اے وطن کے سجیلے جوانوں
(mohsin shaikh, hyd sindh)
ہر چھ ستمبر کی صبح سویرے لوگ
ہڈیارہ برکی باٹا پور اور واہگہ کی طرف نکل جاتے ہیں، اور عام لوگ ٹولیوں
اور گروپ کی صورت میں دفاعی جنگی سازوں سامان اور یاد گاروں کی طرف رخ کرتے
ہیں، جگہ جگہ جنگی ترانے گونجتے ہیں،چھ ستمبر 1965 کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
میجر عزیز بھٹی شہید کا نشان حیدر کا مقام شہادت مرجع خلائق بنا ہوتا ہے،
قریب ہی ایک گمنام سپاہی کی قبر بھی ہے، جس پر لوگ ہر سال چھ ستمبر کے دن
فاتحہ پڑھتے ہیں، بچوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے ہوتے ہیں، اور جوان بوڑھے
لوگوں کی آنکھوں میں ان شہیدوں کی یاد میں آنسو جھلملا رہے ہوتے ہیں،
شہیدوں کے اہل خانہ غمگین ہونے کے ساتھ فخر بھی کرتے ہیں، میں شہیدوں کے
ماں باپ پر زیادہ فخر کرتا ہوں، کہ جنہوں نے ایسے بہادر سپوتوں کو جنم دیا۔
جنہوں نے اس مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دی ان بہادر
جوانوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کردیا۔ اس دھرتی ماں کے لیے اپنے
آپ کو فنا کرکے تاريخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگے،
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہیں،
1965ء کی جنگ کو نصف صدی ہونے والی ہے، مگر قوم اس کے نو سٹلجیا سے آج تک
باہر نہیں نکل سکی، چھ ستمبر 1965ء کا یہ اہم سنگ میل ایسا لگتا ہے جیسے یہ
کوئی کل کا سانحہ ہوں، اس پر ہماری آنے والی نسلیں ہمیشہ فخر کرتی رہے گی،
بھارت کی بھر پور کوشش تھی کہ وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے
اگلے مورچوں کو روند ڈالے اور بھارتی فوج کا جنرل دن کے دس بجے باغ جناح کے
کلب میں فتح کا جام نوش کرنے کا ارادہ بنا چکا تھا۔ مگر بھارتی جنرل اپنے
ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا، پاک فوج نے بھارت کے نا پاک عزائم خاک
میں ملا دیئے تھے،
اے قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا میں پیش کرو،
اس شجاعت کا تجھے کیا میں صلا پیش کرو
چھ ستمبر کی اوائل صبح توپوں کی گھن گرج اور فضاء شاہینوں کی گھن گرج سے
گونج رہی تھی، عوام کا جذبہ دیدنی تھا، کھیتوں میں کئی مہینے پہلے سے ہی
پاک فوج کے جوانوں نے ڈیرے دال رکھے تھے، بارودی سرنگیں نصب کردیتے اور
اکھاڑ لیتے تھے، گائوں دیہاتوں کے لوگ عادی ہوچکے تھے، اور احتیاط سے چارہ
فصل بھی کاٹ لیتے تھے، فوجی جوان کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے، جنگ کے دوران
اس وقت کے جنرل صدر ایوب خان کی تقریر ریڈیو سے نشر ہورہی تھی، جب فیلڈ
مارشل ایوب خاں نے یہ جملہ کہا کہ جوانو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے
دشمن پر ٹوٹ پڑو تو عوام نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اور دشمن پر ٹوٹ پڑی یہ
تھا ولولہ انگیز جذبہ اتحاد عوام میں یہ جذبہ آج بھی اس مادر وطن کی قوم
میں بیدار ہیں، مگر اب قوم کے اتحاد میں قیام پاکستان جیسا اتحاد نظر نہیں
آتا-
اس کی بنیادی وجہ آج کے نا اہل حکمران ہیں، بوسیدہ جمہوریت ہے، کرپٹ بوسیدہ
نظام ہے، خاندانی حکمرانوں کا ملک پر راج ہے، ملک میں کرپشن کا دور دورہ
ہے، نا انصافی ہے، جرائم کی انتہا ہے، ملک میں جنگل کا قانون ہے، ادارے
کرپشن سے تباہی کا شکار ہیں بیور کریسی ہر ادارے پر حاوی ہیں، انصاف کہیں
ملتا نہیں، ملک اور مستقبل کے معمار نوکریوں سے محروم اور در بدر کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، اگر قیادت مخلص ہوں حکمران اہل اور قابل ہوں،
سادگی قناعت پسند ہوں تو بنتی ہیں اصل جمہوریت اور اصل جمہوریت کے ثمرات ہی
عوام کو ملتے ہیں، اصل جمہوریت ہی سے ملک و عوام ترقی خوشحالی استحکام کی
راہ پر گامزن ہوتے ہیں، اتحاد قائم رہتا ہے، بھائی چارہ بھی قائم رہتا ہے،
محبتیں بڑھتی ہیں،نفریتں دور بھاگتی ہیں، ملک و عوام شب و روز ترقی کرتے
ہیں، جمہوریت کو خودبخود فروغ ملتا ہے،
مگر مادر وطن میں جمہورت کی الٹی گنگا بہتی ہے، یہاں جمہوریت کے ثمرات عوام
کو ملنے کے بجائے حکمرانوں کو ملتے ہیں، یہاں جمہوریت عوام کے نام پر
حکمرانوں کے لیے قائم ہوتی ہے، خیر میں بات کررہا تھا، چھ ستمبر 1965 کی
جنگ کی، چھ ستمبر کے دوسرے دن فضا میں دو دھماکے ہوئے پتہ چلا کہ شیر دل
ہوا باز شاہین ایم ایم عالم نے لاہور کے اوپر سپیڈ بیریر کو کراس کیا ہے،
جس کی وجہ سے دھماکے ہوئے ہیں، ایم ایم عالم نے لاہور کے زندہ دلانوں کو یہ
پیغام دیا کہ آپ گھبرائیں نہیں پاک فوج پوری طرح چوکس ہے، اس کے بعد پچھلے
پہر شہر کے اوپر پاک فضائیہ اور بھارتی حملہ آور طیاروں کے مابین گھمسان کی
فائیٹ شروع ہوگی-
زندہ دلان لاہوریوں کے لیے تو جیسے یہ کوئی پتنگ بازی کے بو کاٹنے والا
منظر تھا۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے، کسی کو کوئی ڈر
و خوف ہی نہیں تھا کہ طیارے سے گرنے والا کوئی بم ان کے لیے موت کا سبب بھی
بن سکتا تھا، یہ تھا جذبہ اتحاد اور ایمان کی تازگی جب جذبہ اور ایمان کی
تازگی رگوں میں خون کی مانند دوڑے تو پھر کیا دشمن کا خوف اور پھر کیا اس
کے گولے بارود کا ڈر، لاہور کے مال روڑ پر ہر روز کوئی نہ کوئی جلوس نکلنے
لگا۔ ادیبوں شاعروں کی محفلیں ہونے لگی، صفدر میر اپنی تازہ نظم ترنم سے
پڑھ رہے تھے-
چلو واہگہ کی سرحد پر
وطن پر وقت آیا ہے،
وطن پہ کٹ مرجانے کا وقت آیا ہے یارو
میں شہید ہوں
پھر جلایا جائوں
پھر شہید ہوں
تو لوگوں کے جذبات سمندر کی طغیانی سے زیادہ تلاطم خیز نظر آتے تھے، لاہور
کے ریڈیو پر رات دن شاعروں کا جمگھٹا دیکھائی دیتا تھا۔ ہر شاعر اپنی تازہ
نظم کے تاثرات پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتا تھا، احمد ندیم قاسمی کی ایک
نظم کا مصرع دل کو لگتا ہے،
چاند اس رات بھی نکلا تھا،
مگر اسکا وجود اتنا بے رنگ تھا،
جیسے کسی معصوم کی لاش،
نظام دین نے اپنے پروگرام میں جیسے ہی یہ اعلان کیا کہ بھارت نے لاہور کے
ویران علاقوں میں اپنے فوجی اتار دیئے ہیں، تو چشم زدن میں اہل لاہور ڈنڈے
اور خواتین اپنے ہاتھوں میں کپڑے دھونے والے تھاپے لے کر دشمن کی جانب
دوڑے، مگر افسوس کہ کسی بھارتی فوجی سے مڈ بھیڑ نہ ہوسکی، جنگ کے تیسرے روز
قصور اڈے کے نزدیک سڑک کے کنارے کھیم کرن کے پاس فاتح شہیدوں کی لاشیں قطار
اندر قطار پڑی تھیں، شہیدوں کے جسد خاکی کو احتراما یہاں دفن کیا جانا تھا،
شہیدوں کے جسموں کی مہک سے زمین فضا اور زندہ دلانوں کی روحیں معطر ہورہی
تھی، میرے بہادر جوان شہید دھول سے اٹے چہروں کے ساتھ یوں لیٹے تھے، جیسے
ابھی ابھی انکی آنکھ لگی ہوں،
اے وطن کے سجیلے جوانوں،
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں،
خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں، اور اللہ کی
پاک ذات شہیدوں کو رزق فراہم کرتی ہیں، شہیدوں کے ترو تازہ نکھرے چہرے جن
پر صد رنگ بہاریں بھی قربان جائیں، یہ تھے زندہ شہید لاہور کے محافظ جنرل
سرفراز خاں بریگیڈیئر قیوم شیر بریگیڈیئر عطا محمد بریگیڈيئر امجد علی
چودھری، کرنل شفقت بلوچ بیگم شامی شہید میجر راجہ عزیز بھٹی کراچی کے شہید
ہوا باز شاہین راشد منہاس، اور اب مادر وطن کے آپریشن ضرب عضب کے تازہ
شہیدو کو بھی وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدو نے لہو سے
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدو کا
عرض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویروں
تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں، |
|