہیں۔ سیاستدانوں میں صدر آصف زرداری، متحدہ قومی موومنٹ
کے قائدالطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار، کنور خالد یونس، شعیب بخاری، ڈاکٹر
عشرت العباد، وسیم اختر، صفدر باقری، بابر غوری، سلیم شہزاد، آغا سراج
درانی، نصرت بھٹو، کبیر خان، جہانگیر بدر، مشتاق اعوان، رانا نذیر، انور
سیف اللہ، آفتاب شیر پاﺅ، میر باز کیھتران، یوسف تالپور، احمد صادق اور
جاوید قریشی ، پیر مکرم الحق، بریگیڈیئر امتیاز ریٹائرڈ، سلمان فاروقی،
رحمان ملک، عثمان فاروقی۔ سفارتکاروں میں حسین حقانی، واجد شمس الحسن اور
اے آر صدیقی کے ناموں کا تو ڈھنڈورا تو رات دن میڈیا سے پیٹا جارہا ہے۔
لیکن ان ہزاروں افراد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا کہ انہوں نے کیا گل
کھلائے ہیں۔ کئی حلقوں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جارہاہے کہ حکو مت میں
شامل ایسے وزراء سے استعفیٰ لے لئے جائیں گے۔ جن کے نام اس فہرست میں شامل
ہیں۔ اس بات کو بھی مشتہر کیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے
کابینہ میں ردوبدل کا فیصلہ کر لیا ہے اور عید کے بعد کابینہ میں بڑے
پیمانے پر ردو بدل ہوگا اور کئی وزراء فارغ کردیئے جائیں گے۔ کابینہ میں
تبدیلی کے عمل کو تیز ہوتے ہوئے دیکھ کر پارٹی کے اندر وزیر اعظم کے خلاف
ایک لابی بھی متحرک ہوگئی ہے اور اس نے وزیر اعظم کی اہلیہ کا نام بھی این
آر او سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا جسے بعد ازاں اس
فہرست میں 12گھنٹے کے تبدیلی کر کے نکال دیا گیا ہے۔ آئندہ ہفتوں میں ملکی
سیاست میں مزید بھونچال آنے کی پیشن گوئیاں کی جارہی ہیں۔ اسمبلی میں اس
بات کا بھی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران معاف کرائے
گئے قرضوں کی تفصیلات بھی منظر عام پر لائی جائیں۔ اور ان کی فہرست بھی
میڈیا پر لائی جائے۔ اگر یہ فہرست جس کو شائع کرنے کا اسمبلی میں وعدہ کیا
گیا ہے منظر عام پر آگئی تو مزید بہت سے چہروں سے نقاب اتر جائے گا۔ |