سیلاب: ریسکیو آپریشن جاری....سندھ کے 45 مقامات حساس قرار

دریائے چناب کی سیلابی لہروں سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ سرگودھا، خوشاب، چنیوٹ اور جھنگ کے اضلاع میں مزید 4 سو سے زاید گاﺅں ڈوب گئے۔ دریائے جہلم میں بھی سیلابی صورتحال (ڈیڑھ لاکھ کیوسک سے زاید) ہے، جس نے خوشاب اور سرگودھا میں دریا کے کنارے دیہات کو متاثر کیا۔ ان دونوں دریاﺅں کے تباہ کن سیلابی ریلے آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر تریموں ہیڈورکس میں ملیں گے۔ محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ کے مطابق تریموں ہیڈورکس بیروان میں 12 ستمبر تک انتہائی بلند سیلابی صورتحال برقرار رہے گی، پیر کی شام کو وہاں پانی کا بہاﺅ دو لاکھ 24 ہزار کیوسک تھا۔ اٹھارہ ہزاری حفاظتی پشتے میں شگاف ڈالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، تاکہ تریموں ہیڈورکس پر کچھ دباﺅ کم کیا جاسکے۔ تریموں میں پانی کی گنجائش 7 لاکھ کیوسک ہے اور اسے تحفظ دینے کے لیے حفاظتی پشتے میں شگاف ڈالنے سے تحصیل اٹھارہ ہزاری کے ڈھائی ہزار دیہات میں سیلاب کا خطرہ ہے۔ اس وقت چناب اور جہلم نے تحصیل جھنگ کے علاقوں مسان اور چھیلا کو ڈبونا شروع کر دیا ہے، جبکہ 60 دیہات 6 سے 10 فٹ گہرے پانی میں ڈوب چکے ہیں اور لوگوں کو بلند مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ سرگودھا کے 160 دیہات میں سے بیشتر پانچ فٹ گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دریائے جہلم پر منگلا کے مقام پر پانی کی آمد 8 ہزار کیوسک اور اخراج 54864 کیوسک ہے۔ ہیڈ رسول پر پانی کی آمد 74488 کیوسک اخراج 71788 کیوسک ہے۔ شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے بعد دریائے راوی اور دریائے ستلج بھی بپھر گئے ہیں۔ دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی کے مقام پر پانی کی آمد 131800 اور اخراج 118000 کیوسک ہے، جبکہ سدھنائی پر پانی کی آمد 24332 اور اخراج 11632 کیوسک ہے۔ دریائے راوی میں داد بلوچ کے مقام سے پانی کا بہاو ¿ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے ستلج میں ہیڈ سلیمانکی پر پانی کی آمد 21060، اخراج 15848 کیوسک ہے۔ دریائے ستلج میں ہیڈ سائفن کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج 15 ہزار531 کیوسک ہے، جبکہ ہیڈ اسلام پر بھی پانی کی آمد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وزیر دفاع اور وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں کی مثال گزشتہ ایک صدی میں نہیں ملتی۔ 5 ستمبر کو منگلا میں پانی کا بہاؤ 3 گنا بڑھ گیا۔ اب تک 8 لاکھ 61 ہزارکیوسک پانی ہیڈ مرالہ سے گزر چکا ہے۔ منگلا میں پانی بڑھنے پر 5 ستمبر کو 5 لاکھ کیوسک پانی خارج کیا گیا۔ سیلاب اور بارشوں سے 8 ستمبر تک 328 ہلاکتیں ہوئیں، 1053 گاﺅں، 3 لاکھ 25 ہزار ایکٹر پر پھیلی فصلیں تباہ ہوئیں۔ سیلاب سے 4 لاکھ آبادی متاثر ہوئی۔ 191 مکان مکمل طور پر تباہ اور 1242 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اب تک 18 ہزار 217 لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور اس وقت دو ہزار کے قریب لوگ ریلیف کیمپوں میں موجود ہیں۔ متاثرین کی مدد کے لیے 217 ریلیف کیمپ کام کر رہے ہیں، جبکہ 17 ہزار سے زاید افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ 485 ہیلتھ کیمپ بھی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پیر کے روز وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولا کوٹ کے علاقے میں بارشوں سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سرگودھا کے سیلاب سے متاثرہ علاقے کوٹ مومن کا دورہ کرتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ نقصانات کا تخمینہ لگائیں، تاکہ متاثرہ افراد کو فوری ریلیف فراہم کیا جاسکے۔

پاک فوج کی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں پانچویں روز بھی جاری رہیں۔ سیلاب میں گھرے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، متاثرہ افراد میں راشن کی تقسیم اور طبی امداد بھی دی جا رہی ہے۔ پاک فوج کے جوان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کے لیے ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں۔ پاک فوج نے منگل تک سیلاب میں گھرے 16383 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل سلیم نواز نے جلالپور بھٹیاں اور پنڈی بھٹیاں کا دورہ کیا، جہاں سے 3355 افراد کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ فوج کی جانب سے متاثرہ افراد میں خوراک بھی تقسیم کی گئی، اب تک 5576 کلوگرام خشک راشن تقسیم کیا گیا ہے۔ وزیر آباد اور ہیڈ خانکی کے علاقوں میں 3 ہزار اور سیالکوٹ میں سیلاب سے متاثرہ علاقے بجوات میں ایک ہزار فوڈ پیکٹ تقسیم کیے گئے۔ آرمی کے ریلیف کیمپوں میں 400 افراد کو طبی امداد بھی دی گئی ہے۔ پیر کو فوجی اہلکاروں نے 1500 افراد کو جلال پور بھٹیاں، پنڈی بھٹیاں، حافظ آباد، وزیرآباد، وانی تارڑ، رسول نگر، چنیوٹ، کوٹ مومن اور منڈی بہاﺅ الدین کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے نکالا اور خوراک کے 10 ہزار پیکٹ فضا سے مختلف مقامات پر پھنسے لوگوں کے لیے گرائے، فوجی اہلکار ملتان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، ساہیوال اور تریموں ہیڈورکس بھی پہنچ گئے، تاکہ کسی بحران کی صورتحال سے نمٹا جاسکے، جبکہ بہت سے دیہات میں سیکڑوں افراد تاحال انخلاءکے لیے امداد کے منتظر ہیں، یا کمر تک گہرے پانی میں اپنے مویشیوں کے ساتھ چل کر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ متاثرین کے مطابق ان کو اتنے شدید سیلاب کی توقع نہیں تھی، سیلاب اچانک آیا اور ہمیں اپنے مال مویشی وغیرہ کو بچانے کا وقت تک نہیں ملا، اب ان اس کے پاس کھانے کو خوراک تک نہیں ہے۔

دوسری جانب صوبہ سندھ میں اگلے دو ہفتوں میں گڈو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے، جہاں سے محکمہ آبپاشی کے مطابق 7 لاکھ کیوسک سے زاید پانی کا گزر ہو سکتا ہے۔ سندھ میں بحالی اور آفات کی انتظام کاری کے محکمہ نے ایک تحریری الرٹ جاری کیا ہے، جس میں 17 اضلاع کی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ دریائے سندھ کے کچے سے لوگوں کے انخلا کی پیشگی منصوبہ بندی کرلیں اور لوگوں کو محفوظ جگہ تک پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹرانسپورٹ کا بندوسبت کیا جائے۔ بحالی اور آفات کی انتظام کاری کے محکمہ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ کچے کے لوگوں کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے بروقت اعلان کا بھی انتظام کیا جائے اور اس سلسلے میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کو الرٹ رہنے کی درخواست کی گئی ہے، تاکہ بوقت ضرورت لوگوں کے انخلا میں ان کی مدد حاصل کی جاسکے۔ متعلقہ اضلاع میں محکمہ صحت کے تمام مراکز میں سانپ کے کاٹنے کے بچاو ¿ کی ویکسین سمیت تمام ادویات کی موجودگی کو یقین بنانے اور محکمہ لائیو اسٹاک کو جانوروں کے چارہ کا بندوبست رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دریائے سندھ کے بائیں اور دائیں جانب حفاظتی بندوں پر 45 مقامات کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے، جہاں پتھروں کی پچنگ سے حفاظتی بندوں کو مضبوط کرنے اور 24 گھنٹے گشت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی یعنی سیڈا کے ایم ڈی زاہد جونیجو کے مطابق 10 ستمبر سے 15 ستمبر تک اونچے درجے کا سیلاب رہے گا، امکان تو 7 لاکھ کیوسک سے زاید پانی کی آمد کا ہے، لیکن تیاری سپر فلڈ کی ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں پہلے بھی شگاف پڑ چکے ہیں، جہاں دریا ڈائریکٹ حفاظتی بند کو ہٹ کرتا ہو، کوئی بند کمزور ہو یا وہاں سے کوئی کراسنگ ہو۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق سکھر اور گڈو بیراج کے درمیان پانی کا دباؤ رہے گا، اس کے درمیان میں ٹوڑھی اور قادر پور حفاظتی بند زیادہ حساس ہیں۔ یاد رہے کہ 2010 میں ٹوڑھی بند کو شگاف پڑنے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ گڈو بیراج سے پانی کے انخلا کی گنجائش 12 لاکھ کیوسک ہے، جبکہ 2010 کے سیلاب میں یہاں سے ساڑھے 11 لاکھ کیوسک پانی کا گزر ہوا تھا، اسی طرح سکھر بیراج سے انخلا کی گنجائش 9 لاکھ کیوسک ہے اور سپر فلڈ میں یہاں سے ساڑھے 11 لاکھ کیوسک پانی کا گزر ہوا تھا۔ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے کوہ سلیمان سے آنے والے برساتی پانی اور موسلا دھار بارش نے 2010 میں سندھ میں صورتحال کو سنگین کر دیا تھا، سندھ میں محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے ہفتے بارشوں کا امکان موجود ہے۔ 2010 کے سپر فلڈز کے بعد سندھ میں ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی بندوں کی مرمت کا کام کیا گیا تھا، لیکن اگلے 3 سال سیلابی صورتحال کا سامنا نہیں ہوا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644629 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.