معاملات بگاڑنے والوں کو سینے سے
لگائے رکھنا دانشمندی نہیں ہے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز
شریف کا کہنا تھا کہ رات کو جو واقعہ اعتزاز احسن کے ساتھ پیش آیا وہ بڑی
بد قسمتی ہے جس پر دکھ ہوا، جیسے ہی واقعہ کا علم ہوا تو اپوزیشن رہنماؤں
سے معذرت کی جب کہ خورشید شاہ نے بھی واقع پر ہماری ٹھیک ٹھاک کلاس لی، میں
اعتزاز احسن سے گزشتہ روز پیش آنے والے واقع پر ایک بار پھر معذرت کرتاہوں
اور چاہوں گا کہ وہ بھی در گزر سے کام لیں۔وزیراعظم نے کہاکہ میں چاہتا ہوں
کہ جس مقصد کے لئے ہم آج ایک ہیں اس کو آگے بڑھائیں اور جو ہمیں ایک دوسرے
پر گلے شکوے ہیں ان پر موجودہ بحران حل ہونے کے بعد مل کر بات کر لیں گے،
اگر آج پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی اور ہم اپوزیشن میں ہوتے تو ہم بھی اسی
طرح ان کا ساتھ دے رہے ہوتے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے اقتدار کی
کوئی پروا نہیں ہے، وزیراعظم بننا کوئی پھول کی سیج نہیں ہے بلکہ اس راہ پر
کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب گزشتہ برس طاہرالقادری نے اسلام
آباد میں دھرنا دیا تھا تو میں نے آصف علی زرداری اور خورشید شاہ سے پوچھے
بغیر ہی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بلا کر جمہیوریت کی خاطر حکومت کا
ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ جمہوریت اور
قانون کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ میں
میاں نواز شریف کو مشورہ دینے والا کون ہوتا ہوں، میں تو صرف انہیں یقین
دہانی کرا سکتا ہوں کہ’’ جمہوریت ‘‘بچانے ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ آصف علی
زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے خلاف ’’سازشیں ‘‘ہوتی رہتیں ہیں لیکن کچھ
بھی ہوجائے ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں جب کہ میں ابھی جمہوریت بچانے کے لیے ہی
دارلحکومت میں بیٹھا ہوں، مسائل پر قابو پانے کے لیے سب کوساتھ چلنا ہو گا۔
سابق صدر نے کہاکہ ہم مشکل پچ پر کھیلنے کے عادی ہیں لیکن کپتان عادی نہیں۔
طاہر القادری ہم پر بھی حملے کرنے آئے تھے لیکن ہم نے ان سے معافی مانگ کر
انہیں سیاسی طور پر ڈیل کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سابق صدر جس لا ء کو جمہوریت
قرار دے رہے ہیں وہ قوم پر مسلط ہونے والی ایک بلاء اور ابتالاء سے کم نہیں
جیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں کہ درجنوں معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا
جائے بے بس لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے ،عوام کو آئینی حقوق نہ دئے
جائیں اور مذاکرات کا ڈھونگ رچاکر اند ر کچھ اور باہر آکر کچھ زبان بولی
جائے ،اگر یہی جمہوریت کا حسن ہے تو عوام اس جمہوریت اور اس بدبودار نظام
پت کب کے تین خرف بھیج چکے ہیں ایک ماہ تک ملک کے لوگ یرغمال بنائے رکھے
گئے ہیں اور ناکہ بندیوں ،کنٹینرز کے جال ،خندقوں آنسو گیا کی شیلنگ ،کیا
یہ جمہوری انداز ہے جس کے زریعے سیاسی مخالفین کو دبایا جاتا ہے ۔اعتزاز
احسن کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد بھی اگر سابق صدر اس نظام جو جمہوری
دمجھتے ہیں تو پھر اس ملک کے بالغ نظر اہل سیاست کی عقل پر ماتم ہی کیا
جاسکتا ہے ۔
آصف زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ مسائل پر قابو پانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ
سمیت سب کوساتھ چلنا ہوگا۔ جمہوریت کا ساتھ دے کر میں نے نواز شریف پر نہیں
بلکہ خود پر احسان کیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پیدا
ہونے والی حالیہ کشیدگی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعتزاز
احسن بالکل حق پر ہیں حکومتی وزرا کو اس طرح کا رویہ نہیں اپنانا
چاہئے۔ہماری رائے میں یہ باتیں کتابی تو ہوسکتی ہیں عملی نہیں کیونکہ حکومت
ایوان میں جو روئیے اپنارہی ہے اور طاقتور ترین وزراء کا جو لب و لہجہ
مخالفین کیساتھ ہے اسی کا مظاہرہ اپنوں کے ساتھ بھی کیا جارہا ہے ۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا یہ کہنا درست تھا کہ اگر چاہوں
تو پارلیمنٹ کو ختم کردوں اور حکومت کے خلاف دھرنوں کی مزاحمت ختم کرا دوں۔
میرے خلاف من گھڑت الزامات لگائے گئے جس کی وزیراعظم نواز شریف تو معافی
مانگ لیتے ہیں لیکن وزارت داخلہ وزیراعظم کی معافی کے بعد تمام میڈیا چینلز
پر پریس ریلیز کے ذریعے ان الزامات کی تصدیق کرتی ہے، ان کا سوال بجا تھا
کہ وزیراعظم کب تک ان لوگوں کا دفاع کریں گے۔؟ وزیراعظم سے کہا تھا کہ
ہمارے کارکن ہم سے ناراض ہیں، بغاوت کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگ
نواز شریف اور ان کی حکومت کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود
جمہوریت کی خاطر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مجھ پر لینڈ مافیا اور ایل پی جی کے
حوالے سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔میں اسمبلی سے باہر چلا گیا تو یہاں
کوئی بھی نہیں بیٹھے گا، اگر میں چاہوں تو ابھی اس پارلیمنٹ کو ختم کر دوں،
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی گردن پر گٹھنہ رکھ کر استعفیٰ مانگنے کی
سیاست غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی وزیراعظم نواز شریف سے کہا تھا
اور آج بھی کہتے ہیں کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر نظر رکھیں کہیں آگ لگانے
والے آپ کے دائیں بائیں تو موجود نہیں ہیں، ہمیں اندیشہ تھا اور آج بھی ہے
کہ اگر آپ اس امتحان سے نکل گئے تو آپ کے وزراء نے پھر ہماری تضحیک شروع کر
دینی ہے، ہماری بات نہیں سنیں گے لیکن ابھی تو حکومت اس امتحان سے باہر بھی
نہیں نکلی کہ آپ کے وزراء نے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیں
ہیں۔دوسری طرف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نواز شریف سے
کہا کہ تاریخ میں یہ بات نئی نہیں کہ آپ کی صفوں میں غدار پیدا ہو
جائیں۔سارا ایوان وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کھڑا تھا لیکن پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس کو جان بوجھ کر سبوتا ژکرنے کی کوشش کی گئی، یہ سازش آج سے
نہیں بلکہ گزشتہ چھ ماہ سے چل رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ’’میاں صاحب آپ کی
صفوں میں پورس کے ہاتھی موجود ہیں‘‘ جس طرح سے چوہدری نثار نے آپ کی پیٹھ
پر چھرا گھونپا اس کی مثال نہیں ملتی، آپ کے خلاف مری ہوئی طاقت کو زندہ
کیا گیا ہے، لوگ اس پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ یہاں سے کوئی اچھی خبر
ملے لیکن آپ کے ایک سینئر وزیر نے ہمارے اہم رکن کے خلاف بیان دے کر آپ کو
کمزور کرنے کی سازش کی اور آپ کو دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ ٹیپو سلطان جیسا
عظیم اور نڈر سپہ سالار جس نے انگریزوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کیا لیکن اس
عظیم سپہ سالار کو بھی میر جعفر اور میر صادق جیسے آستین کے سانپوں نے ختم
کرادیا، وزیراعظم کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کون ان کا محسن اور کون دشمن
ہے۔ حکومت کے ایک سینیئر ترین وزیر کی جانب سے اپوزیشن کے ایک اہم رکن پر
تنقید کر کے نہ صرف پی پی پی کی بلکہ پوری پارلیمنٹ کی توہین کی ۔ جمہوریت
کو مضبوط کرنے کی ہماری کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اب بات چل نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی اور پی پی پی
کے کارکن اس معافی کو تسلیم نہیں کرینگے کیونکہ ان کی رگوں میں جمہوریت کا
لہو دوڑتا ہے اور انہوں نے بدترین ّمریتوں میں بھی جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ
دفاع کیا ہے بلکہ اس کی قیادت نے اپنا خون دے کر اس کی آبیاری بھی کی ہے
،لیکن اب پی پی پی کی قیادت کو نوازشریف کی حمایت کرنے کی پالیسی کو ترک
کرنا ہوگا اور حقیقی جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا جو کم از کم اس ضکومت
کے دور میں موت کی نیند سلادی گئی ہے اور حکومت کوکوئی بھی اقدام اور رویہ
بھی جمہوری نہیں ہے ،یہ کھلی فسطائیت اور منافقت ہے جس کو جمہوریت کا نام
دے دیا گیا ہے ۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا
کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ اچھی بات نہیں
ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی خاطر سمجھوتے کرنا ہوں گے اور مشکل حالات
میں صبر و تحمل کے ساتھ رہنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ غریب کو بھی وہی حقوق
حاصل ہیں جو امیروں کو ہیں اور آپ غریبوں اورمظلوموں کوانصاف دلانے کیلئے
نکلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے ایوان میں درست نمائندے ہوتے تو
آپ کو یہاں دیکھنے کے لیے آتے۔طاہر القادری کا کہنا تھا کہ حق مانگنے والوں
کو غدار، لشکری اور باغی کہا گیا۔
یہ درست ہے کہ حکومت کو مشکل سے نکالنے اور نوازشریف کی سیاست کو آکسیجن
فراہم کرنے کیلئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پاریلمان کا مشترکہ اجلاس
بلانے کی درخواست کی تھی تاہم حکومت نے طاقت ملتے ہی آنکھیں دکھانا شروع
کردیں اور نتیجہ آج قوم کے سامنے ہے ۔ وزیراعظم کو جو پہلے سے چھوڑ چکے
ہوں،وہ کب تک ان کی طرف سے معذرت کرتے رہیں گے۔ اس طاقت کے بعد ان کے وزراء
کا لہجہ ہی بدل گیا ہے۔اعتزاز احسن پرلینڈ مافیا کی وکالت اورایل پی جی
کوٹہ لینے کاالزام لگایا، اس پر بات کرنا ان کا حق ہے۔ ایل پی جی کا
بزنسانکی اہلیہ کرتی ہیں انہیں ٹھنڈا ہونے کا مشورہ دینے والے خود جلتی پر
تیل کا کام کر رہے ہیں۔انہوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ وزیراعظم اپنے دائیں
بائیں دیکھیں، کہہیں آگ لگانے والے ان کے ارد گرد تو نہیں بیٹھے۔اعتزاز
احسن کی سیاست کو پچاس سال ہوگئے ہیں اور جنرل پرویز مشرف کو بھگانے میں
بھی ان کا کردار رہا ہے۔انھوں نے مشرف کے دور میں وزیراعظم بننے کی پیشکش
بھی ٹھکرا دی تھی ۔اعتزاز احسن کا کہنا بر محل اور درست تھا کہ جوشخص سیاست
کو تجارت بنالے اس کی کوئی عزت نہیں۔ |