آبی ذخائر کی تعمیر کا مستحسن فیصلہ اور سیلاب مارچ

۱۵ مئی ۲۰۱۴ ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابدشیرعلی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت نے کالاباغ جیسے متنازعہ ڈیم نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔کالا باغ ڈیم بن جاتاتوتوانائی کے بڑے مسائل حل ہوجاتے۔عابدشیرعلی نے کہا کہ داسواوردیامیرڈیم کی تعمیر اولین ترجیح ہے۔ایک قومی اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے سابق چیئرمین واپڈاشمس الملک ، طارق حمید،سابق ممبر پاوراورایم ڈی پیپکوسیّد تنظیم نقوی نے عابدشیرعلی کی اس بات کہ حکومت نے توانائی بحران حل کرنے کے لیے جن پراجیکٹس کو شروع کیا ہے اگر وہ مکمل ہوگئے تو عوام کالا باغ ڈیم کو بھول جائیں گے۔پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ کالا باغ ڈیم کے باعث پاکستان کو جومشکلات آئیں گی بدقسمتی سے عابد شیر علی کوان کا اندازہ ہی نہیں ہے۔کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے ناگزیرہے۔وزیرمملکت برائے پانی وبجلی کالاباغ ڈیم کی اہمیت وافادیت سمجھنے سے قاصرہیں۔عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے عوامی مفادکے منصوبے کو سیاست کی نذرکردیا ہے۔پاکستان میں ۱۹۷۲ء کے بعد کوئی بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا جاسکا۔جبکہ ہماارے ہمسایہ ملک بھارت نے اس دوران ستائیس ڈیم بنا لیے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیرسے کسی بھی صوبے کا نقصان نہیں ہوگا۔اسب ڈیم سے نہ صرف عوام کوسستی بجلی مہیا ہوگی بلکہ چھ ملین ایکڑرقبہ کوسیراب کرنے کے لیے پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔کوئی بھی پراجیکٹ کسی دوسرے پراجیکٹ کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس انرجی کے بدترین بحران سے دوچارہے۔جہاں شہری اوردیہی علاقوں میں بجلی کی بندش کا دورانیہ بارہ سے چودہ گھنٹے ہے۔جبکہ ملک کے ساٹھ فیصدطبقے تک بجلی کی مکمل رسائی نہیں ہے۔بتایا گیا ہے کہ حکومت اگر اپنے آبی وسائل کو محفوظ کرنے کے اقدماے کرے تونہ صرف پاکستان بجلی میں خودکفیل ہوجائے گا۔بلکہ معاشی خوشحالی کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔کالا باغ جس کی فیزیبیلٹی مکمل ہے ۔ اگر اس ڈیم کی تعمیر کویقینی بنایا جائے تویہ سالانہ پندرہ اارب یونٹ بجلی پیداکرنے کا موجب بن سکتاہے۔پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کامخالف ہے۔ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت اس ڈیم کی تعمیر کو روکنے کے لیے سالانہ بارہ اارب روپے خرچ کرتی ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس ڈیم کے بننے سے پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑ ا صوبہ بلوچستان وسیع تر ذرخیز ہوسکتاہے۔سات لاکھ ایکڑ رقبہ قابل کاشت بنایا جاسکتاہے۔ جس سے زرعی ترقی کے نئے دورکا آغازہوگا۔اورسیلابوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی۔اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے کے پی کے اورسندھ کوکوئی نقصان نہیں ہوگا۔بلکہ پانی کووسیع ذخیرہ دستیاب ہوگا۔پنجاب کے بنجرعلاقوں کو بھی نہری پانی کے ذریعے ذرخیزکیا جاسکتاہے۔یادرہے کہ پاکستان زرعی ممالک میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک ہے۔لیکن یہاں لاکھوں ایکڑ رقبہ پانی کے بحران کی وجہ سے بنجراوربے آبادہے۔روہی اورتھر کا وسیع علاقہ بے آبادپڑاہے۔اس سلسلہ میں اچھی خبربھی ہے کہ وہ یہ کہ مشترکہ مفادات کونسل نے لاہورہائی کورٹ کے ۲۳جون ۲۰۱۳ء کے فیصلے کی روشنی میں بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے اورپانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے دس چھوٹے اوربڑے ڈیم بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ڈیم ورلڈ بینک ایشین ڈویلپمنٹ بینک ،ترکی اورچین کے مشترکہ تعاون اورفنڈزسے تعمیرکیے جارہے ہیں۔اوران پر سوارب روپے لاگت آئے گی۔اس بارے میں تحریری طورپر چیئرمین واپڈااوروزارت پانی وبجلی کی طرف سے عدالت کو تحریری طورپر آگاہ کردیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کالا باغ ڈیم کی منظوری دے دی ہے۔ کالا باغ ڈیم دوہزار سترہ اٹھارہ تک تعمیر ہوجائے گااور اس سے ۴۵سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔داسو ڈیم سے ۴۳۲۰میگاواٹ، نیلم جہلم ڈیم سے ۹۶۹ میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکے گی۔جبکہ تربیلا کے توسیع منصوبہ سے ۱۵۵۰ میگاواٹ، منگلا کے توسیع منصوبہ سے ایک سو بیس میگاواٹ، بجلی پیدا ہوسکے گی۔بوندی ڈیم سے سات سو دس میگاواٹ، سکھی کناری ڈیم سے سات سو میگاواٹ، منڈا ڈیم سے سات سو چالیس میگاواٹ، پیٹرنیڈ ڈیم سے ایک سوبیالیس میگاواٹ، نیو بونگ ڈیم سے ۸۴ سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔اور یہ تمام آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں مکمل کیے جائیں گے۔رپورٹ کے مطابق واپڈاکے تحریری بیان میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کالا باغ ڈیم تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے سندھ نے پندرہ برسوں میں ۸۵۵․۳۳ سکوائرفٹ اضافی پانی حاصل کیا۔رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے دس لاکھ ٹیوب ویلز ڈیزل استعمال کرکے آبپاشی کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف گذشتہ تیس برسوں میں زرعی اراضی کو فراہم کردہ پانی بڑھا کر۶․۴۶ ایم اے ایف کردیا گیا ہے۔وزارت پانی وبجلی نے اپنے جواب میں الزام لگایا ہے کہ ملک بھر میں پابی وبجلی کی کمی کا ذمہ دارواپڈا ہے۔کیونکہ محکمہ آبپاشی کے پاس موجود ۵۳سو کیوبک پانی واپڈا اتھارٹی کی غفلت کی وجہ سے کم ہوکر۱۱۵۰ کیوبک رہ گیا ہے۔تحریر ی جواب میں تسلیم کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے سربراہ وزیراعظم پاکستان ہیں ۔ جبکہ تمام صوبائی وزراء اعلیٰ اس کے ممبر ہیں۔مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پالیسی ہوتے ہیں جن کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔اس طرح کا ہی ایک اتفاق نوازشریف کے سابقہ دور حکومت میں بھی ہوگیا تھا۔اس وقت بھی تمام فریقین نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق کیا تھا۔تاہم حکومت ختم ہونے کی وجہ سے اسے تعمیر نہ کیا جاسکا۔اگر اس وقت نوازشریف کی حکومت ختم نہ کی جاتی تو یہ ڈیم اب کب کا بن چکا ہوتا۔ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی نہ سیلاب تباہی مچاتااور نہ ہی آبپاشی کے لیے پانی کی کمی ہوتی۔ چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے کہا ہے کہ سندھ کی مرضی کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا۔۷۳ء کے آئین اور ۹۱ء میں ہونے والے پانی ک معاہدے نے ملک کو متحد رکھا ہواہے۔ سندھ چیمبر آف ایگری کلچرحیدرآباد میں آبادکاروں کے ساتھ منعقدہ اجلاس سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو قانون کے تحت چلانا ہوگا اوریہی ملکی بقا کے لیے ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں پانی کی قلت کے خاتمے کے لیے دیا گاج ڈیم پرکام چل رہا ہے۔جبکہ دادو ڈیم سمیت دیگر منصوبہ جات پربھی جلد کام شروع کردیا جائے گا۔ان کا کہناتھا کہ ۲۰۰۷ء کے بعد واپڈا سے ڈسٹری بیوشن اورتھرمل کے معاملات واپس لے لیے گئے ہیں۔سندھ کے عوام اورآبادکاریہ سمجھتے ہیں کہ ہم کالاباغ ڈیم بنا رہے ہیں۔جس میں کوئی صداقت نہیں۔آزادکشمیر کے وزیراعظم نے درخواست کی ہے کہ انہیں منگلا ڈیم سے پانی دیا جائے مگر سندھ کی مخالفت کی وجہ سے ایک قطرہ بھی نہیں لے سکتا۔ایک قومی اخبارسے گفتگو کرتے ہوئے تحریک استقلال کے مرکزی صدررحمت خان وردک نے کہا ہے کہ مشرف کے دور میں واٹرویژن ۲۰۱۶ء چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے منظورہواتھا۔اس ویژن میں بھاشا ڈیم، منڈہ ڈیم،تنگی ڈیم، کالا باغ ڈیم اوراکھوڑی ڈیم ہیں۔مشرف کے بعد کسی بھی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ آمروں کی وجہ سے آبی ذخائر بنے ہیں۔آج تک قوم اس سے فائدہ اٹھارہی ہے۔حکومت نے پانی وبجلی کے مسائل حل نہیں کیے۔موجودہ حکومت نے گیس صنعت کاروں کو دی ہوئی ہے۔ اگریہ گیس تھرمل پاوروں کو دی جاتی توآج عوام کوسستی بجلی بھی ملتی اورلوڈشیڈنگ میں بھی کمی ہوتی۔ان کا کہناتھا کہ سیاستدان اگر آبی ذخائر بنائیں توپوری قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچ سکتی ہے۔آبی ذخائر سے ہی ملک معاشی اور زرعی ترقی کرے گا۔عوام کوسستی بجلی ملے گی اوکسانوں کو پانی میسرہوگا۔

جب مشرف اقتدارمیں تھے توراقم الحروف نے لکھا تھا کہ مشرف کے پاس کالا باغ ڈیم بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اب اگر یہ ڈیم نہیں بناتے توپھر کبھی نہیں بنایا جاسکے گا۔ ہمارے لکھنے کا مطلب یہ تھا کہ ایسا موقع پھر نہیں ملے گا۔ قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے پانی وبجلی کہتے ہیں کہ حکومت نے کالا باغ جیسے متنازعہ ڈیم نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین واپڈا کہتے ہیں کہ سندھ کی مرضی کے بغیرکالا باغ ڈیم نہیں بنایا جاسکتا۔مشترکہ مفادات کونسل سمیت اب تک تین مرتبہ اس ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔مشترکہ مفادات کونسل میں وزیراعلیٰ سندھ بھی شامل ہیں۔ گویا اس کے فیصلوں پر ان کابھی اتفاق ہے۔ یو ں سندھ بھی اس پر متفق ہوچکا ہے۔ آپ اس تحریر میں عالمی ادارے کی رپورٹ اور ماہرین کے تبصرے بھی پڑھ چکے ہیں۔ جواس ڈیم کی اہمیت وافادیت کواجاگر کرتے ہیں اور دشمنان کالاباغ ڈیم کے خدشات کوبے بنیادقراردیتے ہیں۔اب بھی اگر اس ڈیم کومتنازعہ قراردیا جائے تو یہ قوم دشمنی ہوگی اورکچھ نہیں۔مشترکہ مفادات کونسل نے آبی ذخائر کی تعمیرکا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔اب حکومت اس فیصلہ پرعملدرآمدکویقینی بنائے۔کالاباغ ڈیم سمیت آبی ذخائر کے منصوبے قومی مفاد کے منصوبے ہیں ان کی مخالفت سچے پاکستانی کوزیب نہیں دیتی۔ ہم پھر لکھ رہے ہیں کہ قانون سازی کرکے عوامی اورقومی مفاد کے منصوبوں کی مخالفت کوملک سے غداری کے برابرجرم قراردیا جائے۔اوراس طرح کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔حکومت کالاباغ سمیت آبی ذخائر کی تعمیرجلد شروع کرے تاکہ قوم لوڈشیڈنگ ، سیلاب اوردیگر مسائل سے نجات حاصل کرسکے۔بھارت ہرسال لاکھوں کیوسک پانی چناب اوردیگر دریاؤں میں ہرسال چھوڑدیتاہے۔ اس پانی کومحفوظ کرن کے لیے بھی آبی ذخائرکی تعمیرازحدضروری ہے۔

انقلاب وآزادی مارچ کے دھرنے بھی جاری ہیں کہ دریائے چناب و دیگر دریاؤں کاسیلاب مارچ بھی شروع ہوگیا ہے۔ آزادکشمیراورپنجاب میں بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے اب تک سیکڑوں افراد جاں بحقاوورہزاروں زخمی وبے گھرہوچکے ہیں۔بہت سے اضلاع میں سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ عوام اس وقت مشکل میں ہیں یہ وقت سیاست نہیں عوامی مشکلات میں کمی کرنے کاہے۔ سیالکوٹ کے سیلاب زدہ علاقوں کادورہ اورنارووال کا فضائی جائزہ لینے کے دوران نوازشریف نے کہا کہ دھرنے ختم کرکے حکومت اورسیلاب متاثرین کاساتھ دیاجائے۔ بارشوں نے بیس سالہ ریکارڈ توڑدیاہے۔وسائل محدودہونے کے باوجود حکومت متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے تمام وسائل استعمال کرے گی۔ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین نے اپیل کی ہے کہ بارش اورسیلاب کے باعث دھرنے فوری طورپر ملتوی کیے جائیں۔طوفانی بارشوں اورسیلاب سے ملک قدرتی آفات کاشکارہوچکا ہے۔مکانات پانی میں بہہ رہے ہیں۔ فصلیں اور سڑکیں بھی تباہ ہوچکی ہیں ۔زیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اورریسکیوٹیمیں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔جب تک دھرنے ہیں قومی اسمبلی کااجلاس جاری رکھنے کافیصلہ ہواہے۔ سیلاب کی وجہ سے اب یہ وقت نہ تواسمبلیوں کے اجلاسوں کاہے اورنہ ہی دھرنوں کا۔اسمبلی کااجلاس ملتوی کردیاجائے وزراء سیلاب زدہ علاقوں میں جاکر متاثرین کا سہارابنیں۔عمران خان نے بھی سیلاب زدہ علاقے کادورہ کیاہے۔ وہ شیڈول میں شامل علاقوں میں سے ایک ہی علاقے کادورہ کرکے واپس ہوگئے۔ انہوں نے نہ تودیگر علاقوں کادورہ کیا اورنہ ہی متاثرین میں امدادتقسیم کی جس کاانتظا م تنظیم نے کررکھا تھا۔ شایدوہ اس لیے گئے تھے کہ تاکہ وہ کہہ سکیں کہ وہ بھی سیلاب متاثرین کے پاس گئے تھے۔ وہاں بھی انہوں نے سیلاب متاثرین کی مدد کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ اورسیاسی تقریرکوہی ترجیح دی۔طاہرالقادری اب تک کہیں نہیں گئے۔دھرنے کے قائدین دھرنے ملتوی کرکے خودبھی سیلاب زدہ علاقوں جائیں اوراپنے کارکنوں کوبھی وہاں جانے کاحکم دیں اگروہ دھرنے عوام کے لیے ہی دے رہے ہیں تو عوام اب مشکل میں ہیں خدارااب اس کے لیے ختم بھی کردیں۔سرکاری ادارے بھی غفلت کی چادراتاردیں۔آئندہ پیشگی موثراقدامات کریں کہ بارشوں اورسیلاب سے عوام کا کم سے کم جانی ومالی نقصان ہو۔بارشوں اورسیلاب کوروکاتونہیں جاسکتا ۔ تاہم حفاظتی انتظامات کرکے اس کے اثرات ونقصانات کوکم سے کم ضرورکیا جاسکتاہے۔ نوازشریف نے آموں کاتحفہ بھیجااس کے جواب میں بھارت نے سیلاب کاتحفہ بھیج دیا۔یہ تودوستی سے جائے ہیراپھیری سے نہ جائے والا معاملہ ہوگیا۔دشمن سے یہی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔بھارت کی طرف سے امدادکی پیشکش خودہی زخمی کرکے مرہم پٹی کرنے کی پیشکش کے مترادف ہے۔ المیہ تو یہ ہے ہم خوداپنے ساتھ اورقوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.