لیکن! ایک طبقہ ایسا بھی ہے……

1965کی پاک بھارت جنگ کو48سال کا ایک عرصہ بیت چکا ہے 6ستمبر کو بھارت نے اپنے ناپاک کی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان پر حملہ کر دیا یہ وہ وقت تھا کہ جب پاک فوج کشمیر میں مصروف عمل تھی کہ ہڈیارہ کے مقام سے بھارتی ممولوں نے ٹینک توپوں سے مسلح ہو کر حملہ کر دیا مقصد یہ تھا کہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاکر لاہور پر قبضہ کرلیا جائے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستانی شاہین ان ممولوں کو دبوچنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی توپوں کے دھانے کھول دئیے اور بھارتی افواج کی ایک مکمل بریگیڈ کو پاکستانی فوج کی ایک کمپنی کے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا اور دنیا پر بھی واضح کردیا کہ پاکستانی شاہین ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونے کیلئے پیدا ہوئے ہیں ۔یہ بات دنیا کی تاریخ میں ریکارڈ کے طور پر درج کرلی گئی کہ پاکستان فوج ایک ناقابل تسخیر فوج ہے میجر عزیز بھٹی شہید میجر حبیب شہید اور سینکڑوں افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ اہلیان لاہور اور گلوکاروں، شاعروں، اداکاروں نے بھی پاک آرمی کے شانہ بشانہ اپنی اپنی استطاعت و طاقت سے بڑھ کر کام کیا اور افواج پاکستان کا حوصلہ بڑھا۔

آج بھی ایک طرف پاک فوج شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف بر سر پیکار ہے دہشت گردی کے عفریت نے ملک کے چپے چپے میں تباہی و بربادی کے پنجے گاڑ دئیے ہیں ۔ افواج پاکستان ،سرکاری تنصیبات ،بازاروں، مساجد اور اجتماعات پر حملہ روز کا معمول بن چکاہے ۔ ترقی معکوس کا عمل جاری ہے۔ معیشت کو ہیرا پھیری اور لفظوں کی لفاظی سے مستحکم کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ حکومتی اور سول انتظامیہ کی بے بسی اور سیاسی مصلحتیں دہشت گردوں کے حوصلے مزید پختہ کئے دے رہی ہیں ایسے میں جنرل راحیل شریف نے ہماری قابل فخر فوج کے ساتھ آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو دہشت گرد وں پر خود دہشت طاری ہو گئی ۔اب وہ جائے پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہیں ۔مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ تقریبا 900کے قریب دہشت گرد نشان عبرت بنا دیئے گئے ۔ ان تمام معاملات میں فوج اور عوام پاکستان ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں ۔ جبکہ میڈیا بھی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کررہا ہے۔ آپریشن کا نتیجے میں تقریبا دس لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز فی الوقت بے گھر ہو چکے ہیں ۔ فوج اور حکومت ان کی بحالی کیلئے سر گرداں ہیں ۔ ہر طرف سے افواج پاکستان پر شاباشی ،تعریف و تحسین کے ڈونگرے بر سائے جارہے ہیں ۔دوسری طرف سیلاب کی تباہی کاریوں سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورت حال میں فوجی جوان شب و روز امدا دی کاروائیوں میں مصروف ہیں اور متاثرین سیلاب کے جان و مال کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے تمام ذرائع بروئے کارلا رہے ہیں تاکہ پاکستانی عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔

لیکن !لیکن !ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے یہ سب ہضم نہیں ہو رہا ہے ۔ اسے یہ قطعی برداشت نہیں کہ افواج پاکستان کا مورال بلند ہو۔ان کا وقار ،اہمیت ،حیثیت اور افادیت واضح ہو۔ فوج کو appreciation ملے ۔یہ وہ سیاسی ٹولہ ہے جو کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی افواج پاکستان کو برا خیال کرتا ہے ۔ ان کے مطابق آپریشن ضرب عضب جرم و ظلم ہے ۔ ان کے مطابق فوج کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے جیسے کہ ہماری پولیس ہے۔ ان کے مطابق فوج کو بھی پولیس کی طرح ان کا تا بعدار ہونا چائیے اگر وہ دن کو رات کہیں تو رات کہا جائے اور اگر سیاہ کو سفید کریں تو ان کا نہ رو کا جائے ۔ یہ سیاسی ٹولہ عرصہ دراز سے اس پیٹ کے درد میں مبتلا ہے اورفوج کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ محمود اچکزئی،ساجد میر،زاہد خان ،عبدالمالک،عبدالقادر بلوچ ،مولانا فضل الرحمن و دیگر اسی قماش اور ذہنیت رکھنے والے لوگ اورمیڈیا کا ایک خاص گروپ نے افواج پاکستان کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ یہ جرگہ ٹائپ کے لوگ ہیں۔ان کی اپنی ترجیحات اور پسند ناپسند قانون سے بالا ہیں۔پاکستان کے آئین و قانون اور عدلیہ کے فیصلوں کو نہ ماننا ان کااحترام نہ کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو ہم کہیں، ہم کریں صرف اور صرف اسی کوہی سنا اور مانا جائے۔ان لوگوں کے سامنے پولیس کی حیثیت ایک وسدے یا غلام سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پولیس ان کے فیصلے کے سامنے چوں چراں کی جرات نہیں کرسکتی، تو ان کا مطمع نظر بھی یہی ہے کہ افواج پاکستان بھی ان کے گھر کی باندی بن کر رہ جائے۔ان کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہو۔چونکہ ایسا نہیں ہوسکتا اس لئے وہ پارلیمنٹ میں دھونس دھاندلی کی بنا پر گھس آتے ہیں اور جمہوریت جمہوریت کے کھیل میں فوج کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔حالانکہ ان میں سے اکثر کے خلاف ملک دشمن عناصر کے ساتھ روابط بھی منظر عام پر آچکے ہیں کوئی بھارت سے پینگیں بڑھا رہا ہے تو کسی کے تعلقات افغانستان آرمی سے ہیں کوئی امریکہ کی ڈوری سے بندھا ہے تو کوئی برطانیہ کا حامی ہے۔کوئی الگ ملک کا حامی ہے تو کسی نے اپنی ہی فورس بنارکھی ہے۔ پاکستان کے بارے میں ان کے بیانات و خیالات بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں مگران کو کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ ان کے ساتھ جمہوریت کی فیت لگی ہوئی ہے۔لہذا اگر انہیں جمہوریت اور اپنے روابط اتنے ہی مرغوب ہیں تو پھر انہیں پاکستان آرمی کے بارے میں بھی ہرزہ سرائی کا کوئی حق نہیں پہنچتا اس لئے انہیں اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211830 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More