ہاشمی صاحب۔آپ نے عوامی امنگوں سے بغاوت کی ہے
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
جاوید ہاشمی صاحب نے جو راز طشت
از بام کیے ہیں اس میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ٹائمنگ کس کے
اشارے پر طے کی گئی ،جب ان کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ عمران خان کسی کے
اشارے پر چل رہے ہیں تو انھیں اسی وقت تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دینا
چاہیے تھا اور پھر ہمارے ملک میں اشاروں کی زبان کوئی آج سے تو نہیں چل رہی
ہے یہ الگ بات ہے اب یہ تمام باتیں خواص کے ڈرائنگ روموں سے نکل عوامی سطح
پر کھل کر آگئیں ہیں ،جس میں ایک سبب آزاد میڈیا کا بھی ہے ۔جاوید ہاشمی
قلندرانہ اور باغیانہ طبیعت کے انسان ہیں وہ جس کے ساتھ چلتے ہیں بہت جلد
اس سے بیزار بھی ہوجاتے ہیں پھر کچھ عرصہ وہ بیزاری بے کلی کی حالت میں اس
پارٹی کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں ،عام لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا
ہے اب سے تین سال قبل جب ان کا ن لیگ سے چل چلاؤ کا وقت تھا ایسی خبریں
اخبارات کی زینت بن رہی تھیں کہ ایک خفیہ ایجنسی کے اشارے پر بعض بڑے بڑے
سیاست داں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں جس میں شاہ محمود
اور جاوید ہاشمی کا نام بہت زیادہ آرہا تھا ۔جاوید ہاشمی کو منانے کے لیے
کلثوم نواز خود چل کر گئیں تھیں اس کے علاوہ خواجہ سعد رفیق اور دیگر مسلم
لیگ کے رہنما حضرات ان کے سامنے رو تک دیے تھے کارکنان مسلم لیگ ان کے گھر
کے سامنے لیٹ گئے تھے مگر جاوید ہاشمی نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور
تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ۔جاوید ہاشمی پرانے سیاسی کارکن ہیں اس لیے وہ
یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہمارے ملک میں ہمیشہ مقتدر قوتوں کی حکومت رہی ہے
کبھی سامنے آکر مارشل لا کی شکل میں تو کبھی پردے کے پیچھے بیٹھ کر ۔
1968میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی اور بھٹو صاحب ایوب خان سے
الگ ہو کر جنرل یحییٰ سے اپنے تعلقات استوار کر رہے تھے اس وقت ایوب خان نے
کہا کہ میں نے سیاست دانوں سے اقتدار لیا ہے اس لیے ان ہی کو واپس کرنے کے
لیے تیار ہوں اور اس مقصد کے لیے گول میز کانفرنس بلائی گئی لیکن اس گول
میز کانفرنس کا بھٹو اور مجیب الرحمن س نے کس کے اشارے پر بائیکاٹ کیا
،ظاہر ہے یحییٰ خان خود برسر اقتدار آناچاہتا تھا ۔اس سے قبل بھٹو صاحب
8سال تک جنرل ایوب کے زیر سایہ اپنا سیاسی امیج بناتے رہے یعنی ان کی سیاست
میں اوپننگ فوجی جنرل کے ذریعے ہوئی اور ایک دوسرے فوجی جنرل کے بعد اقتدار
حاصل کیا ۔پھر کیا نوازشریف صاحب جنرل ضیا کے توسط سے نہیں آئے اور جنرل
صاحب ان کی خدمات سے اتنا خوش تھے کہ وہ انھیں یہ کہہ کر دعا دیتے تھے کہ
نواز شریف تمھیں ہماری عمر بھی لگ جائے ۔پھر جنرل ضیا کی شہادت کے بعد
الیکشن میں بے نظیر نے کامیابی حاصل کی تھی تو اس وقت کے جنرلوں کے ساتھ
کچھ ڈیل کر کے برسراقتدارآئیں تھیں پھر ڈھائی سال کے بعد ان کی حکومت کیسے
ختم ہوئی اور آئی جے آئی کی تشکیل کیسے ہوئی اس پر تو بہت کچھ کہا جاچکاہے
اور نواز شریف صاحب اقتدار پر فائز ہو گئے ،پھر دو ڈھائی سال بعد صدر اور
وزیر اعظم میں اختلاف اتنی شدت اختیار کر گیا جنرل عبدالوحید کاکڑ کو ثالث
کا کردار ادا کرنا پڑا پھر انتخاب ہوا اور بے نظیر کامیاب ہو گئیں
،پھر1996میں ان کے اپنے صدر فاروق لغاری آئین کی دفعہ 58-Bکے تحت ان کی
حکومت ختم کردی انتخاب ہوا اور نواز شریف صاحب دوسری بار وزیر اعظم بن گئے
۔
یہ دو دو بار کا موقع دینے والے یا صرف دو ڈھائی سال تک حکومتی مدت فکس
کرنے والی کون سی قوت تھی ظاہر ہے یہ اس ملک کی اسٹبلشمنٹ تھی جب باریوں سے
عوام تنگ آگئے تو ایک بار پھر فوج برسر اقتدار آئی اب اس مارشل لا سے جان
چھڑانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا یہ سب لوگ جانتے ہیں ۔مجھے ہاشمی صاحب یہ
بتائیں کہ آج آپ مختلف چینلز پر جاکر ایک ایک راز سے جو پردہ اٹھارہے ہیں
تو یہ آپ کس کی خدمت کرہے ہیں آپ عمران خان کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کر کے
نواز شریف صاحب کو مضبوط کررہے ہیں جن کی گردن میں آج سریہ ہے تو کل اس کی
جگہ گارڈر آجائے گا۔اور ان کے اسی طرز عمل کی وجہ آپ ن لیگ کو چھوڑ کر گئے
تھے ۔اس ملک میں دو سرمایہ داروں کا کلب ہے جو باری باری اقتدار پر آتا ہے
ملک کو لوٹتا ہے اور اپنا اور اپنے بچوں کااربوں روپئے کا کاروبار باہر کے
ملکوں میں سیٹ کر کے اور اپنا بنک بیلنس بنا کر چلاجاتا ہے ایک تیسری نئی
اور توانا آواز سیاست کی دنیا میں ا بھر رہی تھی ہاشمی صاحب اس آواز کو دبا
کر اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔عمران خان سے آپ ہزار اختلاف کر سکتے
ہیں لیکن یہ آپ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ ایماندار آدمی ہیں آج پاکستانیوں
کو ایک ایماندار قیادت ہی کی ضرورت ہے پھر یہ کہ عمران خان کا کوئی سیاسی
پس منظر نہیں تھا کسی جاگیردار خاندان سے ان کا تعلق نہیں تھا ۔انھوں نے
عوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا ہے انھوں نے کسی جنرل کی گود میں بیٹھ کر
یا کسی جنرل کے سائے تلے سیاسی زندگی کا آغاز نہیں کیا ۔اگر آج عمران خان
نے اپنے لیے کوئی سیاسی راستہ نکال لیا ہے تو اس میں ایسے اچنبھے کی کون سی
بات ہے کیا اس سے قبل بے نظیر نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کا معاہدہ
نہیں کیا تھا جس پر معروف صحافی ارشاد حقانی مرحوم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا
تھا وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی رہنما ہیں سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے انھوں
نے ایک راستہ نکالا ہے ۔عوام تبدیلی چاہتے ہیں آج اسمبلی میں جتنی سیاسی
جماعتیں ہیں سب نے یہ کہا ہے کہ 2013کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی عمران
خان نے ایک تجویز دی تھی صرف چار نشستوں پر انگوٹھوں کے نشانات چیک کرلیے
جائے اگر ان چاروں میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر مڈٹرم انتخابات کرا دیے
جائیں لیکن ان کی اس بات کو ہوا میں اڑا دیا گیا ۔
نواز شریف سے استعفامانگنے کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ یہ اسمبلی
دھاندلی کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اس لیے آپ اخلاقی طور پر
وزیر اعظم کے منصب سے استعفا دے دیں دوسری وجہ یہ کہ آپ کے وزیر اعظم ہوتے
ہوئے دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی ۔ہاشمی صاحب پاکستان کے عوام نے
بڑی امنگوں کے ساتھ تحریک انصاف کا ساتھ دیا تھا کہ عمران خان ایک سچا اور
کھرا آدمی ہے وہ خود کرپشن کرے گا اور نہ دوسروں کو کرنے دے گا اور جو لوگ
اس ملک کی دولت لوٹ کر لے گئے ہیں ان سے اس قوم کا سرمایہ واپس لے کر قوم
کو لوٹائے گا ہاشمی صاحب آپ نے تحریک انصاف سے بغاوت نہیں کی ہے بلکہ
پاکستانی عوام کے جذبوں اور امنگوں سے بغاوت کی ہے ۔ |
|