30اگست کو رات دس بجے کے بعد سہانے خواب بیچ کر غریبوں کو
جس قدر رسوا کیاگیا اسکی مثال تاریخ پاکستان میں دی جائیگی۔شیلنگ اورپتھراؤ
دیکھ کربھائی اے ۔ایم ۔ملک کو میسج کیاکہ ’’یہ کیاہے‘کیاہم پھردھوکے میں
ہیں‘‘۔انہوں نے تو جواب نہ دیاالبتہ حالات نے ضروردے دیا۔آنکھیں نم تھیں
اورراقم رات کے 2بجے فیس بک پر یہ اپ ڈیٹ کررہاتھا:
مذاکرات کا طریقہ کار
خوشبؤں کی زبان اپناکر گل کے لہجے میں گفتگوکی جائے
کسی ذمہ دارشخصیت نے زچ آکر ٹی وی پر کہہ دیاکہ’’ اب مذاکرات نہیں ہونگے
اور شاید بات اب مذاکرات سے نہ بنے ‘‘تو راقم نے فیس بک پر یہ اپ ڈیٹ
دی:مفہوم
میدان کربلامیں چھ ماہ کے سیدناعلی اصغر سیمت جب 371اہل بیت واصحاب شہید
ہوچکے تو اسوقت بھی میرے امام عالی مقام سیدناحسین ؑ نے یزیدیوں کو جہنم کی
آگ سے بچانے کیلئے پیغام امن دیا‘‘۔یعنی اسوہ آقاجیﷺ پر میرے حسینؑ کاعمل
ہماری لیئے مشعل راہ ہے اگرہم عمل کریں۔مذاکرات ‘مذاکرات اورصرف مذاکرات‘
اپنی ذات سے بالاترہوکر۔مہلت کم ہے بہت کم اگراب بھی سیاستدان مسئلہ کا حل
اپنی انامیں تلاش کرتے رہے توپھراپنی اپنی جمہوریت کہ بارے کہتے پھریں گے
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘جوسنا‘افسانہ تھا
میڈیا سب کاسانجھاہوتاہے۔مگرنجانے کیوں مارچ اوروردی والے میڈیاپربھی برس
پڑے ۔وجہ گوہرملسیانی کے اشعارمیں ملاحظہ کیجئے
ایک قدغن لگی ہے اظہارپر وقت بھاری ہے بہت سنسارپر
آگئی پھرچھیڑنے اس کو ہوا جب رکھاہم نے دیادیوارپر
ارض وطن میں تبدیلیوں کے کئی زمانے اوروعدے جن کے چہرے کی جھریوں پر نقش
ہیں ایسے ہی عمررسیدہ جوانوں سے رائے لی تو بہت ساروں کا جواب تھا
نسل درنسل انتظاررہا قفل ٹوٹے نہ بے نوائی گئی
کچھ ایسے بھی ملے
موسم گل ہوکہ پت جھڑہوبلاسے اپنی ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے
میں
آخرالذکرکاخیال اس بات کی بھی وضاحت کرتاہے کہ ’’عوامی امنگیں‘‘ آئین
‘قانون اوراخلاقی دائرہ سے نکلنے والوں کے خیالات اوراعمالات سے بیزارہیں۔
ارض وطن میں اب بھی اکادکا ایسے لوگ ہیں جو اس نازک موقع پر اپنی پیشہ
وارانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کرکسی ایک پلڑے میں اپنامکمل اورعوام
کاخیالی وزن ڈالے بیٹھے ہیں اورایسے سرکاری نوکربھی ہیں جو وقت و حالات
کاڈھونگ نچاکرقانون کو پامال کررہے ہیں۔بقول شاعر
جو لوگ اپنے لفظ وصدابیچتے رہے انسانیت کی رنگین قبابیچتے رہے
ہرموڑپر ہرایک نئے راہزن کے ہاتھ اس کارواں کو راہ نمابیچتے رہے
اطہر!بفیض مصلحت عصر ‘باغباں خود گلستاں کی ہوابیچتے رہے
پی ٹی وی اورریاستی اداروں پر حملہ ہرحال میں قابل مذمت ہے اورریاست سے
بغاوت ہے اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی
اگرآئین کی خلاف ورزی ہے تو ہم بھی اسکے مخالف ہیں۔اگرکسی کے پاس ڈنڈے ہوں
توانکے عزائم پر شبہ کیاجاسکتاہے اورانہیں روکنایانہتاکرآگے جانے دینابھی
سمجھ میں آتاہے لیکن 17جون کی 75روز بعد کٹنے والی ایف آئی آر اورگزشتہ روز
بیس گھنٹوں میں کٹنے والی تازہ ایف آئی آر پر دل کہہ اُٹھتاہے
آدمی وہ بھی آدمی ہم بھی آدمی آدمی میں اتنافرق
ایک محترم نے فرمایاکہ ہمیں 45دن پہلے پتہ تھاکہ دونوں دھرنے اکھٹے ہونگے
اور دنگاہوگا۔تو جان کی امان پاکرعرض ہے جناب عالی اس معلومات کے بعد تو آپ
کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں ناں۔۔۔۔۔
رہ گئی بات خان صاحب کی تو ان کا برملااعلان کہ جاوید ہاشمی اب تمہارے
اورمیرے راستے جداہیں اس بات کی غمازی کرتاہے کہ جمہوریت کی تعریف ہرکوئی
اپنی مرضی کے مطابق کرتاہے۔میرے پاس نہ چڑیاہے اورنہ طلسمی قوت کہ مخدوم کے
مکمل بیان کی تائید کروں البتہ انکے اختلاف رائے کی جرات کو ضرورسراہتاہوں۔
آخرمیں میری رائے یہی ہے کہ چھ سالہ کلچرکی روایت کودیکھتے ہوئے ریاست
کومظاہرین کیلئے ہائیڈپارک بناناچاہیئے ۔ حالات بتارہے ہیں کہ کچھ جماعتوں
کے پاس اب واویلاکرناہی باقی رہ جائے گا۔خدانہ کرے ایساہو۔اے اﷲ میرے ملک
کو سلامت رکھ(آمین)۔ |