پاکستان کی سر زمین کو مکمل
آمریت نصیب ہوئی نہ جمہوریت بلکہ یہ کہوں کہ جمہوریت تو شائد چکھنے کو ملتی
رہی تو غلط نہ ہو گااور اس کی وجہ اس ملک خداداد پر حکومت کرنے والوں کی
نااہلی ہی ہے کوئی مانے نہ مانے ملک کے حالات دگر گوں ہوں تو پاک فوج اس کی
سلامتی کی ضامن ہے جمہوریت کا ٹھیکیدار طبقہ جب بھی آیا اپنے پیٹ کے کنویں
بھرنا شروع کر دیتا اور ملک کے ساتھ کوئی نیکی سنجیدگی سے نہ کی جو کی بھی
تو وہ صرف وام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تاکہ ووٹ بینک نہ ٹوٹے
اپنے اقرباء کو وزاتوں سے نوازنا ہر بڑے اور حکومتی ادارے پر اپنی مرضی کے
لوگ بیٹھانا تاکہ نہ کوئی چوری کرتا پکڑے نہ کوئی دغہ بازی کو دیکھے اپنی
مرضی سے پولیس اور عدالتیں چلانا کہ کسی جگہ کوئی حادثے سے مر جائے تو FIR
ڈاکٹر قادری کے نام کٹ جائے اور کہیں 14 لاشیں بے دردی سے حکومتی مشینری
گرا دے اور FIR دو تین ماہ تک نہ کٹے، کہیں فیصل آباداور ڈی جی خان میں
لڑکیوں کی عزت تار تار ہو جائے تو 4 ماہ تک پولیس اور عدالتیں ٹس سے مس
نہیں ہوتیں تو وہ خود سوزی کر کے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور
شلوار یں دیکھ کر سو موٹو لینے والے خوابِ غفلتِ ٹوہر ٹکہ میں پڑے ہیں عوام
کی بنیادی ضروریات کو اپنی تجارت بنا کر من مانی کرناان نام نہاد جمہوریت
کے ٹھیکیداروں کا شیوا بن چکا ہے اور اگر کسی بااثر شخص پر کوئی فردِ جرم
عائد ہو بھی جائے تو یہ مفلوج اور لوہلا ظالم نظام خود اس کو نکل جانے کے
راستے بتاتا ہے بیشک اس نے قتل کیا ہو باعزت بری ہو جاتا ہے اور درخواست
دینے والے کی شامت آ جاتی ہے ان تمام ناانصافیوں اور مظالم کی وجہ سے
پاکستان اک مسلمان ملک میں ہندووں کی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر عوامی طبقہ
تقسیم ہو چکا ہے ، جب عدل مہدوم ہو جائے اور احساسِ کمتری ہونا شروع ہوجائے
تو تحریکیں جنم لیتی ہیں بغیر وجہ کے کسی کا دماغ خراب نہیں ہوتا کہ نہ یخ
بستہ سردیا ں دیکھے نہ گرمیاں اور کھلے آسمان تلے آ بیٹھے یہ سارا حکومتی
ڈھانچہ اور آئین کے ٹھیکیدا ر وزیر انیں کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور مذاق
اڑاتے ہیں شرم نہیں آتی ان کو بے غیرت اسی عوام کے پیسوں سے تنخواہ لینے
والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ اسی عوام کے نوکر ہیں -
اگر ہمارے ملک کے حکمرانوں کو ملک کی تنزلی کی فکر ہوتی ، عوام کے مسائل ،
روٹی کپڑا مکان کی فکر ہوتی تو یہ ضروریات پوری کرنے والے تمام حکومتی
ادارے جو کئی عشروں سے سیاسی طوفان کی لپیٹ میں ہیں انکو ٹھیک کرتے سارا
سارا سال پارلیمینٹ میں اک ٹوپی ڈرامہ لگا رکھا ہوتا ہے کہ پتا چلے کہ بڑا
کام کرتے ہیں انگلش کا اک محاورہ ہے look busy do nothing ظالم عوام کو
بیوقوف بناتے ہیں ایک پارٹی کسی پروجیکٹ کا بل دیتی ہے تو دوسری اس کے خلاف
کھڑی ہو جاتی ہے ان میں اتنی مخالفت ہونے کے باوجود آجکل یہ جمہوریت اور
آئین کے نام پر بھائی بھائی بن بیٹھے ہیں کبھی کسی عوامی مسلے پر ایسا
اتحاد دیکھا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے یہ جس تالاب میں نہا رہے ہیں اور جس
حمام میں ہیں اس کو بچانے کے لئے متحد ہیں تاکہ سارے ننگے نہ ہو جائیں جب
ان میں اکثر آئین کی عینک لگا کر دیکھنے میں ننگے ہیں جو اسمبلی کی کرسی کے
قابل نہ تھے وہ کس آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں ان کے نزدیک جمہوریت
اسے آتی ہے جو دو دن جیل میں رہ کر آیا ہو ، جو دو دن جیل نہ گیا ہو وہ
جمہوریت کا درس کیسے دے سکتا ہے (عبدالنبی بنگش کا جملہ پارلیمینٹ میں)
ایسی کھڑوس قسم کی جمہوری سوچ کوشرم آنی چاہیے خدا کی قسم اگر عوام ملک کا
آئین پڑھ لے تو ان لوگوں کو چھپنے کی جگہ نہ ملے ابھی تو قادری صاحب نے چند
دفعات کی وضاحت عوام کے سامنے رکھی ہے ۔
ہماری اکثر عوام میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کر کے تعلیم چھوڑ دیتی ہے اور اس درجہ
ِ تعلیم تک ملک کے تعلیمی نصاب میں آئین سے ایسی کوئی دفعہ شامل نہیں کی
گئی جس سے عوام کو اس کے بنیادی ریاستی حقوق معلوم ہو جائیں کیونکہ جب تک
کسی کو اپنا حق نہ پتہ ہو تو وہ اس کا دعوہ کرنے سے غافل رہتا ہے تو یہ بھی
اک ایسی سوچ ہے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے کی بانسری اور اگر ووٹ کے بدلے حق
معلوم ہو تو دیکھ لیں ابھی چند نقات پتہ چلنے پر عوام نے حکمران طبقہ کی
نیندیں حرام کر دی ہیں اگر سارا آئین حق حقوق کا تھوڑا تھوڑا کر کے ہر
درجہِ جماعت میں پڑھا دیا جائے تو یہ نوبت نہ آتی جو آج اسلام آباد میں ہے
لوگ اس انقلاب اور تبدیلی والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ہر کوئی
ان کے طریقہ ِ واردات کو غلط کہتا ہے بیشک یہ صرف ڈی چوک سے آگے جانا ان کی
غلطی تھی جو انہیں آگے نہیں جانا چاہیے تھا اس پہلے تک جو کچھ جمہوریت اور
آئین کی رو سے کہیں غلط نہیں تھا ان دونوں پارٹیوں کو ریڈ لائین پار کرنے
پر مجبور کیا گیا جس کے ذمہ دار حکومت اور الیکٹرونک میڈیا ہے 17 دن پرامن
احتجاج جو پاکستان کی تاریخ میں شائد نیا ریکارڈ ہے انکے مطالبات پر حکومت
ٹس سے مس نہ ہوئی الٹا مذاق اڑاتے رہے اور ساتھ میڈیا انکے الٹیمیٹم کا
مذاق اڑاتا رہا اور یہ ایسا فعل تھا جو جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے جس سے
انسان طیش میں آ جاتا ہے یوں لگتا ہے حکومت اور میڈیا والے خود کوئی ایسا
حادثہ چاہتے تھے کہ ہو کر ہی رہے پھر جو ہوا اگر نہ ہوتا تو بہت اچھا
تھا،پھر جو پولیس نے کردار ادا کیا کیا بات ہے بلکہ لاجواب ہے آنسو گیس کی
شیلنگ اور گولیاں ایسے فائر کی گیئں جیسے انڈیا کی فوج کے ساتھ میدان ِ جنگ
میں مقابلہ ہواور اتنی شدید شیلنگ انٹرنییشنل ہیومین رائٹس کے خلاف ہیں ۔
لوگ کہتے ہیں کہ اتنی تکالیف کے بعد کیا ملا ؟ انقلاب اور تبدیلی کو مذاق
سمجھ رہے ہیں مگر میں ایسا نہیں دیکھ رہا میری سوچ کا زاویہ اس سے بہت
مختلف ہے میں کہتا ہوں کہ تبدیلی آگئی ہے اور خاموش انقلاب ان سیاستدانوں
کی گردنوں کو پکڑنے والا ہے جو کہتا ہے کہ نہیں ہر چیز جب تک تہہ و بالا نہ
ہو انقلاب نہیں ہوتا شائد وہ ٹھیک کہتا ہے مگر میں کہتا ہوں ہر چیز تہہ
وبالا تو ہو گی مگر اس کی آواز آنا اور طوفان کی طرح آنا ضروری تو نہیں
میرے نزدیک اگر عوام کو اپنے حقوق کی آشنائی اور شعورآ جائے تو سمجھو
تبدیلی اور انقلاب دور نہیں وہ ہر چیز کو تہہ و بالا بھی کرے گا مگر ساتھ
والے پڑوسی کو پتہ بھی نہیں چلے گااور میرے خیال میں ہر فردِ پاکستان اب
موجودہ نظامِ حکومت اور طرزِ سیاست سے تنگ آگئے ہیں وہ ایسا میرٹ نہیں
چاہتے کہ جو دو دفعہ ناکام ہو کر پھر آجا ئے اور کہے کہ میں نے چیلنج قبول
کیا کہ پاکستان کو بہران سے نکالوں جیسے وزیرِ اعظم صاحب کی جماعت میں ان
کے علاوہ کو ئی قابل ہی نہیں اور دوسرے بھائی وزیرِ اعلیٰ ہر دفع آپ کیسے
ممکن ہے کونسا میرٹ ہے ہمیں بھی تو بتا دیں اور سونے پر سوہاگا ان کا ڈپٹی
وزیرِ اعلیٰ جو عوام کی جیب پراک فالتو بوجھ ہے وہ عہدہ جس کی ضرورت ہی
نہیں تھی اور اب تو مسلم لیگ نواز کو بھی شرم آنی چاہیے کہ اس عہدے کے قابل
بھی اور کوئی نہیں تھا، اگر ڈاکٹر صاحب اور عمران خان وزیرِ اعظم کے استفعے
کے بغیر بھی لوٹ جاتے ہیں تو بھی ان کی ناکامی نہیں ہے اگر استفع لازمی ہے
تو قانونی کاروائی بھی لازمی ہے کیونکہ نواز شریف صاحب پر آرٹیکل چھے ،
باسٹھ اور تریسٹھ کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے جو ان وزارت
کا گلہ دبا سکتا ہے مگر میں بھی اس حق میں ہوں کہ وزیرِ اعظم کو استفع اس
مظاہرے کے دباؤ کی وجہ سے نہیں دینا چاہیے نہیں تو آنے والا ہر وزیرِ اعظم
ایسے ہی جائے گا مگر ایک ماہ کی چھٹی پر جانا معقول ہے اور منطق اور قانون
بھی ہے کہ اگر کسی عہدیدار پر الزام آجائے تو اس کو مستفع ہونا ہوتا ہے جب
تک تحقیق مکمل نہ ہو جائے اگر دامن صاف ہو تو عہدے پر واپس آجائے اور اگر
یہ موجودہ دھاندلی کی تحقیقات دھاندلی ثابت ہونے پر اسمبلی منسوخ اور ذمہ
دا ر کو سزا ، نئے الیکشن کے لئے صاف شفاف الیکشن کمیشن بنوانے کے مطالبات
بھی منوا لیتے ہیں تو آنے والا دور تبدیلی اور انقلاب کا دور ہو گا انشااﷲ
۔ |