جموں کشمیر کے وسائل پر قبضہ اور آبی جارحیت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کو شہ رگ قرا ر دیا تھا ۔ آج ملک میں بدترین سیلاب دیکھ کراس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اس وقت کہی گئی بات کس قدر درست ہے؟ دنیا کایہ خوبصورت خطہ جسے جنت ارضی کشمیرکہا جاتا ہے کا فطری الحاق بھی پا کستان کے ساتھ بنتا ہے۔اگر کشمیری قوم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتی ہے تو وہاں سے بہنے والے سارے دریا ؤں کا رخ بھی پاکستان کی جانب ہے مگر افسوس کہ پچھلے چھیاسٹھ برس سے بھارت سرکار نے آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور نا صرف کشمیریوں پر بدترین مظالم کے ذریعہ ان کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں بلکہ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم تعمیر کر کے وطن عزیز پاکستان کو دفاعی لحاظ سے بھی سخت نقصانات سے دوچار کیاجارہا ہے۔ بھارت سرکار کشمیر کے ریاستی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔زمین اور پانی کشمیر کا استعمال ہو رہا ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی اور پانی استعمال میں لاتے ہوئے بھارت اپنے ریگستان آباد اور شہر روشن کر رہا ہے مگرکشمیری عوام بجلی سے محروم ہیں۔بھارت کی ڈیم تعمیر کرنے والی سب سے بڑی کمپنی این ایچ پی سی کے زیر انتظام کشمیر میں کئی بڑے منصوبہ جاتے ہیں جس کے عوض کشمیرکو صرف بارہ فیصد بجلی ملتی ہے اور ریاستی حکومت کو دو ہزار پانچ سو کروڑ روپے کی بجلی خرید کر خرچ کرنا پڑتی ہے جبکہ صارفین سے بجلی فیس کی صورت میں محض پانچ سو چھہتر کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے بقیہ رقم خسارے میں جاتی ہے۔ موسم سرما میں وادی کشمیر کو تقریباً ساڑھے چودہ سو میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے مگرریاستی حکومت صرف سات سو میگاواٹ مہیا کرسکتی ہے۔کشمیر میں بنائے گئے تین بڑے بجلی گھروں سے شمالی بھارت کو بجلی فراہم کی جاتی ہے اور جن کی زمین اور پانی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے وہ گھپ اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں کشمیریوں کی جانب سے زبردست احتجاجی مظاہرے بھی کئے جاتے ہیں مگر بھارت سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ریاست جموں کشمیر کو دفعہ تین سو ستر کے تحت خصوصی حیثیت حاصل ہے اور ریاستی حکومت کی اجازت کے بغیر یہاں کی اراضی کو استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے تاہم بھارتی ڈیم تعمیر کرنے والی کمپنی این ایچ پی سی نے مقبوضہ کشمیر میں قائم کردہ تمام پن بجلی منصوبوں کو اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے اور نا تو اس کی رائیلٹی کشمیرکو دی جاتی ہے اور نہ ہی معاہدوں کی مدت پوری ہونے کے باوجود یہ پروجیکٹ ریاستی حکومت کے حوالے کئے جاتے ہیں۔ حریت جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے اکثر و پیشتر احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ریاستی اسمبلی میں بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھرپور آواز اٹھائی جاتی رہی جس پر کٹھ پتلی حکومت نے این ایچ پی سی کو سلال ہائیڈروپروجیکٹ کے ضمن میں معاہدے سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کا کہاتو مذکورہ کمپنی نے صاف طور پر انکار رکرتے ہوئے کہا کہ یہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں ان کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ این ایچ پی سی نے اپنے جوابی خط میں لکھا کہ بھارت ایک طاقت ور ملک ہے اور اس کا حق بنتا ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر کی اراضی پر کچھ بھی تعمیر کرسکتاہے اور اس سلسلے میں اس ملک کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ این ایچ پی سی بھارت میں بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے ،لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مرکزی حکومت کی ایک ذیلی کارپوریشن ہے جسے محض تجارتی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ وہ کوئی ایسا حکومتی ادارہ نہیں ہے عوامی نمائندگی کا دعویدار ہو۔ اس کے برعکس ریاستی اسمبلی اور اس کے اندر بیٹھنے والے اراکین بشمول وزیراعلیٰ کے‘ اس طرح سے بے بسی کا اظہار کرنا اْن کی بے چارگی ظاہر کرتاہے۔کشمیری جماعتیں اورسول سوسائٹی این ایچ پی سی کو کافی عرصہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مشابہت دیتے آئے ہیں ۔ یہ بات بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ این ایچ پی سی نے سلال، اوڑی (اول)اور ڈول ہستی پروجیکٹوں کی تعمیر پر خرچ کی گئی رقوم کئی گنامنافع سمیت وصول کرلی ہے،لہٰذا معاہدوں کے اعتبار سے یہ پروجیکٹ ریاستی ملکیت ہیں۔390میگاواٹ صلاحیت کے حامل ڈول ہستی پروجیکٹ کے بارے میں رنگا راجن کمیٹی نے یہ سفارش پیش کی تھی کہ اسے ریاستی سرکار کی تحویل میں دیا جاناچاہئے۔لیکن چھ برس گزرنے کے باوجود بھی اْن سفارشات پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ این ایچ پی سی ایک ایسی استحصالی کارپوریشن ہے جوجموں کشمیر کے اقتصادی وسائل پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھی ہے اور اپنے استحصالی منصوبے پر عملدرآمد سے بازنہیں آرہی ۔ 1975میں سلال پروجیکٹ کی تعمیر سے متعلق ریاستی حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد بھارت کی مرکزی حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھااس کے مطابق مذکورہ پروجیکٹ کی فنڈنگ بھارتی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ پروجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی میں ریاست کا حصہ50فیصد اور باقی ماندہ50فیصد بجلی سے حاصل ہونے والا منافع ریاستی اور مرکزی حکومت کے درمیان تقسیم کرنا طے پایا تھاجبکہ بعد ازاں اس کے مالکانہ حقوق ریاست کو منتقل کرنا تھے تاہم ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس نا صرف یہ کہ اس پروجیکٹ پر کبھی بھی ریاست کا کوئی اختیار نہیں رہا بلکہ این ایچ پی سی احسان جتلا کر12فیصد بجلی ریاست کو رائلٹی کے طور پر دے رہی ہے اور جب کبھی بھی سلال سمیت کسی دوسرے پروجیکٹ کی منتقلی کی بات کی تو بھارت سرکار کی طرف سے بزور بازور ریاستی حکومت کو خاموش کروادیاجاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کو سالانہ اربوں روپے کا ہونیو الا نقصان ریاست کے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مرہون منت ہے جنہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر پوری کشمیری قوم کو نقصان پہنچا یا ہے۔ بہرحال بھارت مقبوضہ کشمیر کے وسائل کی لوٹ مار کی طرح انہی غیر قانونی ڈیموں سے پانی چھوڑ کر پاکستان کو ہر سال سیلاب کی بدترین صورتحال سے دوچار کر رہا ہے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو فی الفور سلامتی کونسل سمیت تمام عالمی فورموں پر اٹھائے اور بھارتی آبی جارحیت کو پوری دنیاکے سامنے بے نقاب کیاجائے۔ حالیہ سیلاب کو تاریخ کا خوفناک سیلاب قراردیا جارہا ہے جس سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیونکہ سیلابی ریلے ملتان سے ہوتے ہوئے سندھ میں داخل ہوں گے اور پتہ نہیں کہاں کہاں فصلوں اور لوگوں کے گھروں کو بربادی سے دوچار کریں گے۔ پاک فوج، جماعۃالدعوۃ، پاکستانی بحریہ اور دیگر ادارے اور تنظیمیں سیلاب متاثرین کی بھرپور امداد کر رہی ہیں۔ میڈیاسے وابستہ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے بعد جماعۃالدعوۃ ہی وہ تنظیم ہے جو سب سے بڑا ریلیف و ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی کھل کر مددکرے جن کے رضاکار اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر دور دراز کے ان دیہاتوں اور علاقوں میں کشتیوں کے ذریعہ پہنچ کر لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں جہاں ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے۔ کھلے آسمان تلے موجود بے یارومددگارلاکھوں متاثرین کی مدد کیلئے جماعۃالدعوۃ کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سے ان نمبرز0321-8444992، 0300-4455591 پر رابطہ کیاجا سکتا ہے۔
 
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.