ازمیر ہاوسنگ سوسائٹی لاہور جہاں میری رہائش ہے وہاں آج
پہلے تیز بارش ہوئی اور پھر رم جھم۔کئی گھنٹوں بعد یہ اب بھی جاری ہے۔موسم
بہت خنک اور خوبصورت ہوگیا ہے۔اس خوشگوار موسم میں اسلام آباد کے لڑائی
جھگڑوں سے بات شروع کرنا اچھا نہیں لگتا۔آج ہم محترم سراج الحق سے بات شروع
کرتے ہیں۔ ان کے بارے لکھنے کا ارادہ تو اسی دن کرلیاتھا جب میں نے سلیم
صافی کے ساتھ ان کا پہلا تفصیلی انٹرویو سناتھا۔بعد میں دھرنے رکاوٹ بن گئے۔
ایک گھنٹے پر مشتمل اس انٹرویو کے بعد یہ یقین ہوگیاتھا۔کہ یہ شعر انہیں کے
لئے کہاگیا ہے۔
نگاہ بلند،سخن دلنوازو جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفرمیرکارواں کے لئے
انٹرویو کے دوران سوالات بڑے پیچیدہ اور تسلسل سے ہورہے تھے۔لیکن جوابات سے
اعتماد یقین اور مشن سے لگاؤ بڑا واضح تھا۔الیکٹرانک میڈیا کے زمانے میں
جیسے امیر جماعت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔وہ اﷲ نے پوری کردی ہے۔جماعت
اسلامی کے امیر کے لئے بنیادی طورپر جن شرائط اور خصوصیات کا ہونا ضروری
ہوتا ہے،وہ تو ان میں موجود ہی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کو اعتماد سے فیس کرنا
ان میں اضافی صفت ہے۔اس سے پہلے جناب سید منور حسن صاحب بھی صاحب علم اور
صاحب تقویٰ تھے۔لیکن میڈیا کے پیچیدہ اور ڈپلومیٹک سوالوں کے جوابات کے وقت
وہ ناراض ہوجاتے تھے۔اس سے لاکھوں عوام کے سامنے جماعت کا تاثر اچھا نہیں
بنتاتھا۔ان کے مطالعہ اور محنت سے ہم خوب واقف تھے۔وہ میرے امیر جماعت تو
نہیں البتہ ـ ـ"ناظم اعلیٰ"ضرور رہے تھے۔اور ہم جناب منور حسن کے اسلامی
تحریکی مطالعہ سے بہت فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔میرے جھنگوی دوست ظفر جمال
بلوچ صاحب کو یہ باتیں بہت زیادہ یاد ہونگیں۔سراج الحق صاحب سیاسی حالات و
مسائل کو زیادہ جانتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔جب سے پاکستان کی ایک سیاسی
پارٹی اور ایک مذہبی پارٹی نے اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا
ہے۔اس وقت سے سراج الحق صاحب قومی سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے نظر آتے
ہیں۔حکومتی پارٹی اور احتجاجی پارٹیوں سے تیزی سے ہر وقت رابطہ رکھے ہوئے
ہیں۔اور انکی یہ پوری کوشش ہے کہ یہ سارا مسلۂ امن سے اور آئین کے اندر
رہتے ہوئے حل ہوجائے۔ایک ایسی تنظیم جس کی قومی اسمبلی میں صرف4سیٹیں
ہوں۔اس کا پورے قومی سیاسی منظر نامے پر چھائے رہنا بہت بڑی بات ہے۔سراج
الحق صاحب کی شخصیت میں حب الوطنی کا معیار کافی اونچا محسوس ہوتا ہے۔آج کل
انکی تمام بھاگ دوڑ اسی حب الوطنی کا نتیجہ ہے۔آج یکم ستمبر کو بھی انہوں
نے اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس بلایا ہے۔اور اس کے بعد میڈیا کے ذریعے حکومتی
پارٹی اور دھرنا پارٹیوں کو تشدد سے بچنے کی وہ تلقین کرتے نظر آتے
ہیں۔انکی یہ بھی کوشش ہے کہ ایک ایسا فارمولا بتایا جائے جس پر عمل درآمد
کی ضمانت پوری پارلیمنٹ دے۔یہ فارمولا اور اسکی ضمانت عمران خان اور طاہر
القادری کے لئے دھرنے سے نکلنے کا سبب بن سکے۔ملک میں مزید ہنگامہ آرائی
اور توڑ پھوڑ نہ ہو۔یہ بات واضح ہے کہ سراج الحق صاحب ملک کو مارشل لاء سے
بچانا چاہتے ہیں۔وہ دھرنے والوں کے مطالبات کے حق میں تو ہیں۔لیکن ان تمام
مطالبات کو حکومت کے لئے بھی قابل قبول بنانا چاہتے ہیں۔تاکہ حکومت بھی
آسانی سے مطالبات کو مان لے۔اور ملک میں ہیجانی کیفیت ختم ہوجائے۔وہ چاہتے
ہیں کہ حکومت کا نظام،پارلیمنٹ ،عدلیہ اور جمہوریت کام کرتی رہے۔اگر سپریم
کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کے لئے پوری پارلیمنٹ
ضامن بن جاتی ہے تو دھرنے والوں کو بھی یہ تجاویز ماننے میں ہچکچاہٹ نہ
ہوگی۔آخر پارلیمنٹ سے بڑی ضمانت اور کیا ہوسکتی ہے۔اگر کمیشن یہ کہہ دے
کہ2013ء کے الیکشن میں واقعی دھاندلی ہوئی ہے اور اس میں مسلم لیگ ن کی
قیادت ملوث تھی تو پھر وزیراعظم نواز شریف کو استعفےٰ دینے میں دیر نہیں
کرنی چاہیئے۔ججز حضرات اپناکام ایک خاص وقت میں مکمل کریں ۔محترم سراج الحق
کی کوششوں کے مثبت نتائج نکلنے کے قومی امکانات ہیں۔ ان کو تمام باقی ماندہ
پارلیمانی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔جب کوششیں خلوص سے کی جاتی ہیں تو اس
کا مثبت اثر تمام فریقوں پرپڑتا ہے۔جناب عمران خان صاحب سراج الحق کے خلوص
کا انکار نہیں کرسکتے۔سراج الحق کے ہاں تجربے کی کوئی کمی نہیں ہے۔وہ 3سال
تک پاکستان کے طلبہ کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ رہے ہیں۔جماعت اسلامی کے
نائب امیرتو وہ کئی سالوں سے ہیں۔مجلس عمل کی حکومت میں وہ صوبہ خیبر
پختونخواہ کے سینئر وزیر رہے ہیں۔وزارت خزانہ جو ایک تکنیکی وزارت ہوتی
ہے۔اسکی وہ نگرانی کرتے رہے ہیں۔اور2013ء سے اب تک پھر انہوں نے وزارت
خزانہ کی ایک سال تک نگرانی کی۔انہوں نے اپنے صوبے کے شعبہ تعلیم کے لئے سب
سے زیادہ رقوم مختص کرکے یہ ثابت کیا کہ ناخواندگی صوبے کا سب سے بڑا مسلۂ
ہے۔باقی صوبوں نے بھی سراج الحق صاحب کے اقدامات کی پیروی کرنیکی کوشش
کی۔لوئر دیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں اور انتہائی غریب گھرانے سے تعلق کی وجہ
سے وہ غریبوں کے مسائل کو براہ راست جانتے ہیں۔باقی تمام سیاست دانوں کی
نسبت وہ غریبوں کے مسائل کو اپنے جذبے اور لگن سے حل کرنیکی ہمت رکھتے
ہیں۔ایک پارٹی کی سب سے اونچی ذمہ داری پر بیٹھے ہونے کے باوجود سادہ زندگی
اپنائے ہوئے ہیں۔اس سطح کا شاید ہی کوئی اور سیاستدان ہو جو اب تک کرائے کے
مکا ن میں رہتا ہو۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ مسائل کے حل کرنے کے لئے
ان کے پاس تجربے کی کمی نہیں ہے۔اپنے تجربے،سیاسی بصیرت ،ذہانت اور تحرک کی
وجہ سے ملک کے لوگوں نے ان سے توقعات وابستہ کرلی ہیں۔میں نے نیٹ پر انکی
Profileکے آخر میں لوگوں کے تبصرے پڑھے ہیں۔ایک دنیا ان کے آگے بڑھنے کے
انتظار میں ہے۔آجکل تو انکی زیادہ توجہ سیاسی بحران کو حل کرانے کی طرف
ہے۔وہ تمام پارٹیوں سے رابطہ رکھ کر ملک کو اس بحران سے نکالنے کی سرتوڑ
کوشش کررہے ہیں۔ملک کے بے شمار لوگوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ان کے دور
میں جماعت اسلامی کا کام بھی آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ایک سینئیر صحافی کے
سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بتا کر بات واضح کردی تھی کہ میں جماعت کے
ارکان کی دینی تربیت بھی کرونگا اور ساتھ ہی جماعت کوسیاسی لہاظ سے آگے
بڑھاونگا۔جب سلیم صافی نے ان کے انداز خطابت کی بنیادپر یہ سوال کیا کہ کیا
جماعت اسلامی کے ارکان ذولفقارعلی بھٹو کے پیرو بننے جارہے ہیں۔جواب فوری
تیار تھا کہ نہیں آج کا ذولفقار علی بھٹو ،سید ابواعلیٰ موددی کا مرید بننے
جارہا ہے۔محترم سراج الحق صاحب نہ صرف سوال کا جواب تیزی سے دینے بلکہ
انتہائی صحیح جواب دینے کا ملکہ رکھتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے زمانے میں
امیر جماعت کے لئے اس صفت کا ہونا ضروری تھا۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں ان کے
پانچ سالا دور وزارت میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔یا اب ایک سالہ دور میں کئی
منصوبے شروع کئے گئے۔جماعت کے حضرات کو ان منصوبوں کی دورجدید کے تقاضوں کے
مطابق تشہیر کرنی چاہیئے۔جب تک کسی شخص کے بارے بات خوبصورت انداز سے بتائی
نہیں جاتی۔لوگوں کا اس شخصیت کے بارے پورا تعارف نہیں ہوتا۔سیاسی بحران کو
حل کرنیکی کوششیں ہر شخص دیکھ رہا ہے۔آج یکم ستمبر کو بھی کوششیں جاری
ہیں۔وہ دونوں فریقوں کو تشدد سے روک رہے ہیں۔ریاستی بلڈنگوں پر قبضے سے منع
کررہے ہیں۔ایسے تمام کام جن سے سیاسی بحران بڑھے۔آئین اور جمہوریت کے لئے
خطرہ پیدا ہوجائے۔ان تمام غلط کاموں کے سامنے وہ دیوار بنے نظر آتے
ہیں۔انکے مثبت بیان آج بھی پوری قوم ٹی۔وی پر چلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔وہ
کبھی ایک فریق کو ملتے ہیں اور کبھی دوسرے کو۔تمام سیاسی لیڈروں سے رابطے
میں ہیں۔حب الوطنی انکے ہر قدم سے ظاہر ہورہی ہے۔ایسا ذہین ،تیزاور متحرک
امیر جماعت پہلے نہیں دیکھا گیا۔ملک و قوم اور اپنی جماعت سب کا دردوہ بیک
وقت محسوس کرتے ہیں۔امید ہے کہ ایسے مخلص انسان کی کوششیں ضرور رنگ لائیں
گی۔اس لمحہ تک اگرچہ اسلام آباد سے اچھی خبریں نہیں آرہیں۔لیکن گزشتہ روز
کی کورکمانڈر کانفرنس نے بھی بحران کو حل کرنے کے لئے مثبت اشارے ہی دیتے
ہیں۔اور ہمیں پوری امید ہے کہ متحرک،ذہین اور مخلص امیر جماعت کی کوششیں
ضرور رنگ لائیں گی۔ |