بس ہونے والا ہے

کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے۔ ہر روز، ہر وقت اور ہر لمحے ایک نئے واقعے کا سامنے ہوتا ہے۔ اک اچھوتی چیز سامنے آتی ہے۔ کچھ ہونی اور کچھ نہ ہونی چیزیں ہمارے اردگرد اک حصار بنائے ہیں۔ ہم بھاگ رہے ہیں۔ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں مگر کس کے پیچھے شاید سایوں کے یا شاید کسی ان دیکھے خوف کے سبب۔ واقعی کچھ سمجھ نہیں آتا۔

ہماری سیاسی جماعتیں بھی خوب دست و گریبان ہیں اور عوام ان کے جھگڑوں کے نتیجے میں اس آس پر ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ گو ہونے والے کا ایک وقت ہوتا ہے مگر تاحال انتظار اور شدید انتظار ہے۔ مگر ان سارے جھگڑوں کے باوجود سیاستدانوں کی عادت نہیں بدل سکتیں۔

آج سے تیس چالیس سال پہلے ایک ڈرامہ دیکھا تھا۔ ہر واقعہ دیکھ کر جانے کیوں مجھے وہ ڈرامہ یاد آنے لگتا ہے۔ مرکزی کردار میاں اور بیوی تھے۔ تھوڑے جھگڑالو اور بہت ہی جذباتی۔ لڑائی تو خیر ان کا روز کا معمول تھا مگر کبھی کبھی حالات بہت زیادہ بگڑ جاتے اور میاں بیوی کی جذباتیت حد سے بڑھ جاتی تھی۔ حتیٰ کہ علیحدگی کا فیصلہ بھی ہو جاتا۔ ایسی صورت میں کئی دن میاں نعرہ لگاتا۔ چلی جاؤ اس گھر سے۔ ہمیشہ کے لئے چلی جاؤ۔ مگر میرا بیٹا تمہارے ساتھ نہیں جائے گا۔ میں نے اس کے لئے ایک گورنس کا انتظام کر لیا ہے۔ وہ اسے پورے دھیان سے رکھے گی اس کا اتنا خیال رکھے گی کہ اسے ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہو گی۔ میں نہیں چاہتا کہ تم جیسے جھگڑالو اور بے وفا عورت کا سایہ بھی اس پر پڑے۔ میں خود اپنے بیٹے
کے تمام معاملات دیکھوں گا۔

خاوند کے اتنے سخت الفاظ سن کر بیوی رونے لگتی ہے کہ تم میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتے ہو۔ تم وحشی ہو۔ تمہیں ماں کے جذبات کا احساس ہی نہیں۔ میں اپنے بیٹے کے بغیر کیسے زندہ رہوں گی۔ وہ زور زور سے روتی ہے۔ خاوند اس کو اس طرح روتا دیکھ کر پھر جذباتی ہو جاتا ہے اور کہتا ہے پلیز چپ ہو جاؤ۔ مجھ سے تمہارا اس طرح رونا نہیں دیکھا جاتا۔

مگر تم میرے بیٹے کو مجھ سے چھین رہے ہو تو میں رونے کے علاوہ کیا کر سکتی ہوں۔ بیوی کہتی ہے۔
اچھا ٹھیک ہے۔ تم وعدہ کرو کہ مجھ سے نہیں لڑو گی اور ہم دونوں اپنے بیٹے کے ساتھ ہی رہیں گے۔ بس دونوں خوش ہو جاتے ہیں اور اتنے ہنگام کے بعد ایک دم گھر میں سکون ہو جاتا ہے۔ اس وقت کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے کتنے گھمسان کا رن جاری و ساری تھا۔

دو چار دن ٹھیک گزرتے ہیں۔ ہلکی پھلکی جھڑپوں پر میاں بیوی گزارہ کرتے ہیں۔ مگر کب تک۔ پھر کسی دن زبردست لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ لڑائی کے دوران عین عروج کے وقت بیوی نعرہ لگاتی ہے میں جا رہی ہوں۔ ہمیشہ کے لئے تمہیں چھوڑ کر اور بیٹے کو ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔ میرے بھائیوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی تربیت میں کوئی کمی نہیں آنے دیں گے۔ اس کے باپ سے زیادہ اس کا خیال رکھیں گے۔ پیار کریں گے۔ بہترین سکول میں داخل کرائیں گے اور اسے ایک بڑا آدمی بنانے کے لئے پوری محنت کریں گے۔ میں اور میرا بیٹا تم جیسے شخص کے ساتھ وقت گزار کر اپنا مستقبل برباد نہیں کر سکتے اس لئے میں جا رہی ہوں۔ بھائیوں کو اطلاع دینے کی دیر ہے۔ دیکھو وہ کیسے آتے ہیں۔

مگر وہ بیٹے کو کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ خاوند گھبرا کر کہتا ہے۔ وہ تین ہیں اور پھر بیٹے کی ماں بھی ساتھ ہے۔ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میں اور میرا بیٹا جا رہے ہیں۔ خدا حافظ۔

خاوند چلاتا ہے۔ مجھے میرے بیٹے سے جدا مت کرو۔ روتا اور چیختا ہے بیوی سہم کر اسے کہتی ہے پلیز اس طرح مت چیخو میرا دل گھبراتا ہے۔

تم بھی نہ جاؤ۔ مجھے میرے بیٹے سے جدا نہ کرو۔ میں آئندہ نہیں لڑوں گا۔ دونوں خوش ہو جاتے اور صلح کے بعد پھر اسی طرح ہنسنے کھیلنے لگتے ہیں۔ یہ ان کا معمول تھا۔ ہمسائے ہمسائے روز شور سنتے اور پھر صلح ہوتے دیکھتے۔ ایک دن ہمسائے نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ روز لڑتے ہیں اور ان کا بیٹا ان کی صلح کرا دیتا ہے مگر بیٹا کبھی نظر نہیں آیا۔ ہمسائی ہنسی اور بولی ابھی بیٹا ہے ہی نہیں۔ جلد ہونے والا ہے۔

ہماری سیاسی جماعتیں بھی خوب دست و گریبان ہیں اور عوام ان کے جھگڑوں کے نتیجے میں اس آس پر ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ گو ہونے والے کا ایک وقت ہوتا ہے مگر تاحال انتظار اور شدید انتظار ہے۔ مگر ان سارے جھگڑوں کے باوجود سیاستدانوں کی عادت نہیں بدل سکتیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500383 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More