آخر کیسے؟

ہر ملنے والے بیرونی قرضے یا امداد کے بعد عوام کو ”مثالی ترقی “ کی خوشخبریاں شروع ہی سے ہمارے حکمرانوں کو شیوہ رہا ہے لیکن موجودہ حکومت اس سلسلہ میں پوری تاریخ کے”ریکارڈ“توڑ چکی ہے اور وصولی کے بعد بار بار دہرایا جاتا ہے کہ یہ امداد جہاں پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے میں معاون ثابت ہوگی وہیں اس سے عام آدمی کی معاشی مشکلات کم کرنے میں بھی مدد ملے گی لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ آخر کس طرح؟ کیونکہ قرضوں یا امداد کا حصول کوئی نئی بات نہیں، پوری ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقتدار پر براجمان ہونے والے سبھی رہنما اسی قسم کے وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں۔ کسی نے ”عوامی بھلائی“ کے نام پر ملکی اساس گروی رکھی تو کوئی سلامتی تک داﺅ پر لگانے پر تیار ہوا۔ کوئی قرضے لیکر ”ترقی ہورہی ہے“ کے نعرے لگاتا رہا تو کسی نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے قرض اتارنے کے نام پر مزید قرض لیکر عام آدمی کی سانس تک بطور رہن امداد یا قرضے دینے والوں کو سونپ دی لیکن نہ کبھی عوام کا معیار زندگی بلند ہوسکا اور نہ ہی معاشی حالات بہتر، البتہ یہ ضرور ہوا کہ قوم دوسروں پر انحصار کے نشہ کی لت میں مبتلا اور اس کے رہنما قومی”غنودگی“ سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ ہر آنے والے نے ”خزانہ خالی ہے“ کا الزام عائد کر کے سارا ملبہ جانے والوں پر ڈالنے کی روش اپنائے رکھی۔ تمام خسارے پورے کرنے کے لیے ہمارے لیڈر ہمیں تو گھاس کھانے کے مشورے دیتے رہے لیکن ان کے اپنے شاہانہ اخراجات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے گئے جو موجودہ ”عوامی“ دور میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں اور بیرونی قرضوں یا امداد کا بڑا حصہ حکومت کی اپنی اللیوں تللیوں میں خرچ ہوجاتا ہے، یقین نہ آئے تو ذرا مندرجہ ذیل اعداو شمار پر نظر ڈالیں، چودہ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

پاکستانی عوام یہ تو سنتے آئے ہیں کہ قرضے اور امداد مل رہی ہے لیکن جاتی کہاں ہے؟ اس کا جواب کہیں سے نہیں ملتا۔ یہ حقیقت یقیناً سب کے لیے چونکا دینے والی ہوگی کہ قرضے لیے تو عوام کے نام پر جاتے ہیں لیکن ان پر تصرف حکمرانوں کا ہوتا ہے جو اپنی ”خدمت“ کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے ہیں یہی صورتحال موجودہ حکومت کی بھی ہے جو جس طرح قرضوں کے حصول میں کچھ زیادہ ہی مستعد ہے اسی طرح اخراجات میں بھی ”ریکارڈ ساز“ثابت ہورہی ہے جبکہ خرچے کم کرنے کے مطالبات کرنے والی جماعتیں (جو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتی ہیں)بھی اس کار خیر میں برابر کی شریک ہیں۔ عوامی نمائندوں کے اخراجات(جو ریکارڈ پر ہیں) پر نظر ڈالیں تو ایک تصدیق شدہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک ممبر قومی اسمبلی کی ماہوار تنخواہ، ایک لاکھ بیس ہزار سے دو لاکھ روپے ہے۔ قانونی اور آئینی اخراجات کی مد میں ایک لاکھ روپے ہر ماہ دیئے جاتے ہیں۔ دفتر ی اخراجات کے لیے ہر ماہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ملتے ہیں۔ سفری الاونس کی مد میں آٹھ روپے فی کلو میٹر ادا کیے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ممبران کو تمام پاکستان میں تمام ریلوے ٹرینوں میں تمام سال ہر وقت فل اے سی رومز یا بوگیوں میں سفر کی مکمل مفت رعائت حاصل ہے۔ ہوائی جہازوں میں سالانہ بزنس کلاس میں بیوی بچوں سمیت چالیس سفروں کی مکمل مفت سہولت میسر ہے۔ انہیں تمام رہائشی سہولتیں حکومت کے خرچ پر مفت دی جاتیں ہیں۔ قومی اسمبلی کے تمام ممبران کو بجلی کے پچاس ہزار یونٹ مفت دئیے جاتے ہیں یوں قومی اسمبلی کے تمام ممبران پر پانچ سال میں85,440,000,000 کا کل خرچ ہوتا ہے جو کہ قومی خزانے ہی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ جمہوری دور کے اعداو شمار ہیں جبکہ فوجی ادوار میں یہ اخراجات دوگناہ سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔

عام ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے بعد کابینہ کی باری آتی ہے، یہاں بھی عوامی حکومت کابینہ کی تعداد کے سلسلہ میں سب سے آگے ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز شوکت عزیز کو حاصل تھا جن کی کابینہ کی مجموعی تعداد 69تھی۔ معاملہ صرف وفاقی کابینہ تک ہی نہیں ہے بلکہ صوبہ بلوچستان میں 65میں سے 55ارکان وزیر اعلٰی، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزراء مشیر اور معاونین خصوصی ہیں۔ اسی طرح سندھ میں 168ارکان میں سے تاحال وزیر اعلٰی اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، 44وزراء11مشیر اور9معاونین خصوصی ہیں اور مزید 7سے10 کے اضافے کا امکان ہے۔ صوبوں اور وفاق میں مشیروں اور معاونین کی اکثریت غیر منتخب ارکان کی ہے۔ مرکز اورصوبوں میں اسٹینڈنگ کمیٹیاں بھی موجود ہیں جن کی مجموعی تعداد 120سے زائد ہے۔ عام ارکان پارلیمنٹ کے بعد وزراء کے شاہانہ اخراجات پر نظر ڈالیں تو مختلف ذرائع کے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق ایک وفاقی وزیر کے سالانہ اوسطاً اخراجات ایک کروڑ 25لاکھ، ایک وزیر مملکت کے ایک کروڑ، ایک مشیر کے ایک کروڑ 20لاکھ اور ایک عام مشیر یا معاون خصوصی کے اخراجات ایک کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اس طرح وفاقی کابینہ کے ارکان کے ایک سال کے مجموعی اخراجات ایک ارب روپے ہیں۔

ایک صوبائی وزیر کے سالانہ اخراجات 70لاکھ، مشیر برابر وزیر کے 60لاکھ، عام مشیر کے 50 لاکھ اور معاون خصوصی کے 40لاکھ روپے سالانہ اخراجات ہوتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں وزراء کی تعداد 120 کے قریب ہے جن کے سالانہ اخراجات مجموعی طور پر 84کروڑ روپے، 20مشیر برابر وزیر کے 12کروڑ روپے، 30 عام مشیروں کے 15کروڑ روپے اور 25معاونین خصوصی کے 10کروڑ روپے بنتے ہیں اور یہ اخراجات بھی عوام کی جیبوں ہی سے نکالے یا ان کے نام پر لیے گئے قرضوں سے ہی کئے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کو قرضوں کی معافی اور کرپشن کے ذریعے لوٹ مار کی تفصیلات زیر نظر اعدادو شمار سے بھی زیادہ چشم کشاء ہیں جس کی ایک جھلک این آر او کے تحت معاف کئے جانے والے قرضوں کی تفصیلات ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رقوم وصول کر لی جائیں تو پاکستان نہ صرف معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتا ہے بلکہ بیرونی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔

دوسری جانب ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات سوا ارب روپے سے زائد، چاروں گورنر اور وزرائے اعلٰی ہاؤسز کے کم ازکم اخراجات 3ارب 50کروڑ روپے سے زائد ہیں۔ یوں یہ عوامی نمائندے سالانہ مجموعی طور پر اندازاً کم ازکم بھی10ارب روپے اپنے اخراجات کی مد میں قومی خزانے سے حاصل کر جاتے ہیں۔ ان تمام تفصیلات پر قارئین غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملک جس پر بیرونی قرضوں کی مقدار 35 کھرب 57ارب 36کروڑ روپے سے زائد ہو، جس کا ہر شہری21ہزار870روپے کا مقروض ہو، جس کے پاس اپنی مدد آپ کے تحت ملکی چلانے کیلئے 2ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی نہ ہوں، جس کے 40فیصد باشندے روزانہ ایک ڈالر پر گزارہ کرتے ہوں، جس کے 20فیصد لوگوں کو دووقت کی روٹی نصیب نہ ہو، جہاں غربت کی مجموعی شرح 60فیصد ہو، جہاں مائیں ا پنے بچے، باپ گردے تک بیچنے اور سالانہ سینکڑوں افراد معاشی بدحالی کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہوں، جہاں حقیقی شرح خواندگی 35فیصد سے بھی کم ہو اور جہاں معاشی بدحالی کی وجہ سے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو، وہ ملک قرضوں سے آخر کیسے سنبھل سکتا ہے؟
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56961 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.