ہماری جامعات نے اردو شعر ونثر
کے حوالہ سے کافی کام کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی
جامعات کے شعبہ ہا اردو نے تدریس اردو کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے
میدانوں میں اپنے اپنے حوالہ سے تسلی بخش کام کیا ہے۔ ان کی جملہ مساعی کی
تحسین لازم ٹھہرتی ہے۔ معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہونے والا کام تسلی بخش
یا کافی ہے؟ دوسرا قدماء ہی پر کام ہوتے رہنا چاہیے یا عصری شعر وادب پر
غیر معیاری کی مہر ثبت کرکے اسے نظرانداز ہوتے رہنا چاہیے؟
جتنا کام ہوا ہے لگے بندھے مفاہیم کے تحت کام ہوا ہے۔
متعلقہ کی زبان سے آگہی کے بغیر کام ہوا ہے۔
کام ڈگری کی حصولی سے مشروط ہونے کے سبب بہترین نہیں کہلا سکتا۔ ہاں اپنا
شوق یا کام کرنے کی عادت کے تحت ہونے والا کام بڑا ہی بہتر ہے۔
قدماء سے محبت اور اولیت اپنی جگہ جدید اور حاضر کو نظرانداز کرنا اردو
ربان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اہل زبان تھے۔ میں کہتا
ہوں ہر وہ جو زبان کا استعمال کرتا ہے‘ اہل زبان ہے۔ معیاری و غیر معیاری
کا سوال تب اٹھتا ہے جب
کہا مفاہیم دینے سے قاصر ہو۔
کہا کوئ فکر مہیا نہ کر رہا ہو۔
کوئ زبان مہیا نہ کر رہا ہو۔
معاملات اور رویوں کی عکاسی نہ کر رہا ہو۔
جب کہے گیے میں یہ سب میسر ہو تو غیر معیاری کی مہر ثبت کرنا زیاذتی کے
مترادف ہے۔
میں یہاں دو تین جملے درج کر ہوں ان کو ایک نظر دئکھیں
مچھلی میں نے پکڑ رکھی ہے۔
اس نے آج ایسا پلاس ڈالا کہ ہر دیکھتا‘ دیکھتا رہ گیا۔
غلط صحیح کو الگ رکھو اس کی ادا کاءیاں دیکھو۔
کتے پر گرفت مضبوط رکھو گے تو ہی پیچ ڈھیلے کر پاؤ گے۔
کوے پر ضرب لگاؤ اگلا پچھلا اگل دے گا۔
وہ گھر والوں کو پھٹی لگا جاتا ہے میں اور تم کس کھاتے میں آتے ہیں۔
ان جملوں میں کیا خرابی ہے۔ ہر جملہ اپنی زبان رکھتا ہے۔ ہر جملے میں کوئ
ناکوئ خیال موجود ہے۔ نحوی کجی موجود نہیں تو پھر ان پر کیوں بات نہیں ہو
سکتی۔
تحقیق اور تنقید کیا ہے؟
تفہمی لسانی اور عملی صوتحال پر بات کرنا تنقید ہے جبکہ پہلے سے موجود سے
آگے بڑھ کچھ نیا اور الگ سے کی تلاش کا نام تحقیق ہے۔
یہ جملے اب سے متعلق ہوں یا ان کا تعلق پہلے سے ہو‘ اس سے کیا فرق پزتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے
ان جملوں کی زبان سمجھی جاءے۔
اس زبان میں باتیں کیا کی گئ ہیں‘ ان کی تفہیم حاصل کی جاءے۔
پیش کیے کیے ہر جملے کی تفہیم کے لیے فکری کاوش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اس لیے تحقیق و تنقید کے میدان میں انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
کہی گئ باتوں پر مختلف حوالوں‘ زاویوں‘ پیمانوں‘ نقطہ ہاءے نظر وغیرہ کے
تحت گفتگو کی جاءے۔ بدقسمتی سے جو ہوا یا ہو رہا ہے‘ اس سےہٹ کر ہے۔ اس لیے
اس کیے اور ہونے والے پر بہترین کی مہر ثبت نہیں کی جا سکتی۔
ایک رویہ اور بھی بڑی شدت رکھتا ہے کہ فلاں موضوع پر کام ہو چکا ہے لہذا اس
پر کام نہیں ہو سکتا۔ یہ رویہ قطعی احمقانہ ہے۔ جو کوئ کام کر گیا نبی تو
نہیں تھا جو اس کے کہے کے بعد کچھ کہنے یا کرنے کی گنجاءش ہی نہیں۔ وہ سب
اول تا آخر عام انسان تھے اور انہوں نے اپنی سوچ اور اپنے داءرے میں رہتے
ہوءے تحقیق و تنقید کا کام کیا۔ ہر معاملے سے متعلق دو چار نہیں‘ سیکڑوں
راہیں نکلتی رہتی ہیں۔
اس کے لکھے میں تبدیلیاں بعید از قیاس نہیں ہیں۔ ہر دوسرے کام کرنے والے کی
حدود لاءف سیٹ اپ اور نقطءنظر الگ سے ہوتا ہے۔ تفہیم وتشریح وغیرہ کو محدود
کرنا زبان کے ساتھ زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ گاءیڈ حضرات انٹرنیٹ سے کھوجنے کا مشورہ تو
دیتے ہیں لیکن حوالہ کتاب ہی کا معتبر سمجھتے ہیں۔ کچھ تو انٹرنیٹ کے حوالے
کو غیرمعتبر قرار دیتے ہیں۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی افادیت سے
آگاہ نہیں ہیں۔ خدا کے لیے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھیں۔ وقت آنے کو ہے کہ
کتاب سنے کی چیز رہ جاءے گی۔ اس ذیل میں صرف دو ویب ساءٹس کا حوالہ دوں گا۔
اردو نیٹ جاپان اور ہماری ویب پر بڑی وارءٹی ملتی ہے۔ کمال کا مواد بھی
دستیاب ہے۔
جامعات میں آج دھڑا دھڑ ایم فل کی ڈگریاں چھاپی جا رہی ہیں۔ تحقیق وتنقید
کو سنجیدہ کام سمجھا جاءے۔ قدماء کے ساتھ عصری مواد پر بھی نظر رکھی جاءے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے کہنے والے کی زبان کی تفہیم تک رسائ کی جاءے۔
اس کے بعد تفہیمی معاملات طے کیے جاءیں۔ جو ہو چکا اس پر نظر ثانی کی ضرورت
پس پشت نہ ڈالی جاءے۔ قدماء کو حوالہ میں رکھا جاءے۔ ماضی پیارا سہی لیکن
آج کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
میں بڑی دیانت داری سے عرض کر رہا ہوں بوڑھوں کو دو نمبر پر نہ رکھا جاءے
ان کے حیاتیاتی تجربہ سے فاءدہ اٹھایا جاءے۔ یہ ملنے کے نہیں‘ بخدا نایاب
ہیں۔ تبسم کاشمیری‘ سعادت سعید‘ نجیب جمال‘ محمد امین‘ مظفر عباس‘ اختر
شمار وغیرہ سے لوگ کہاں ملیں گے۔ کسی بھی پرانے سکل مین کو صرف نظر کرنا آج
کے ساتھ ہی نہیں آتے کل کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ یہ اولڈ بواءز ماضی کا ہی
نہیں گزرتے آج کا بھی انمول سرمایہ ہیں۔
کوئ تحریر کسی ناکسی سطع پر طرحدار ہوتی ہے۔ اس طرحداری میں ملفوف مفاہیم
کی دریافت اصل کرنے کا کام ہوتا ہے۔ اس طرحداری کی دریافت کے لیے ہر کسی کے
پاس اپنا میٹر ہوتا ہے۔ میٹر کے حدود ہوتے ہیں۔ مفاہیم میٹر سے باہر کی چیز
ہیں۔ لمحہءتخلق کے موڈ کی دریافت آسان کام نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ تخلیق
کار بھی لمحہءتخلق کے موڈ کے مطابق تفہیم کرنے سے قاصر وعاجز ہوتا ہے۔ میر
صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو
غیر نے ہم کو ذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے
ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے
اس شعر کی صد ہا تفہیم سننے کو ملیں گی۔ کیوں لمحہءتخلیق کی راہ میں دو صدی
کا فاصلہ حاءل ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں صید حرم سے مراد ٹیپو غیر سے مراد
انگریز جبکہ کتا میر جعفر ہو سکتا ہے۔ غیر اور کتا سے مراد انگریز ہو سکتا
ہے۔ میرا یہ خیال‘ محض خیال ہو سکتا ہے۔ حتمی ہونے کی مہر اس پر ثبت نہیں
کی جا سکتی۔
اب یہ لاءنیں ملاحظہ فرماءیں
سورج کو روک لو
شہر عشق کو جانے والا
سر سلامت نہیں رہا
یہ لاءینں کل پرسوں یعنی ١٩٨٠-٨٢ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالکل عام اور سادہ سی
ہیں لیکن طرحداری کے حوالہ سے جلیبی سے ممثل ہیں۔ ان کی تفہیم اتنی آسان
نہیں۔ ان کی تفہیم کے حوالہ سے سعادت سعید تبسم کاشمیری وغیرہ جیسے لوگوں
کا وجود نعمت سے کم نہیں۔ لہذا آج کی تفہیم آج کے حوالہ سے ہی کارگر ثابت
ہو سکتی ہے۔
آج کے ادب پر تحقیقی ڈگری سطع پر کام کرانے میں اگر کوئ امر مانع ہے تو اس
پر
assignments
تو دی جا سکتی ہیں۔ گزرا کس خوشی یا کرب میں تھا یا کس قسم کے نظریات یا
رویوں کا حامل تھا یقینا
تجربے کا درجہ رکھتا ہے لیکن جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں‘ کا جاننا بھی
ضروری ہے۔ آج کی زبان اور آج کے معاملات کی بہتر تفہیم آج ہی ممکن ہے۔ آتا
کل اسے اپنے پیمانے پر رکھے گا۔ آج کے معاملات کل کے لیے پچیدگی بن جاءیں۔
اس ذیل میں میر صاحب کے مندرج شعر کو بطور مثال سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ آج
کی تفہیم کل والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
ابھی ابھی ایک پنجابی نعت سنی ہے۔ اہم مصرع یہ ہے
لبھ کے لے آواں کیتھوں سوہنا تیرے نال دا
شاعر کا جذبہءمحبت اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ لبھن دی ضرورت ہی کیا ہے۔
کیا آپ کی ذات گرامی ہمارے لیے کافی نہیں ہے۔ گویا ہم کسی شریک کی خواہش
رکھتے ہیں۔ کیا یہ عزت کی بات ہے یا اس سے توہین کا کوئ پہلو نکلتا ہے۔ اس
مثال کے حوالہ سے یہ امر لازم ٹھہرتا ہے کہ آج کے ادب پر آج کام نہ کرنا
بہت بڑی غلطی ہوگی۔ منفی اور مثبت چیزوں کو آج ہی بہتر طور پر دریافت کیا
جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے آج اور گزرے کل سے متعلق کچھ نایاب دانشور دستیاب
ہیں اور وہ طرحداری کی گھتیوں کو سلجھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
|