پاکستان میں جمہوریت پر حملہ
(Syed Mansoor Agha, India)
راجناتھ سنگھ کا اعتراف، لوو
جہادکی نئی تشریح، اور اب’ آئل جہاد‘، اسرارجامعی کا پوسٹ مارٹم
اسلام آباد میں عمران خان اورڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں چند سو افراد
نے کئی روز سے جو شورش برپا کر رکھی ہے اس کا کل کیا نتیجہ نکلے گا، یہ تو
کہا نہیں جا سکتا البتہ اتنا ضرور ہے جمہوری نظام میں دھرنوں ، مظاہروں اور
مطالبوں کی آزادی سے فائدہ اٹھاکر جو یہ تحریک چلائی جارہی ہے، اس کا مزاج
اور طریقہ کارقطعی غیر جمہوری ہیں۔ 30؍اگست کی رات تحریک کے کارکنوں کا بے
قابو ہوجانا اور دہشت گر حملہ آدروں کی طرح سرکاری تنصیبات میں گھس کر ان
کو نقصان پہچانا ظاہر کرتا ہے کہ محرکین کی منشاء عوام تک اپنی بات پہنچانا
نہیں بلکہ کسی دیگر مقصد سے بحران کو شدید کرنا ہے۔ ان پرتشدد واقعات کا
ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پی ٹی وی مرکز فوج کی نگرانی میں چلاگیا اور
دیگر تنصیبات پر بھی، جن میں اسمبلی ہاؤس اور مرکزی حکومت کی سیکریٹرئٹ
شامل ہیں، فوج تعینات کردی گئی ہے۔ گویا اس تحریک نے سول نظام میں فوج کے
دخیل ہونے کا راستہ کھول دیا ۔ فوج اس قضیہ میں براہ راست رول ادا کررہی ہے
اور خبریں یہ ہیں فوجی حکام حسب سابق ملکی نظام میں دخیل ہونے کے خواستگار
ہیں۔ ظاہر ہے یہ صورت معیاری جمہوری نظام سے میل نہیں کھاتی۔ جمہوری حکومت
عوام کو جوابدہ ہوتی ہے، جب کہ فوجی حکومت کسی کو جوابدہ نہیں ہوتی ۔ ہرچند
کہ سردست فوج راست مداخلت سے گریز کرے گی کیونکہ عوام کی اکثریت اس کے حق
میں نہیں۔ لیکن شورش زور پکڑتی ہے، تو صورتحال بدل سکتی ہے۔ سینٹ اور قومی
اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اس شورش کو جمہوری نظام سے ’ بغاوت‘ قراردیتے
ہوئے خان اورقادری کو سخت انتباہ دیا ہے اور نوازشریف کے استعفے کے مطالبے
کو متفقہ طور سے مسترد کرکے سرکار کی پشت پناہی کی ہے ۔
اس کے باوجود صاف ظاہر ہے کہ اس محاذ آرائی سے جمہوری ادارے کمزور ہوئے ہیں
، جمہوریت کے تن لاغر میں ہر دم ایک نیا زہرآلود تیر پیوست ہورہا ہے اور
قوم میں خلفشار کی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔ جمہوری الیکشن کے ذریعہ بھاری
اکثریت سے منتخب حکومت سے چند سو یا چندہزار افراد کا استعفے کا مطالبہ اور
اس کے لئے پرتشدد احتجاج ہرگز جائز نہیں ہوسکتا۔ عمران خان کاالزام ہے کہ
سترہ ماہ قبل جن انتخابات کی بدولت یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی ان میں
دھاندلی ہوئی تھی۔ یہ الزام اس لئے بودا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج کو ان
کی پارٹی اور وہ خود تسلیم کرچکے ہیں۔ اسی چناؤ میں چنے گئے ان کی پارٹی
ممبران قومی اسمبلی کا حصہ ہیں جس نے نوازشریف کو وزیراعظم چنا تھا اور
جواس وقت ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ اگر دھاندلی ہوئی ہے اوراس کا ان کے پاس
کوئی ثبوت ہے تو قانونی چارہ جوئی کا راستہ کھلا ہے جس کی بدولت کئی ممبران
کا چناؤ رد ہوچکا ہے۔
اس تحریک میں شریک ڈاکٹرطاہرالقادری پاکستان کے کل وقتی سیاستداں نہیں بلکہ
موسمی سیاستداں ہیں۔ اس موقع پرانکا کنیڈا سے آنا اور سرکار مخالف تحریک
میں کود پڑنا، اس شک کو تقویت پہنچاتا ہے کہ اس کے پس پشت کوئی بڑی سازش
کام کرہی ہے اور یہ دونوں اس کا مہرہ بن گئے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کہ
پوراعالم اسلام مختلف طرح کے بحرانوں کی زد میں ، ان دونوں نے پاکستان میں
یہ نئی شورش برپا کرکے عالمی میڈیا میں اس بحث کو پھر زندہ کردیا ہے کہ
کیاپاکستان میں نیوکلیائی اسلحہ کا ذ خیرہ محفوظ ہے؟ حامد میر نے بھی اپنے
یکم ستمبر کے کالم ’کوہ نورـکو بچائیے‘ میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ
امریکا نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے واقعات پر نظررکھے ہوئے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا راست مداخلت کے لئے موقع کا منتظر ہے۔ اگر شورش
بڑھتی ہے تونیوکلیائی تنصیبات کی ’حفاظت‘ کے نام پر امریکا کی مداخلت خارج
از امکان نہیں۔ لیکن کیا کوتاہ اندیش سیاست داں اس اندیشہ پر غور کریں گے؟
ہرچند کہ ہمیں پاکستان کی نیوکلیائی تنصیبات سے کوئی دلچسپی نہیں، لیکن
پاکستان میں عدم استحکام اورکسی بھی عنوان سے بیرونی مداخلت تو ہندستان بھی
نہیں چاہے گا۔خان قادری کی اس تحریک سے دراصل ان انتہا پسند عناصر کے ہی
حوصلے بلند ہونگے اور ان کے لئے فضا سازگار ہوگی جنہوں نے دہشت گرد حملوں
کو کاروبار بنارکھا ہے۔
عمران خان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ جس نظام کو کمزور کررہے ہیں ، خود بھی
اسی کی بادشاہت کے خواستگار ہیں ۔ جمہوری نظام کی جڑیں کھود کر عمران خان
قوم کے وسیع تر مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔اگروہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے
ہیں تو اسکے لئے شارٹ کٹ نہیں ہے۔ان کے پاس ساڑھے تین سال کا موقع ہے ،
عوام میں مقبولیت بڑھائیں اور آئندہ الیکشن کا انتظار کریں۔
ہرچند کہ قادری صاحب حسب سابق کچھ معاملہ کر کے واپس کناڈا چلے جائیں گے،
لیکن اس تحریک میں ان کا طرزعمل بہرحال افسوسناک ہے۔ سیاست سے ان کی دلچسپی
قدیم ہے، وہ ایک بار قومی اسمبلی کی رکن چنے جاچکے ہیں۔ وہ جدید تعلیم
یافتہ ہیں اورقانون میں پی ایچ ڈی ہیں۔ مگر عوام میں ان کے اثرورسوخ ان کی
وہ تقاریر کی وجہ سے ہے جو وہ علم تصوف اور صوفیائے کرام کی خدمات اور عظمت
کردار کے موضوعات پر بڑے والہانہ انداز سے کرتے ہیں۔ ان کے مزاج کی تندی
اور تلخ کلامی جو اس تحریک میں نظرآئی، ظاہر کرتی ہیں صوفیائے کرام کی
تعلیمات جن کی تعبیرو تشریح ان کی زبان پر رواں رہتی ہے ، ان کے کردار کا
حصہ نہیں بن سکی ہیں۔ یہ بات ہم جیسے لوگوں کے لئے بڑا صدمہ ہے جو ان میں
تاریخ کے اس سنہرے باب کا پرتو دیکھنے کے مشتاق تھے جو ہمارے عظیم المرتبت
صوفیائے کرام کے کرداروں سے آراستہ تھا۔ انا اﷲ وانا الیہ راجعون۔
راجناتھ سنگھ کا اعتراف
وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اب خود اعتراف کرلیا ہے کہ سنسد سے سڑکوں تک اور
میڈیا میں یہ خبر ان کے صاحبزادے پنکج سنگھ کے بارے میں ہی پھیلی تھی کہ
تبادلوں کے کھیل میں ان کے کردار کے لئے وزیراعظم نے گھر بلاکر ان کی سرزنش
کی تھی۔ میڈیا کے سامنے راجناتھ سنگھ نے خودیہ اعتراف بھی کیا کہ یہ خبر
کوئی تین ہفتہ سے گردش میں تھی اوراس کو وہ اس خیال سے نظرانداز کررہے تھے
کہ خود دب جائیگی۔ مگر جب نہیں دبی تو اس کی شکایت خود انہوں نے وزیراعظم
اور پارٹی صدر سے کی اور دونوں نے اس پر’ حیرت کا اظہار‘ کیا۔ ہمیں اس
’حیرت کے اظہار‘ پر حیرت ہے ۔ کیا کوئی یقین کرسکتا ہے وزیراعظم اور پارٹی
صدر تین ہفتہ سے گردش میں رہنتے والی اتنی گرم خبر سے بے خبر رہ سکتے ہیں
حالانکہ ان کو اپنے وزیروں کی پل پل کی خبر رہتی ہے۔ مثلا ان کو یہ تک
معلوم رہتا ہے ان کا ایک وزیرجینس پہن کر بیرونی دورے پر جانے کے لئے
ایرپورٹ پہنچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فون پر ہدایت دی کہ کرتا پائچامہ پہن
لو۔ ایک دوسرے وزیر کواس وقت فون ملا، جب وہ کسی بڑے صنعتکار کے ساتھ پانچ
ستارہ ہوٹل میں کھانا کھارہاے تھے اور کھانا چھوڑ کر اٹھ جانا پڑا۔ ایک
تیسرے وزیرصاحب کی سرزنش اس وقت ہوئی جب وہ بغیرپی ایم او کو مطلع کئے
ہوائی جہاز سے اپنی ریاست جارہے تھے ۔چنانچہ فوراً وہ دہلی لوٹ آئے۔
وزیراعظم تو اس پر بھی نظررکھتے ہیں کونسا وزیر کس وقت آفس پہچا۔ بہرحال
راجناتھ سنگھ کے اس اعتراف کے بعد پی ایم اوہاؤس اور پارٹی صدر کی جانب سے
جو بیانات جاری ہوئے ، اس سے یہ تو ثابت ہوہی گیاکہ برسراقتدار پارٹی کے
لیڈران باہمی اعتماد کے بحران کا شکار ہیں ۔
لوو جہاد کی نئی تشریح
ہمارے ایک غیرمسلم دوست نے’ لوو جہاد‘ کی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
جس نے کبھی کسی سے’ لوو‘ نہ کیا ہو وہ کیا جانے کہ’ لوو‘ کرنا کتنا بڑاجہاد
ہے۔یہ جو لڑکے لڑکیاں جان پر کھیل کر اپنے گھرخاندان والوں کی مخالفت کے
باوجود شادی کرلیتے ہیں، کیا کسی جہاد سے کم ہے۔’لوو‘ چاہے اپنی ذات میں ہو
یا کسی غیر ذات والی؍والے سے ہو، اس کو نباہنا بھی تو بڑا کٹھن جہاد ہے۔جب
انسان دوسرے کی فکررکھتا ہے تب لوو ہوتا ہے ۔اسی کا نام جہاد ہے۔ ان کی اس
دلیل میں بہرحال کچھ وزن ضرور ہے۔
اوراب ’آئل جہاد‘
سوشل میڈیا پر ہندتووا کے علم برداروں کوتلقین کی گئی ہے وہ پٹرول اورڈیزل
استعمال نہ کریں کیوں تیل کا سارا پیسہ خلیجی ملکوں میں جاتا ہے ، وہیں سے
بقول ان کے ’لوو جہاد‘ کے لئے فنڈآتا ہے۔ مشورہ دیا گیا ہے قدیم سنسکرتی کے
مطابق ان کو پیدل ، بیل گاڑی یا گھوڑے پر سفرکریں اور ’آیل جہاد‘ میں شریک
ہوں۔
اسرار جامعی کا پوسٹ مارٹم
پوسٹ مارٹم کا مرحلہ ہمیشہً غیرفطری موت کے بعد آتا ہے مگر اسرارجامعی کا
پوسٹ مارٹم ان کی ہی طرح روایت شکن ہے۔ عرف عام میں پوسٹ مارٹم تازیانہ غم
ہوتا ہے مگر اسرارجامعی کا پوسٹ مارٹم جب بھی آتا ہے نوید فرحت لاتا ہے۔
چشم اشک بار نہیں ہوتی بلکہ طبیعت گل گلزار ہوجاتی ہے۔ صرف گدگدی ہی نہیں
ہوتی ثقل وسماعت و بصارت کے باوجود ان کی دانائی اور بینائی پر رشک ہونے
لگتا ہے کہ اندھیرنگری میں بھی ان کو کتنے دور کی سوجھتی ہے ۔سابق میں کبھی
ہاتھ سے لکھے ہوئے پوسٹ کارڈ کی شکل میں آتا تھا، کبھی فوٹو اسٹیٹ کاغذکے
پرزے کی صورت میں ۔ اس بار سولہ صفحہ کا کتابچہ آیا ہے جس کا سرنامہ ’منّی
اخبار-پوسٹ مارٹم ‘درج ہے ۔دعوا ہے کہ اب ہرماہ آیا کریگا۔ نہ آیا تو ’مودی
افیکٹ‘ کہلائیگا۔ مندرجات سے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
جامعہ کا ڈاک خانہ تھا کبھی
ڈاک خانہ اب نہیں اس نام کا
ہاں جہاں پر اوکھلا چوگی تھی ایک
جامعہ کے نام پر تھانہ بنا
(۲)
ہم جھانک بھی لیتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ جھونک بھی دیتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
(۳)
جس دیش میں گنگا بہتی ہے
اس دیش میں پانی بکتا ہے
طنز ومزاح کے اس گلدستہ کی قیمت ہے ’پانچ سو پیسہ‘۔ پیسہ کیونکہ سرکاری طور
پر بند ہوگیا ہے اس لئے قدردانوں کو مفت تقسیم ہوتا ہے۔ ملنے کا پتہ :’چلتا
پھرتا تھیلا‘۔جہاں اسرار جامعی، وہیں ’پوسٹ مارٹم‘ ۔ |
|