اسامہ اور ملا عمر امریکیوں کے لئے ایک ڈراﺅنا
خواب ہے۔ جس سے امریکیوں کی نیند حرام ہوگئی ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر
مسلمانوں پر تھوپی گئی اس جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور
اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان، عراق، اور پاکستان میں اس جنگ کو اس
طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ اب ہم سوچنے سمجھنے سے بھی مجبور ہو چلے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں اور روزانہ معصوم بچوں، خواتین،
نوجوانوں کے اٹھتے ہوئے جنازوں کو دیکھ کر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ کیا
ہے۔ مذہب اسلام، شعائر اسلام، مدرسوں، مساجد کو دہشت گردی کے اڈے بنا کر
پیش کرنا کس کا کام ہے۔ اگر آپ کو اب بھی اس کا اندازہ نہیں تو سی آئی اے
کے سربراہ کی پاکستان آمد پر تو آپ کو اس سازش کا اندازہ ہوجانا چاہئے۔ ایک
جانب بلیک واٹر ہے۔ جو پاکستان میں اپنا نظام چلا رہی ہے۔ دوسری جانب
امریکی ہیں جو آئے دن ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ ڈو مور ڈو مور کا نعرہ لگاتے
ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں، کے خون میں لتھڑے ہوئے ڈالروں سے محبت
ہے۔ افغانستان کی سرحدوں سے آپریشن اور ڈرون حملے پاکستان کے اندر گھس آئے۔
سوات، قبائیلی علاقے، کوئٹہ کے بعد اب کراچی پر بھی دشمنوں کی نظر ہے۔ ابھی
تک تو کراچی میں طالبان کے آنے کا شور تھا، اب طالبان پکڑے بھی جانے لگے۔
اور ساتھ ہی اور اور اور کا شور مچاتے ہوئے امریکی میڈیا نے کراچی میں ملا
عمر کی موجودگی کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے الزام عائد کیا ہے کہ ملا عمر کراچی میں
روپوش ہیں، اخبار نے تین موجودہ اور ایک سابق امریکی انٹیلی جنس حکام کے
حوالے سے دعویٰ کیا ہے امریکی ڈرونز حملوں سے بچنے کے لیے ایک آنکھ سے
معذور افغان طالبان رہنما ملا عمر کراچی میں چھپے ہوئے ہیں جہاں انہیں
پاکستانی خفیہ ایجنسی کی معاونت حاصل ہے۔ اخبار کے مطابق 2001میں جب امریکا
نے افغانستان پر جارحیت کی تو اس وقت ملا عمر اپنی شوریٰ کے ساتھ قندھار سے
کوئٹہ میں منتقل ہوگئے تھے۔ اخبار نے امریکی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے بتایا
کہ ملا عمر نے گزشتہ ماہ رمضان کے بعد کوئٹہ سے کراچی کا سفر کیا۔ انہوں نے
کراچی میں اعلیٰ قیادت پر مشتمل کونسل کی تشکیل کی، کراچی جو امریکا اور
پاکستانی حکام کی انسداد دہشت گردی مہم سے تاحال محفوظ شہر ہے، موضوع کی
حساسیت کی بنا پر حکام نے اخبار کو معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر
نہیں کیا۔ انہوں نے دعوی ٰ کیا کہ ملا عمر کو عنقریب ڈرونز حملے میں ہلاک
کیا جانا تھا، اس حملے سے بچانے کیلئے پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی نے ملا
عمر کو کوئٹہ سے کراچی میں منتقلی میں مدد فراہم کی۔ طالبان اور القاعدہ کے
حوالے سے ممتاز تجزیہ کارBruce Riede نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا عمر
حال ہی میں کراچی میں روپوش ہوئے ہیں۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ
کیا ہے کہ کراچی میں مدرسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں ملا عمر آسانی سے
روپوش رہ سکتے ہیں، ریڈل نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کراچی میں خودکش بمبار
کافی تعداد میں موجود ہیں، لیکن طالبان اور القاعدہ کراچی میں ایسی
کارروائی کر کے اپنے ہی گھونسلے میں خرابی کے مصداق کوئی غلطی نہیں کرنا
چاہتی۔ انسداد دہشت گردی کے امریکی حکام نے تصدیق کی کہ انہیں اس بات کے
شواہد ملے ہیں کہ طالبان کے کچھ رہنما کوئٹہ سے کراچی منتقل ہوئے ہیں تاہم
اس سے یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ طالبان کی قیادت مکمل طور پر پاکستان کے
کسی اور شہر میں منتقل ہوگئی ہے۔ ایک دوسری خفیہ ایجنسی کے ذرائع نے یہ
تصدیق کی ہے کہ الیکٹرانک اور انسانی ذرائع کے ساتھ ساتھ خفیہ ذرائع نے بھی
ملا عمر کی کوئٹہ سے منتقلی کی تصدیق کی ہے تاہم اسامہ یا ایمن کراچی میں
موجود نہیں ہیں۔ کراچی میں منتقلی کی ایک بڑی وجہ گنجان آبادی کا حامل شہر
ہونے کی وجہ سے امریکی ڈرونز حملوں کو خطرہ نہیں ہے، اخبار کے مطابق
القاعدہ کراچی میں 2001سے موجود ہے۔ اس رپورٹ پر ہمارا ردعمل کیا ہے صرف
دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ ٬ پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کی قیادت کی ملک
میں موجودگی کی رپورٹوں کو مسترد کر دیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط
نے نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روزنامے ”واشنگٹن پوسٹ“
میں شائع ہونے والی رپورٹ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کی قیادت کی ملک میں موجودگی کی رپورٹس کو
ہمیشہ سختی سے مسترد کیا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان
ندیم کیانی نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی
حکومت میں سے کوئی کوئٹہ یا کراچی شوریٰ کے بارے میں معلومات رکھتا ہے تو
پھر وہ اسے پاکستان کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کرتا تاکہ ہم اس مسئلہ سے نمٹ
سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ملا عمر کی کراچی میں موجودگی کا کوئی
ثبوت نہیں۔ اور ہمارے وزیر اعظم نے امریکی سیاسی رہنماﺅں اور حکمرانوں کے
بجائے امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر لی اون ای
پنیٹا سے بات چیت میں کہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی
سے جنوبی ایشیاﺀ میں علاقائی توازن متاثر نہیں ہونا چاہئے، امریکہ سٹرٹیجک
شراکت داری کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے غلط فہمیاں دور کر کے اعتماد قائم
کرے۔ وہ جمعہ کو وزیراعظم ہاﺅس میں امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی
اے) کے ڈائریکٹر لی اون ای پنیٹا سے بات چیت کر رہے تھے۔ ملاقات میں
افغانستان کے متعلق نئی امریکی پالیسی زیر غور آئی اور وزیراعظم نے زور دیا
کہ امریکہ کو افغانستان کے متعلق اپنے روڈ میپ سے پاکستان کو پوری طرح آگاہ
کرنا چاہئے اور اس میں پاکستان کی تجاویز کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ ایک
نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سی آئی اے کے ڈائریکٹر
لیون پینٹا نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا سے ملاقات کی۔
ملاقات میں دو طرفہ امور، علاقائی صورتحال اور افغانستان کی صورتحال پر
تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر پر واضح
کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشتگردی کی سرگرمیوں کی
معاونت کررہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں نے اس حوالے سے بھی ثبوت سی آئی اے کے
سربراہ کو پیش کئے۔ اس صورتحال میں ہمیں سوچ لینا چاہئے کہ آگے کیا ہونے جا
رہا ہے۔ |