مسلمانوں کا سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے!
(Shakeel Rasheed , mumbai )
مہاراشٹر میں ’مجلس اتحاد
المسلمین ‘ کی آمد کا مطلب اور مقصد ایک تجزیہ
دیر آیددرست آید !
مسلم لیگ کے بعدمجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم ) نے بھی مہاراشٹرکے
انتخابی اکھاڑے می ںکود پڑنے کا اعلان کردیا ہے ۔جہاں تک ریاست مہاراشٹرکا
تعلق ہے یہاں مسلمان کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن انہیں ہمیشہ اس بات کی
شکایت رہی ہے کہ فرقہ پرستوں کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہوئے وہ سیکولر سیاسی
پارٹیوں کو ووٹ دے کران کی حکومت بنواتودیتے ہیں مگراِن حکومتوں سے انہیں
انصاف نہیں ملتا اور ایسے مسلم لیڈر‘ان کے سروںپرتھوپ دیئے جاتے ہےں جوہائی
کمان کے اشارے پر ہی کام کرتے ہیں ‘ ان کے دل میں اپنی قوم کا نہ کوئی غم
ہوتاہے نہ کوئی فکر۔ لیکن ایم آئی ایم کا جہاںتک تعلق ہے ‘ اس نے آندھرا
پردیش اوراب تلنگانہ میں اپنی کارگذاری سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مسلمانوں
سمیت تمام ہی اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہے ‘غالباً اسی لیے وہاں
فسادات کم ہوئے ہیں اوربھائی چارے کا ماحول بنا ہوا ہے اوروہاں کے مسلمان
وہاں ترقی کی دوڑمیںبرادرانِ وطن کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایم آئی
ایم نے کبھی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا اورنہ ہی مسلمانوں کے مسائل پر
کوئی سمجھوتہ کیا اورنہ ہی کبھی اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ اقتدار کے حصول
کے لیے نام نہاد سیکولرسیاسی پارٹیوں کا دامن تھامے ۔ ہونا تویہ چاہئے
تھاکہ ایم آئی ایم بہت پہلے مہاراشٹر میں قدم جمالیتی ‘ ایک موقع ایسا
آیابھی تھا۔ قارئین کویادہوگا کہ ’شاہ بانو مقدمہ ‘ سے سارے ملک میں ایک
طوفان برپا تھا ۔ لگ رہا تھا کہ سرکار کی طرف سے مسلم پرسنل لا ءمیں
تبدیلیاں لانے کی کوشش ہوگی۔ مسلمان ‘حکومت کے خلاف تھے اورسارے ہی ملک میں
ایک تحریک شروع ہوگئی تھی ۔ مسلم پرسنل لا ءکی حفاظت کے لیے مسلمان اورمسلم
سیاسی لیڈران (دانشوران وعلمائے کرام ) میدان میں کودپڑے تھے ۔ ابھی یہ
طوفان شباب ہی پرتھا کہ یہ بات سامنے آئی کہ مرکزی حکومت کے سامنے تمام
حقائق پیش کردیئے گئے ہیں اوراب حکومت مسلم پرسنل لا ءاورشاہ بانو مقدمہ سے
متعلق کوئی ٹھوس قدم اٹھانے والی ہے ۔یعنی یہ کہ مسلم پرسنل لا ءمیں تبدیلی
ہوسکتی ہے اور شاہ بانو مقدمے میں عدالتی فیصلے کوقبول کرنے کا مسلمانوں
کوپابند کیاجاسکتاہے ۔ احتجاجیوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامِل تھے جویہ
چاہتے تھے کہ مسلم پرسنل لا ءکے نام پرجوماحول تیارہوا ہے اس کو مدنظررکھتے
ہوئے مسلمانوں کی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیاجائے تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت
مسلمانوں کے خلاف اقدام کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اس تحریک کا ہیڈکوارٹر ممبئی
تھا‘ کئی صحافی اورنوجوان لیڈر اس تحریک کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے
‘انہوںنے طے کیا کہ ایک تاریخی جلوس اس سلسلے میں نکالا جائے ۔ اس وقت
مولانا عبیداللہ خان اعظمی سیاست داں نہیں عالم کی حیثیت سے معروف تھے ۔ وہ
بہت اچھے مقرر تھے ۔ وہ تحریک میں شامِل بھی ہوئے اورتقریریں بھی کیں لیکن
ان تقریروں کی وجہ سے ریاستی حکومت نے ان پرپابندی عائد کردی۔ اب سوال یہ
تھاکہ اس تحریک کی لگام کس کے ہاتھوں میں سونپی جائے جواس عوامی تحریک
کوسوجھ بوجھ سے آگے بڑھاسکے۔ اس تحریک میںشریک نوجوان لیڈروں نے مختلف مسلم
رہنماؤں سے بات کی لیکن ماحول اس قدر اشتعال انگیزتھااورنوجوانوں کے جذبات
میں کچھ ایسا جوش تھاکہ میدان میں اترنے والے لیڈروں کولگتا تھا کہ وہ
حالات کنٹرول نہیں کرسکیں گے۔ مولانا بخاری نے معذرت کرلی۔ اب ایک ایسے نام
کی تلاش تھی جواس تحریک کی قیادت کرسکے۔ بعدمیں اتفاق سے مولانا سید ہاشمی
میاں اس احتجاج کی قیادت کے لیے تیارہوگئے۔اس دوران تحریک کے ذمے داران نے
ایم آئی ایم کے اُس وقت کے سربراہ سلطان صلاح الدین اویسی سے دہلی میں اشوک
روڈپرواقع ان کی رہائش گاہ پر رابطہ قائم کیا ‘ اویسی مرحوم میں قوم کی
خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہوا تھا ‘ انہیںیہ پرواہ نہیںتھی کہ احتجاج کی
قیادت کرنے کے نتیجے میں ان کے خلاف حکومت مہاراشٹر کیا کارروائی کرے گی یا
احتجاج کا رنگ کیا ہوگا ‘ انہوں نے جلوس کی قیادت کی حامی بھرلی ۔ اُن دنوں
وہ حیدر آباد کے ایم پی تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس جلوس کا ایک سرا فاؤنٹن
تو دوسرا سرا جھولا میدان (مدنپورہ ) پرتھا۔ زوردار تقاریر کے بعداجلاس
اختتام کو پہنچا۔ جلوس نے مہاراشٹر کی سیاست پرگہری چھاپ چھوڑی مگرافسوس کہ
بعد میں مسلمانوں کے اس عوامی اتحاد کوکوئی بھنا نہیں سکا۔ ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ مرحوم اویسی ان دنوں ممبئی اورمہاراشٹر میں مجلس اتحاد
المسلمین کی داغ بیل ڈالتے ....مگردیرآیددرست آید۔ اب ان کے صاحب زادوں
بیرسٹراسدالدین اویسی ایم پی اورحیدر آباد سے ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی
اکبرالدین اویسی نے مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات میں ایم آئی ایم کے
امیدواروں کواتارنے کا تہیہ کرلیاہے ۔ اس سے قبل بھی وہ مہاراشٹر کے
ناندیڑعلاقے میں کارپوریشن کا الیکشن لڑچکے ہیں اورکافی سیٹیں جیت کر وہاں
کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن کارپوریشن اوراسمبلی کے انتخابات میںکافی فرق ہوتاہے۔
مہاراشٹرکے اسمبلی انتخابات اس بارکافی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ بی جے پی
مرکزمیں برسرِ اقتدار ہے ‘نریندرمودی وزیراعظم ہیں ۔مہاراشٹر میں لوک سبھا
کے الیکشن میں بی جے پی نے زیادہ سے زیادہ سیٹوں پرکامیاب ہوکر کانگریس
‘این سی پی اورسماج وادی پارٹی نیزدیگر سیکولر پارٹیوں کو سبق سکھادیا
اوران کی اوقات دکھادی ہے اوراب مہاراشٹرپرقبضہ کرنے کے لیے پوری طرح سے
تیار ہے ۔ شیوسینا سے اس کا اتحاد قائم ہے ‘ امیت شاہ مہاراشٹر کے دورے
کررہے ہیں اور نریندرمودی کی پوری کوشش ہے کہ وہ یہاں بھی اپنی کامیابی کا
جھنڈا گاڑیں۔ بی جے پی نے مسلم ووٹروں کورجھانا شروع کردیاہے ۔مسلم لیڈراور
نام نہادعلمائے کرام کی خریدوفروخت شروع ہے۔
ڈمی مسلم امیدواروں کومیدان میںاتارنے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ
مسلمانوںکے ووٹ بی جے پی کے فائدے کے لئے بٹ سکیں۔ اس طرح کے ماحول میں کسی
مسلم پارٹی کا اکھاڑے میں اترنا مسلمانوں کے لیے سودمند بھی ثابت ہوسکتاہے
اور نقصان دہ بھی ۔ نقصان دہ اس معنیٰ میں کہ کئی مسلم سیاسی پارٹیوں کے
میدان میں اترنے سے مسلم ووٹوں کا بکھراؤ یقینی ہوجائے گا اورشیوسینا ‘بی
جے پی کا فائدہ ہوگا ‘ کانگریس ‘این سی پی خسار ے میںرہے گی۔ مگرسوال یہ ہے
کہ کیا اس سے قبل سیکولر‘مسلم دوست نام نہاد سیکولرپارٹیوں نے مسلمانوں کے
ووٹ نہیں کاٹے ہیں؟کاٹے ہیں‘صرف اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے۔ اس سے
مسلمانوں کا کیا نقصان یا ان پارٹیوں کا کیا فائدہ ہوا ‘ یہ سب کے سامنے
روزِ روشن کی طرح عیاںہے ۔اوراگر سیکولرپارٹیاںہاریں بھی تومسلمانوں کا کیا
نقصان ہوگا ؟
کانگریس اوراین سی پی کے دورِ حکومت میں مہاراشٹر کے مسلمانوں کی حالت کوئی
سدھری نہیںہے ۔آج بھی وہ نا انصافیوں کے شکارہیں اور اگریہ پارٹیاں
پھرجیتیں تویہ کوئی طے نہیں کہ مسلمانوں کے حالات بدل جائیں گے۔ مسلمانوں
کا احسان ان پارٹیوں نے کبھی تسلیم نہیں کیاہے ۔وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلم
سیاسی پارٹیاں کھل کرمیدان میں کود پڑیں اورمسلم ووٹروں کومتحد کریںتاکہ وہ
مرکزی اورریاستی حکومت سے سودے بازی کی پوزیشن میں آسکیں اوروہ فائدہ جونام
نہاد سیکولرعناصر کو پہنچ رہا ہے وہ براہ ِ راست عام مسلمانوں کو پہنچے۔ اس
سے قبل بھی مہاراشٹرمیں مسلم ووٹروں کے نام پرسماج وادی پارٹی انتخابی
اکھاڑے میں اپنے اثرات دکھاچکی ہے ‘اس نے کارپوریشن سے لے کر اسمبلی تک
‘کئی سیٹوں پر قبضہ بھی کیا لیکن اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے
توافسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ‘ ایسی مسلم نواز پارٹیوں کا جیتنا
اورہارنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ جہاں تک ایم آئی ایم کا تعلق ہے یہ پارٹی
اوراس کے لیڈر آزمائے ہوئے ہیں ‘وہ بے دھڑک مسلم مسائل پر آوازاٹھانے کی
پوزیشن میں ہیں۔ ممبئی آکراکبرالدین اویسی نے مسلمانوں سے ’متحد ‘ رہنے کی
اپیل کی ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ انہوںنے جذباتی باتیں کی توہیں
مگراقتدار میںساجھے داری کے لیے سیاسی طورپرمسلمانوں کو متحد اورمضبوط کرنے
کی ضرورت پربھی زوردیا ہے ۔ اورآج یہ مسلمانوںکی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔مسلمانوں
کو ان سارے حقائق پر غورکرنا ہوگا اوریہ ثابت کرنا ہوگاکہ اگروہ متحد
ہوجائیں توسیاست کا رخ موڑسکتے ہیں ۔سودوسونہ سہی چند مسلم ممبران بھی
اگرمہاراشٹر اسمبلی میںپہنچ گئے اورخلوص کے ساتھ حق کی آوازبلند کرتے ہوئے
مسلمانوں کے مسائل اٹھائے توبہت سے مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ ایم آئی ایم کے مہاراشٹرمیںقدم رکھنے پرچاروںطرف سے تنقید
کی بوچھار ہوجائے ‘ ا سے بدنام کرنے کی کوشش کی جائے ‘اس مقصد کے لیے بی جے
پی کا سہارا بھی لیاجاسکتاہے اورکہا جاسکتاہے کہ بی جے پی نے مسلم ووٹوںکے
بٹوارے کے لیے اسے میدان میں اتارا ہے اوراس کے میدان میںاترنے سے فرقہ
پرست پارٹیوں کوتقویت ملے گی۔ مگرسوال یہ ہے کہ کل تک جب ایم آئی ایم
مہاراشٹر کے سیاسی منظر سے غائب تھی تب مسلمانوںکو کون سا فائدہ پہنچاتھا ؟یہ
آزمائش کی گھڑی ہے ۔ ایم آئی ایم کے ذمے داران کوچاہئے کہ وہ امیدواروں کے
انتخاب میں سوجھ بوجھ سے سے کام لیں۔ وہ عناصر جو صرف اقتدار سے چمٹے رہنا
چاہتے ہیں‘ جومسلمانوں کی فلاح وبہبود کے تئیں مخلص نہیںہیںوہ ایم آئی ایم
کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے اورٹکٹ مانگ سکتے ہیں۔ ایم آئی ایم کوپھونک پھونک کر
قدم رکھنا ہوگا۔ اہم بات سیٹوںکا جیتنا یا ہارنا نہیں مسلمانوں کو ایک
سیاسی پلیٹ فارم پراکٹھاکرنا اوربھرپور طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کرنا
ہے کہ جوبھی پارٹی ان کے مفادات کا خیال رکھے گی ‘ مسلمان اس کا بھرپور
ساتھ دیں گے ۔ ایم آئی ایم مسلمانوںکے لیے وہ متبادل ثابت ہوسکتی ہے جوسماج
وادی پارٹی نہیں ثابت ہوسکی‘ حالانکہ مسلمانوں نے اس کا بھرپورساتھ دیا۔
ایم آئی ایم کی کامیابی کا سارا انحصار نمائندوں کے انتخاب پرہے ۔دیکھنا یہ
ہے کہ اب پارٹی کس طرح کے نمائندوں کا انتخاب کرتی اورکن کن حلقوںمیں اپنے
امیدواراتارتی ہے ۔ تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلایانہیں
جاسکتا کہ اگرمہاراشٹراسمبلی سے اِکا دُکّاناکارہ مسلم اراکین کم بھی ہوگئے
توکوئی فرق نہیںپڑے گا۔ نہ اِن کی موجودگی نے مہاراشٹر کے مسلمانوں کوکوئی
فائدہ پہنچایاہے اورنہ انکی غیرموجودگی مہاراشٹرکے مسلمانوں کوکوئی نقصان
پہنچائے گی ۔) |
|