مقصدِ وجودِ پاکستان سے روگردانی
نے آج یہ دِن دکھائے کہ افواجِ پاکستان ایک طرف شمال مشرقی پہاڑوں میں اپنے
ہی شہریوں پر بمباری پر مجبور کردی گئی ہیں تو دوسری جانب آرٹیکل 245 کے
تحت ملک کے دارالحکومت کی حساس ترین عمارتوں کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے
رہی ہیں۔ آج عمران خان جیسا اعلٰی ترین تعلیم یافتہ اور بین الاقوامی شہرت
یافتہ پاکستانی انتہائی تند و تیز لہجے اور سخت تکلیف دہ الفاظ میں سربراہِ
مملکت کو للکار رہا ہے ۔ وہ دراصل میاں نواز شریف یا افتخار چوہدری کو نہیں
بلکہ ریاستِ پاکستان کے اُن ستونوں(pillers) کو للکار رہا ہے جن پر کسی بھی
ریاست کی عمارت ایستادہ ہوتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے یہ ہمارے یہاں تاریکی اور
ظلم کی علامت بن چکے ہیں۔
یہ pillers جو مہذب دنیا میں ملکوں کی عزت اور سلامتی کی ضمانت سمجھے جاتے
ہیں لیکن ہمارے ملک کی بنیادوں تک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
انتظامیہ(establishment)، مقننہ( Legislature)، عدلیہ(Judiciary) اور ذرائع
ابلاغ(Media) سمیت کونسا piller رشوت، سفارش، اقرباء پروری، دھونس، دھاندلی
سے پاک ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام ان اداروں سے اپنے لئے عزت و انصاف کے لئے
ترستے ہیں لیکن جواب میں دھکے کھاتے ہیں اور مال و عزّت لُٹواتے ہیں۔ طالع
آزما جرنیلوں کے لمبے لمبے ادوارِ حکومت انکو ٹھیک نہ کرسکے اور نہ ہی ملک
کی بڑی سیاسی جماعتیں کچھ مداوا کرسکیں۔ پاکستانی کچلے ہوئے عوام نے
افغانستان کے کچلے ہوئے عوام کو وہاں کے طالبان کے قائد ملا عمر کے مختصر
دورِ حکومت میں عدل و مساوات کی سمت سفر کرتے دیکھا تو اُنہی کو اپنا نجات
دہندہ سمجھ بیٹھے اور عدل و مساوات مشرق و جنوب کی سمت آتا دکھائی دینے
لگا۔ لیکن درمیان میں جب امریکا کے میزائیلوں نے وہ راستہ روک لیا تو اپنی
جان، مال، عزت و آبرو پر ڈاکہ زن ریاستِ پاکستان سے خود کو آزاد کرنے کی تگ
و دو کرنے والی پاکستانی قوم نے 2013 کے انتخابات میں عمران خان کی طرف رخ
کیا۔ جسمیں مبینہ دھاندلی پر آج عمران چراغ پا ہے۔
جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ کلچر نے جسطرح عوام کو 67 سال سے
تعلیم و آگہی سے دور رکھا تاکہ غلام ہمیشہ غلام ہی رہے اور اپنے حقوق سے
نابلد۔ امّید تھی کہ آئندہ کئی نسلیں بھی غلامی سے آزاد نہیں ہونے پاتیں،
لیکن بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی اور کمپیوٹر کا اور پھر اُس نسل
کا جو بیرونی ممالک میں پلنے اور بڑھنے کے بعد واپس لوٹ کے آئی اور اپ اپنے
اور بیرونی کلچر کا مؤازنہ کر بیٹھی ہے۔ اسطرح لوگوں کے شعور کی آبیاری غیر
معمولی تیزی سے ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تبدیلی کی عوامی خواہش کو تادیر
روکنا ممکن نہ ہو گا۔ گو کہ ابھی جانبازوں کی تعداد کم ہے لیکن آثار و
قرائین بتا رہے ہیں کے اب یہ تعداد تیزی سے بڑھے گی۔ لہٰذا بیشک عمران اور
طاہر القادری کو کسی طرح دبا بھی لیا جائے تو فی الوقت انکو اپنا قائد
ماننے والے آئندہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں گے جو ریاست کو زیادہ سفاکیت سے
چیلنج کریں چاہے وہ طالبان ہوں یا کوئی اور۔ انکے ساتھ چلنے والوں کی تعداد
بھی اب بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔
اس لئے میرا حکومت کے تمام ستونوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی “خونی
انقلاب“ کے قدموں کی چاپ سُننے سے پہلے گنبد کی آواز سن لیں اور عام آدمی
کی سطح تک انصاف و عدل کے سوتے فوری اور بلا تاخیر پہنچانے کا بندوبست
کرلیں۔ میری ناچیز رائے میں عام آدمی کے اطمینان کا پیمانہ یہ ہے کہ اسے
اپنے علاقے کے تھانے سے انصاف فوری اور بلا تاخیر مل جائے، چاہے ایک ہزار
کا موبائیل ہو یا بارہ لاکھ کی کار عدالت پہنچنے سے پہلے پولیس اسکا مال و
اسباب واپس لا کر دے۔
نواز شریف صاحب اگر آپ سمجھنے کی صلاحیت اور یہ کام کرنے کی اہلیت رکھتے
ہیں تو فبہا، ورنہ بلا تاخیر اپنی سیٹ خالی کردیں اور دوسروں کو موقع دیں۔ |