یہ بات بلکل واضح ہے کہ تحریک
انصاف پاکستانی سیاست میں ایک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے کاموں
پر ابتدا میں تنقید ضرور ہوتی ہے مگر کچھ ہی دنوں کے بعد ناقدین خود ہی وہی
کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف کے قبل از انتخابات جلسوں
میں موسیقی کو تنقید کا نشانہ بنایا گا مگرتنقید کرنے والی جماعتوں نے خود
بھی اسی ٹریند کو فالو کیا۔ اسی طرح تحریک کے جلسوں میں ایک برقی تحریک
ہوتی ہے جو اس کے کارکنوں کو بارش،گرمی اور دیگر مشکلات میں بھی ثابت قدم
رکھتی ہے۔
لیکن لگ بھگ تین ہفتوں کے مشاہدے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اب
کپتان کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وہ اپنا مؤقف دے چکے ہیں اوردنیا
ان کے مطالبات کو سمجھ چکی ہے۔ چھ میں سے پانچ مطالبات مان لیے جا چکے ہیں
اور چھٹا مطالبہ جو کہ وریزاعظم کے استفعے کا ہے، وہ اس بنیاد پر بظاہر
جائز ہے کہ وزیراعظم کی موجودگی تحقیقات کی شفافیت مشکوک رہنے کا خدشہ ہے۔
لیکن اب جبکہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں ضامن بننے کی پیشکش کر رہی ہیں
تو یہ ڈیڈلاک ختم کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
تحقیقات کی شفافیت پر جماعت اسلامی اپنی ساکھ گروی رکھ رہی ہے، اس کی قدر
کی جانی چاہیے۔
یہاں یہ تحریک کو یہ بھی مشورہ دوں گا کہ اپنے استعفے واپس لے لے۔ پاکستان
میں آپ کے دھرنے کو ڈاکٹر قادری کے دھرنے سے زیادہ سنجیدہ لیا جاتا ہے۔ اس
کی بنیادی وجہ یہ تحریک بہرحال جمہوری نظاک ک حصہ ہے۔ اگر استعفے منظور کر
لیے گئے تو پھر تحریک میں اور ڈاکڑ صاحب کی جماعت میں کوئی فرق نہیں رہ
جائے گا۔
آخر میں پارلیمنٹ کے ممبران بالخصوص حکومتی اراکین سے گزارش ہے کہ وہ بھی
معملات کی نزاکت کو سمجھیں اور اگر واقعی اس مسلئے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو
اپنی تقریر سے تدبر اگلیں نا کہ زہر۔ |