اسلام آباد میں جاری دھرنے اور چالیس ارب ڈالر......

ان دنوں اسلام آباد میں دھرنوں کا موسم عروج پر ہے۔ چودہ اگست کو اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی روانگی، اسلام آباد آمد، ریڈزون میں داخل ہونے ، پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہونے کی کوششوں سے پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولنے تک طاہر القادری اور عمران خان پر مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ کسی نے ان کے پیچھے غیر ملکی قوتوں کو سرگرم عمل پایا تو کسی کو اس سب کے پیچھے فوج کا ہاتھ دکھائی دیا۔ نامور تجزیہ نگار مرزا یاسین بیگ نے اس ساری صورت حال کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے کھیل کو سمجھانے کے لئے ہمیں کچھ عرصہ قبل کے حالات و واقعات یاد دلائے ہیں۔’’ ہمارا ہمسایہ ملک ’’چین‘‘ ہمارے ریلوے نظام میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین نے شہر کاشغر اور کراچی کے درمیان بین الاقوامی معیار کی ریلوے لائن بچھانے کے لئے تحقیق شروع کر دی ہے۔ مجوزہ اٹھارہ سو کلو میٹر طویل ریلوے لائن گوادر سے شروع ہو کر کراچی اور اسلام آباد سے گزرتی ہوئی چین پہنچے گی۔ چین کو مواصلات کا مرکز بنانے اور چین کی مرکزی اقتصادی پٹی کو ترقی دینے کے لئے چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چین کے منصوبے سنکیانگ کو روس، یورپ اور پاکستان سے ملا دیا جائے۔

ایک اور خبر ملاحظہ ہو ، موجودہ دور حکومت میں چین کی پاکستان میں غیر معمولی سرمایہ کاری دیکھنے میں آ رہی ہے جو در اصل چین کی نئی عالمی حکمت عملی ہے۔ چین آئندہ آٹھ برسوں میں پاکستان میں توانائی، کوئلے، پانی، سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں میں چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ چین کو ایک مضبوط پاکستان کی ضرورت ہے تاکہ اس کی پاکستان کے ساتھ طویل بارڈرمحفوظ رہے۔ یہ واحد بارڈر ہے جہاں پاکستانی فوج پہرہ دیتی ہے اور نہ چینی فوج۔ ان دونوں کی مثالی دوستی کی وجہ سے یہ بارڈر برس ہا برس سے کسی فوجی پہرے اور اس کے اخراجات کے بغیر محفوظ ترین ہے جو اب عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔
چین کے سرکاری خزانے میں اس وقت چار ٹریلین ڈالر موجود ہیں جو امریکہ کو نصیب ہیں نہ برطانیہ کو۔ یہ دونوں ممالک اپنی منفی سوچ کے باعث دنیا کو اپنے کنٹرول میں لینے چلے تھے اور اب اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں جبکہ چین اب اپنے سرکاری خزانے کے پیسے استعمال کر کے اسے بڑھانا اور اس کے ذریعے قریبی دوست اور غریب ممالک کو بھی مضبوط کرنا چاہتا ہے کیو نکہ غربت سے فائدہ اٹھانے والے دنیا میں دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔

چین اپنے عالمی منڈی میں موجود تین سو ساٹھ بلین ڈالر کے ٹیکسٹائل شیئرز کو قائم کرنے کے لئے ایسے ممالک ڈھونڈ رہا ہے جہاں اجرتیں اور پیداواری لاگت کم ہو ۔ ایسے میں اسے پاکستان سب سے زیادہ پسند آیا۔ کیونکہ پاکستان چین کا بہت پرانا دوست بھی ہے اور یہاں اجرتیں بھی کم ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کا ایک فائدہ چین کو یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اکانومی جتنی مضبوط ہو گی، دہشت گردی اتنی ہی کم ہو گی، پاکستان جب اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا تو عالمی طاقتوں کا اس پر کنٹرول کم ہوتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری کے دورے سے لے کر نواز شریف کے ابتدائی ایک سال میں چین نے پاکستانی حکومت سے لاتعداد معاہدات کئے اور پاکستان کا انفراسٹرکچر مضبوط کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ یہ صرف پاکستان کے ساتھ نہیں تھا بلکہ اس میں بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور ویتنام بھی شامل تھے۔ اس طرح جنوبی ایشیاء میں اگلے دس سالوں میں ایک نیا معاشی انقلاب برپا ہو جاتا اور یہی بات امریکہ اور برطانیہ کے لئے ناقابل برداشت بن گئی۔ ان دونوں ممالک کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو ختم نہ کیا جائے بلکہ اسے معاشی طور پر انتہائی کمزور کر کے ملک میں اپنے اشاروں پر چلنے والے دہشتگرد زیادہ سے زیادہ پیدا کئے جائیں اور انہیں پاکستان کے راستے چین میں داخل کیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ اس وقت چین کی مضبوط معیشت سے بہت خوف محسوس کر رہا ہے۔ یہی خوف اسے چند سال قبل ملائیشیا اور انڈونیشیا سے بھی پیدا ہوا تھا اور خطرہ لاحق ہو گیا تھا ایشیاء اکنامک ٹائیگر بننے والا ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کو کس طرح پیچھے دھکیل دیا گیا۔ آج چین کا دوست ہونے کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی پٹی امریکہ اور برطانیہ کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ اور برطانیہ نے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے بیس دنوں سے دھرنے اور انقلاب کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ ان دونوں ممالک کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو اتنا گندا کر دیا جائے ، یہاں امن و امان کی ایسی بری صورت حال پیدا کر دی جائے کہ چین اپنے تمام چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ختم کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ استعفے دیں تاکہ وہ لوگ حکومت میں آئیں جو براہ راست امریکہ و برطانیہ کی زیر نگرانی کام کر سکیں۔ عمران خان، الطاف حسین، چوہدری سرور اور طاہرالقادری کی ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں، آپ خود سمجھ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں تین وزرائے اعلی (شہباز شریف، قائم علی شاہ، عبدالمالک) بھاگم بھاگ چین کے دورے پر نکل پڑے ہیں۔ شاید وہ چین کو سمجھانے گئے ہوں گے کہ ان پر جو افتاد آن پڑی ہے، اس کو سمجھے اور جلدی میں سرمایہ کاری کا فیصلہ واپس نہ لے۔ چین پاکستان کا لاکھ دوست سہی مگر وہ عالمی طاقتوں سے براہ راست جھگڑے مول نہیں لیتا۔ نواز شریف کے ساتھ گیارہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو پاکستان کی اس مشکل کیفیت کو سمجھ کر نواز شریف کا ساتھ دے رہی ہیں۔ دھرنے کا کوئی بھی انجام ہو، دیکھنا یہ ہے کہ چین کب تک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس وقت چین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان تین بڑوں کی لڑائی میں چین کی فتح ہی پاکستان کی فتح ہو گی۔ دعا کریں کہ پاکستان اس بحران سے جلد باعزت نکلنے میں کامیاب ہو جائے اور چین کی سرمایہ کاری کا مشن آگے بڑھے۔ آمین۔ ‘‘

Tajammal Mahmood Janjua
About the Author: Tajammal Mahmood Janjua Read More Articles by Tajammal Mahmood Janjua: 43 Articles with 38730 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.