تبدیلی ۔۔ اشارے تو واضح ہو چکے

گزرے ہفتے انہی سطور میں ”اس جی کا جانا ٹھہر چکا“ کے زیر عنوان حکومت کی رخصتی قریب ہونے کے مختلف عوامل کا احاطہ کیا گیا تو یار لوگوں خصوصاً جیالے دوستوں نے تنقید کی توپوں کارخ ہماری طرف ہی کر دیا۔ کسی نے بے پر کی اڑانے کا طعنہ دیا تو کسی کی جانب سے”ممکن ہی نہیں“ کا رد عمل سامنے آیا لیکن تمام تر تنقید کے باوجود ہم نہ صرف اپنے مؤقف پر قائم ہیں بلکہ ایسے احباب جو محض جذباتی وابستگی اور روایتی بیان بازی پر یقین کئے سیاسی تبدیلیوں بارے اپنی معلومات پر اتراتے نہیں تھکتے کی خدمت میں عرض ہے کہ حقائق کی تلخی کو بدلنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ویسے بھی کوئی جو بوتا ہے اسے وہی کاٹنا پڑتا ہے اور موجودہ حکومت کو بھی بہر کیف اس کے ”گناہوں“ کی سزا مل کر رہے گی جو بالآخر عنقریب رخصتی کی صورت میں سامنے آنے والی ہے۔ اس مکافات عمل کا آغاز ہوچکا ہے اور باخبر ذرائع ملک میں قومی حکومت کی پیش گوئی تک کر چکے ہیں، جن کو آنکھوں دیکھے حقائق اور کانوں سنی اطلاعات پر تاحال یقین نہیں ان کے لیے انکشافات کی دوسری قسط کے طور پر عرض ہے کہ متذکرہ بالا کالم میں جن عوامل کا ذکر کیا گیا تھا ان میں عید کے بعد مختلف دھڑوں میں تقسیم کا دعویٰ سر فہرست تھا ۔ توقع تو یہی تھی کہ حکمران جماعت کی اندر کی لڑائی عید کے بعد ہی منظر عام پر آئے گی لیکن حالات اندازے سے قبل وقت سے پہلے ہی پلٹا کھا گئے ہیں جس کے بعد عوامی خدمتگاروں کی رخصتی بارے کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ اطلاعات کے مطابق این آر او سے مستفید ہونے والوں کی فہرست منظر عام پر آنے کے بعد ہی سے پیپلز پارٹی میں مزید دھڑے بندیاں شروع ہوگئی ہیں اور پارٹی میں دو گروپ(پی پی زرداری اور پی پی بینظیر) سامنے آگئے ہیں جبکہ وزراء سمیت دیگر اہم ارکان نے قیادت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے چند روز میں (عید کے بعد) باقاعدہ استعفوں کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہی فیصلہ تبدیلی کے دعوﺅں کا پہلا ثبوت ہوگا۔

صدر آصف علی زرداری نے پارٹی کے 43ویں یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ ساتھ دھواں دھار تقریر میں گویا ایک طرح سے حکومت کے مستحکم ہونے کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر گزرتا لمحہ حکمرانوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ پارٹی اختلافات اور بعض وزراء کی جانب سے بینظیر مرحومہ کے قریبی ساتھی کی رہائش گاہ پر کراچی میں ہونے والے اہم رہنماﺅں کے اجلاس میں استعفوں کے فیصلے کے بعد زرداری کیمپ نے ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مصداق ناراض جیالوں(بشمول ناہید خان، اور صفدر عباسی) کو منانے کے لیے اہم شخصیات کو باقاعدہ ٹاسک سونپ دیا ہے لیکن تاحال کوششیں بار آور ثابت ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیئے بلکہ این آر او فہرست کے اجراء کے بعد یا حکومتی جماعت کے وزراء کی جانب سے بھی بینظیر گروپ سے رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں جن کا مطلب پریشر گروپ یا پھر طاقتور فارورڈ بلاک کے تشکیل کے سوا کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی میں زرداری اور بینظیر گروپ بننے کے بعد موجودہ قیادت کے لیے دوسرا پل صراط ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاﺅس کے اختلافات کے خاتمہ کا ہے جو اس قدر ”خطرناک“ ہوچکا ہے کہ اسے عبور کرنا بھی ناممکنات میں سے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی حکومت اور پیپلز پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے کوششوں میں جتے ہوئے ہیں اور بدھ کے روز ان کی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی تھی لیکن اطلاعات ہیں کہ یہ ملاقات کسی شیڈول کے بغیر ہوئی جس پر ایوان صدر کی جانب سے خاصا اعتراض بھی کیا گیا۔ ممکن ہے ان اطلاعات پر بھی بہت سوں کو اختلاف ہو لیکن ایک طرف وزیر اعظم کا جذبہ خیر سگالی اور دوسری جانب صدر مملکت کی جانب سے اسی روز اپنے خطاب میں اپوزیشن (ن لیگ سمیت)کو سیاسی اداکار قرار دینا جہاں خاصا معنی خیز ہے وہیں اختلافات کے دعوﺅں کی سچائی کا ثبوت بھی اور یہی سچائی تبدیلی کے آغاز کا دوسرا اشارہ ہے۔

سیاسی اتار چڑھاﺅ کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کے جلد بازی میں کیے گئے فیصلے حکمرانوں کی جانب سے اپنے ہی پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے موجودہ حکمران بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے”مشکلات“ سے نجات کے لیے بعض نئے آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ ان میں این آر او اور میڈیا کی جانب سے تنقید کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جلد تبدیلی کے دعوﺅں کے حقیقت میں بدلنے کا عندیہ ہونگے۔ کرپشن کو تحفظ اور آزادی اظہار پر پابندی دونوں ایسے عوامل ہیں جو ماضی میں بھی بڑے بڑے برج الٹنے کا سبب بنتے رہے ہیں اور موجودہ حکومت بھی یہی ”کارنامے“ انجام دینے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے جس پر عمل ایک ایسے طوفان کی بنیاد بنے گا جو بھاری بھرکم مینڈیٹ کی بنیادیں ہلا دے گا۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں جہاں صدر زرداری کے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر انتہائی” ایگریسو“خطاب کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں وہیں حکومت مخالف حلقوں نے ہوا کا رخ تبدیل ہوتے دیکھ کر کمریں کس لی ہیں حتیٰ کہ فرینڈلی اپوزیشن کی دعویدار مسلم لیگ ن کی زبان پر بھی الزام تراشی نہ روکنے پر بات ”دور “ تک جانے کی دھمکی بھی آچکی ہے جس کے رد عمل میں پی پی (زرادری کیمپ) کے حامیوں کا رد عمل ظاہر کر رہا ہے کہ الزام تراشی کا سلسلہ ابھی اور شدت اختیار کرے گا۔ مبصرین کے مطابق اس سلسلے کا آغاز مسلم لیگ ن کی خاموشی ٹوٹنے کا اشارہ بھی ہے کیونکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نے حکومتی مشکلات کو ”کیش “ کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اہلیان رائے ونڈ نے بیک وقت کئی محاذوں پر نبرد آزما حکمران جماعت کو مزید ”مصروف “ رکھنے کی ٹھان لی ہے جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اب اسے فرینڈلی اپوزیشن کے بجائے روایتی حزب اختلاف کا سامنا ہے اور، توجہ مزید بٹ جانے سے اس کا ”دفاعی اینڈ“ کمزور ہو گیا ہے جس نے تبدیلی کی خواہش مند قوتوں کو باقاعدہ جواز فراہم کر دیا ہے اور وہ اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہیں اور تمام اشارے کسی بھی وقت حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.