پورے ملک میں مئی سے شروع ہونے
والی سیاسی بےچینی اگست میں اسلام آباد میں دودھرنوں کے ریڈ زون میں داخل
ہونے کے بعد اپنی انتہا کو پہنچ گی۔ان دھرنوں نے سیاسی اورسماجی ماحول میں
توطوفانی ہلچل مچا ہی دی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کوبہت زیادہ
نقصان ہوا ہے۔ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران دھرنا دینے والوں اور حکومت کی طرف
سے جسطرح کے بیانات آرہے وہ عام لوگوں کو مایوسی طرف لےجارہے ہیں۔ اسلام
آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں نے ملک کی
معیشت کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی حکومت نے
ایک جواب داخل کیا ہے جس میں دھرنوں کے حوالے سے ملک کو پہنچنے والے نقصان
کی تفصیلات جمع کرائی ہیں۔ حکومتی جواب کے مطابق "پاکستان تحریک انصاف اور
پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں احتجاج اور سول نافرمانی کے اعلانات سے
ریاست کو اب تک 547ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر13.9سے
کم ہوکر 13.5ارب ڈالر رہ گئے۔ اسٹاک مارکیٹس میں مندی کے رجحان کے باعث
319ارب روپے کا نقصان ہوا۔جواب میں مزید بتایا گیا ہے کہ قانون کے نفاذ پر
اب تک 357ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں اور 130ملین روپے مزید مانگے گئے ہیں
جبکہ سی ڈی اے کے تخمینہ کے مطابق اسلام آباد کی املاک کو اب تک پانچ ملین
روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ پی ٹی وی پر حملے کے دوران بڑے پیمانے پر آلات کو
نقصان پہنچایا گیا جس کا تخمینہ لگایا جارہا ہے"۔ مظاہروں کے باعث اسلام
آباد کے تاجروں کا بھی 10 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ روپے کے قدر میں
کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے ذمہ واجب ادا قرضوں
میں 180 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ مندی کے باعث چھوٹے کاروبار کرنے والے
تاجربھی ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔
عمران خان کی سول نافرمانی کی اپیل کو زندگی کے تمام شعبوں نے مسترد کردیا
ہے۔ تاجروں اور صنعتکاروں نے سول نافرمانی، ہُنڈی اور حوالہ کے ذریعے رقم
کی ترسیل کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے عمران خان کے بیانات کو غیر سنجیدہ
اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ فیڈریشن چیمبر آف کامرس کے
صدر ذکریا عثمان اور سارک چیمبر آف کامرس کے افتخار علی ملک مارچ اور
دھرنوں کو معیشت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اقتصادی امور پر گہری نظر
رکھنے والے تجزیہ کار اشرف خان کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں دیے گئے
دھرنوں نے ملک کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں: ’’اس بحران کے
بعد ملکی کرنسی کی قدر چار فیصد سے زیادہ گِر چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم
ہوئے اور پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کےوفود نے پاکستان آنے سے انکار
کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر معاشیات آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے حوالے سےفکر
مند ہیں۔‘‘ تجزیہ کار اشرف خان کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں جہاں سرمایہ
کار یہاں آنے سے گریزاں ہیں وہیں تاجر سرمایہ منتقل کرنے پر غور کرہے ہیں۔
جو کہ ملکی معیشت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ایک اور اقتصادی تجزیہ کار محمد
سہیل کے مطابق حکومت پاکستان نے 500 ملین سے ایک بلین تک کے سکوک بانڈز
جاری کیے تھے جو اب تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر
آئی ایم ایف کے 500 ملین ڈالر کی قسط تاخیر کا شکار ہوئی تو مشکلات مزید
بڑھ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت خطرات سے دو چار ہوئی تو پھر
امریکا اقتصادی پابندی لگانے پر بھی غور کر سکتا ہے۔
دھرنوں کے درمیان ہی ورلڈ اکنامک فورم نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا
کہ پاکستان کی معیشت میں چار درجے بہتری آئی۔ اس طرح پاکستان اب 129 ویں پر
آ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف
گامزن ہے۔ لیکن اُسکے فورا بعد ہی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز
نے پاکستان میں جاری سیاسی بے یقینی کو پاکستانی معیشت کے لیے منفی قرار
دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ دھرنے اور سیاسی بے چینی مزید جاری رہے تو
پاکستان کے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی اداروں سے تعلقات مشکل میں پڑ
سکتے ہیں۔ موڈیز کے مطابق پاکستان میں موجودہ سیاسی ہلچل معیشت کے لیے منفی
ہے اور یہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے تعلقات کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو چاہیے کہ
جلد از جلد ملک کو سیاسی بحران سے نکالیں ورنہ پہلے سے تباہ حال معیشت
دیوالیہ پن کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت نے دھرنوں کے حوالے سے جمع کرائے جواب میں مزید
کہا کہ مظاہروں کے باعث بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح ہوا ہے
اور کئی بین الاقوامی رہنماؤں کے دورے منسوخ ہوئے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ
سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 717 افراد زخمی
ہوئے جن میں سے پولیس اہلکاروں کی تعداد 202 ہے جب کہ 3 افراد ہلاک بھی
ہوئے، قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 13 مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ مظاہروں
کے دوران پی ٹی وی اور پولیس گاڑی سمیت 7 گاڑیوں کو نقصان پہنچا جب کہ
وفاقی دارالحکومت میں 2 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ عدالت میں عمران
خان اور طاہر القادری کی تقاریر کی سی ڈیز بھی پیش کی گئی ہیں اور بتایا
گیا ہے کہ دونوں لیڈر پاکستان کو بند کرنے ،حکومت کو گرانے،نظام حکومت کو
جام کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپنے جواب میں حکومت نے جو
کچھ کہا ہے اُسکو حکومتی موقف تو کہا جاسکتا ہے اس لیے کہ اس موقف میں
حکومت نے کہیں بھی حکومتی غلطیوں کا اظہار نہیں کیا ، بہتر ہوتا اگر حکومت
اپنے جواب میں وہ وجوہات بھی بیان کرتی جسکی وجہ سے دھرنے دیے جارہے ہیں۔
اگر حکومت اپنے جواب میں عمران خان کے اُس مطالبے کا ذکر کردیتی تو بہتر
ہوتاجس میں عمران خان نے صرف چار حلقوں کو دوبارہ چیک کرنے کو کہا تھا۔ یہ
بھی لازمی تھا کہ ماڈل ٹاون لاہور میں ہونے والے 14 افراد کی ہلاکت اور 80
سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کے ذکر کے ساتھ مقتولین کے ورثا کی جانب سے
ایف آئی آر درج نہ کیے جانے کے حکومتی ہٹ درمی کا ذکر بھی حکومتی جواب میں
موجود ہوتا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال مشکل ضرور ہے مگر جب
لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا تو پھر دھرنے اور احتجاج کرنا عوام کا فطری عمل
ہے اگر حکومت پہلے ہی عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات پر غور کرلیتی
تو آج یہ صورتحال نہیں ہوتی اور ملک دھرنوں کے معاشی اثرات سے محفوظ رہتا۔ |