فلک بوس چوٹیوں،گُل پوش وادیوں،بَل کھاتی ندیوں،گُنگناتے
جھرنوں،دھرتی کو سیراب کرتے دریاؤں، سونااُگلتے کھیتوں کھلیانوں
اوردُنیاجہان کی نعمتوں سے مالامال رَبّ ِ لازوال کی عطاکردہ اِس دھرتی
کوجانے کِس کی نظرکھاگئی کہ جب سے یہ معرضِ وجودمیں آئی ہے یہاں صرف سازشیں
ہی اُگتی اورپھلتی پھولتی رہتی ہیں۔مورخ توجولکھے گاسچ ہی لکھے گالیکن لکھے
گاکیا؟۔کیایہ کہ ہم نے بانیٔ پاکستان کودمِ واپسیں اُس ایمبولینس میں ڈال
دیا جوراستے میں ہی خراب ہوگئی یا یہ کہ قائدِ ملت کوسرِعام خون میں
نہلادیا گیالیکن ہم اُن کے قاتلوں کاسراغ تک نہ لگاسکے؟۔کیا یہ لکھے گاکہ
ہم نے ایک وزیرِ اعظم کوسُولی پہ لٹکادیااوراُسی کی وزیرِاعظم بیٹی کوبے
جرم وخطاشہیدکردیا؟۔کیایہ لکھے گاکہ ہم نے ایک دوتہائی اکثریت کے حامل
وزیرِاعظم کواُس کے خاندان سمیت جَلاوطن کردیایاپھریہ کہ اُسی منتخب
وزیرِاعظم کواپنے باپ کولحد میں اتارنے کی اجازت بھی نہ دی ؟۔کیایہ لکھے
گاکہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کودوٹکڑے کردیااوربچے کھچے پاکستان کے
ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں؟۔کیایہ لکھے گاکہ ہم نے تین عشروں سے زائدمارشل
لاؤں کوپالاپوسااورآمروں کودَس باروردی میں منتخب کروانے کے دعویداروں
کواپنامسلمہ لیڈرمانا؟۔کوئی بتلائے توسہی کہ آخرمورخ ایساکیالکھے گاکہ جس
پہ آنے والی نسلیں فخرسے سَراُٹھاکرکہہ سکیں کہ ہمارے اسلاف نے ہمیں
یہ’’تحفۂ زریں‘‘ دیاہے؟۔میں توجب بھی تاریخِ پاکستان کے اوراق پلٹتی ہوں
توبے ساختہ لبوں پہ آجاتاہے
شہرِ دِل ایک مدت اُجڑابساغموں میں
آخراُجاڑدینااِس کا قرار پایا
اسلام آبادکی شاہراہِ دستورپرجوکچھ ہورہاہے وہ تماشہ ہے نہ ڈرامہ۔وہاں
تو’’نئے پاکستان‘‘کی بنیادرکھی جارہی ہے،ایساپاکستان جس میں دستورکی کوئی
گنجائش ہوگی نہ قانون کی۔آئین ہوگاتوبس ایک کہ ’’جِس کی لاٹھی،اُس کی
بھینس‘‘۔ایساپاکستان کہ جس میں وزیرِاعظم کے خطاب سے پہلے’’ناچ گانے‘‘کی
محفلیں سجائی جائیں گی۔ایساپاکستان جس میں رہنماحصولِ مقصدکے لیے اپنے بچوں
کوانگلینڈ،دبئی اورکینیڈاجیسے محفوظ مقامات پرروانہ کرکے قوم کے معصوم بچوں
کے خون سے ہولی کھیلیں گے۔ایساپاکستان جس میں رہنما سرِعام گندی زبان
استعمال کریں گے۔جس میں’’قلم‘‘کوجنسِ بازارسمجھ کربولی لگائی جائے گی
اورہرشخص کی ایک قیمت مقررہوگی۔ایساپاکستان جِس میں انانیت اپنی انتہاؤں
کوپہنچ کرفرعونیت میں ڈھل جائے گی۔مجھے توایساہی نیاپاکستان نظرآرہاہے کسی
اورکوشایدکوئی دوسراہی جہان نظرآتاہو۔کپتان صاحب پارلیمنٹ کے جنگلے
توڑکربڑے فخرسے کہتے ہیں کہ نیاپاکستان بن رہاہے۔پی ٹی وی کی عمارت
پردھاوابول کراُس پر قبضہ کیاجاتاہے اورظاہرایسے کیاجاتاہے کہ جیسے دِلی کے
لال قلعے پرسبز ہلالی پرچم لہرادیاگیاہو۔کپتان صاحب اورقادری صاحب کے لیے
اپنے دلوں میں اُلفتوں،محبتوں اورعقیدتوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر رکھنے
والوں سے دست بستہ سوال ہے کہ کیادس بارہ یا پندرہ بیس ہزارافرادپرمشتمل
شَرپسندوں کوحکومت چیونٹی کی طرح مَسل دینے کی طاقت نہیں رکھتی؟۔کیااِن
شَرپسندوں کے رہنماؤں کاکوئی ایک مطالبہ بھی آئینی ہے؟۔کیاجمہوری ملکوں میں
اپنے مطالبات منوانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے؟۔ کیا پاکستان
میں جنگل کاقانون ہے؟۔کیاآئین کوجلاکر قانون کی حاکمیت سے دست
بردارہوجاناچاہیے؟۔اگراِن سبھی سوالوں کاجواب نفی میں ہے توپھرکپتان صاحب
اورقادری صاحب کا کونسا مطالبہ ایساہے جواِس معیارپرپورااُترتاہے ؟۔سبھی
کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم کے استعفے کامطالبہ غیرآئینی نہیں۔بجا،بالکل بجالیکن
وزیرِاعظم کوگھر بھیجنے کاطریقِ کار بھی آئین ہی میں درج ہے۔کیا آئین میں
کہیں لکھا ہے کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں گھُس کر زبردستی حکومت پر قبضہ
کرلیاجائے؟۔اگر الیکشن میں دھاندلی کی شکایت ہے تواِس شکایت کے ازالے کے
لیے عدالتیں موجودہیں لیکن خاں صاحب اورقادری صاحب تواپنی اپنی عدالتیں
سجائے بیٹھے ہیں جہاں مدعی بھی وہ خودہیں اور منصف بھی خود۔
خاں صاحب کہتے ہیں’’جولوگ مجھے بچپن سے جانتے ہیں،اُنہیں پتہ ہے کہ میں کسی
سے کنٹرول نہیں ہوتا اوراپنی مرضی کرتاہوں‘‘۔شکرہے کہ خاں صاحب کے مُنہ سے
ایک سچ بھی نکل گیاورنہ ہم تو یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ خاں صاحب کو سچ بولنے
کی عادت ہی نہیں۔یہی گلہ جاویدہاشمی صاحب کوبھی ہے۔ پورا پاکستان جانتاہے
کہ جاویدہاشمی نڈر،بے خوف اوربے باک انسان ہے۔ہم توجاویدہاشمی کواُس وقت سے
جانتے ہیں جب وہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کاصدرتھااوراپنے پرائے سبھی
کہتے تھے کہ وہ بیوقوفی کی حدتک بہادراورسچاانسان ہے۔اُس کی عشروں پرمحیط
سیاسی جدوجہدنے بھی یہ ثابت کیاکہ وہ بِکتاہے نہ جھکتا۔اُس نے پارلیمنٹ
ہاؤس کے گیٹ کے سامنے کلمہ طیبہ کی چھاؤں میں کپتان صاحب کے بارے میں دہلا
دینے والے انکشافات کیے۔ہاشمی صاحب نے کہا’’عمران خاں نے کہاکہ وہ فوج کے
بغیرنہیں چل سکتے۔’’بیج والے‘‘کہتے ہیں طاہر القادری کے ساتھ چلو۔سپریم
کورٹ کا چیف جسٹس ہماری مرضی کاآرہاہے۔سپریم کورٹ کے نئے چئف جسٹس اورججز
سے معاملات طے پاگئے ہیں،ہماری درخواست پروہ نوازشریف اورشہبازشریف
کوہٹادیں گے۔یہ طے ہوچکاہے کہ ستمبر2014ء میں انتخابات ہونگے‘‘۔ہاشمی صاحب
نے یہ بھی کہا’’ عمران خاں کسی منصوبہ بندی کے تحت اسلام آبادآئے ہیں مگریہ
پتہ نہیں کہ یہ کس کامنصوبہ ہے اورسکرپٹ کہاں لکھاگیا‘‘۔اب بھی الیکٹرانک
میڈیاپرہاشمی کے انہی انکشافات کاشورمچاہواہے اوراِن ٹاک شوزمیں جو قدرِ
مشترک نظرآتی ہے وہ یہی ہے کہ سیاستدانوں،تجزیہ نگاروں کی غالب اکثریت کے
مطابق جاویدہاشمی کے الزامات رد نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ایک تووہ تحریکِ
انصاف کاصدرہے اوردوسرے اُس کا کبھی کوئی جھوٹ سامنے نہیں آیا۔ہمارے نزدیک
فوج اورعدلیہ دونوں ہی انتہائی محترم ادارے ہیں۔جب سے پاکستان بناہے افواجِ
پاکستان قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتی چلی آرہی ہیں اورسابق چیف
جسٹس افتخارمحمدچودھری کی بحالی کے بعداُبھرکرسامنے آنے والی اعلیٰ عدلیہ
کی تحسین بھی پوری دنیامیں ہورہی ہے لیکن محض حصولِ اقتدارکی خاطرکپتان
صاحب متواترجھوٹ بول کراپنے ساتھیوں کوگمراہ اوراِن دوانتہائی محترم اداروں
کوبدنام کرتے رہے۔انتہائی محترم چیف جسٹس آف پاکستان ناصرالملک نے تحریکِ
انصاف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کی تردیدکرتے ہوئے فرمایاکہ وہ عمران
خاں سے زندگی میں صرف ایک دفعہ اُس وقت ملے جب وہ قائم مقام چیف الیکشن
کمشنرتھے۔آئی ایس پی آرنے بھی اِن الزامات کی سختی سے تردیدکردی ہے۔اب قوم
خود فیصلہ کر لے کہ سچا کون اورجھوٹاکون ؟۔بہرحال باغی نے ایک دفعہ
پھربغاوت کرکے اُن ’’سرگوشیوں‘‘کو زبان عطاکردی ہے جوکافی عرصے سے سنائی دے
رہی تھیں۔اگریہ سب سچ ہے توہم باغی کی عظمتوں کوسلام کرتے ہوئے کپتان صاحب
سے کہتے ہیں
اتنانہ اپنی جائے سے باہرنکل کے چل
دُنیاہے چل چلاؤ کارستہ ،سنبھل کے چل |