بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں غزہ کے مسئلے پر جماعت
اسلامی کی جانب سے میزان چوک پر ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھاجس میں
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کا خطاب متوقع تھا۔ ان کے آنے سے
پہلے بہت سے مقررین نے غزہ کے مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
موجودہ بلوچستان کے حالات میں غزہ کے مسئلے پر جلسہ جماعت اسلامی بلوچستان
کی جانب سے منعقد کرانا میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ کیونکہ غزہ کے مسئلے پر
حماس اور اسرائیل کے درمیان معاملات طے پا گئے تھے۔ پھر خیال آیا شاید
جماعت کے پاس کوئی دوسرا عنوان نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اس پروگرام کو دوسرا
عنوان دے دیتا۔اور دوسری بات یہ کہ جلسے میں مختلف پارٹیوں کے جھنڈوں نے
بھی شرکاء کو پریشانی سے دوچار کر رکھا تھا۔ اور جماعت اسلامی کا پاکستان
کے دوسرے شہروں میں جلسے اور نظم و ضبط جو دیکھنے کو ملتا تھا وہ اس جلسے
میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اور کارکن کم لیڈران زیادہ تھے۔ خیر جو
بھی تھا۔ سراج الحق کا دورہ بلوچستان اپنی جگہ اہمیت کا حامل تھا۔ سراج
الحق نے اپنی تقریر کا آغاز غزہ کے مسئلے، درمیانی حصہ اسلام آباد کی فضاء
اور آخر میں بلوچستان کے مسئلے پر فوکس کیا۔ غزہ کے مسئلے پر کم جبکہ دیگر
دو مسائل پر انہوں نے اپنے خطاب کو زیادہ وقف کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام
آباد میں جو دنگل لگا ہوا ہے۔ اس نے اسلام آباد کی فضاء کو دھندلا کے رکھ
دیا ہے۔ اسلئے اس وقت تمام نظریں اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں کہ یہ دنگل کب
کا ختم ہو جائے اور موجودہ صورتحال میں دیگر اہم ایشوز کو سامنے لایا جائے۔
جبکہ انکی خطاب کا آخری حصہ بلوچستان اور مسئلہ بلوچستان کے متعلق تھا۔
خطاب کا آخری حصہ ایسا تھا کہ جسے بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ہر نوجوان
جو یقینا اس پروگرام میں شامل تھا اس حصے کو غور سے سننے لگا۔ انکا یہ جملہ
بلوچستان کو کسی اور نے پسماندہ نہیں رکھا بلکہ اسلام آباد بیوروکریسی اسکے
پسماندگی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ افسوس اس بات پر
ہے بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن اسکا نوجوان میزان چوک
پر صبح سے لیکر شام تک فارغ بیٹھا چائے پیتا ہے لیکن اسے ملازمت نہیں ملتی۔
ریکوڑک، سینڈک یہاں کی اہم معدنی وسائل ہیں لیکن ان کے دفاتر کراچی اور
اسلام آباد میں واقع ہیں۔ یقینا سید مودودی کا افکار لئے سراج الحق یہاں کے
نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ انکی احساس محرومی اسکے دل میں
کڑکتی رہتی ہے بقول انکے کہ انہوں نے غربت کے دن دیکھے ہیں۔ جب اسکے پاس
اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ اپنے لئے جوتے خریدتے اسکے دوست چھٹیاں منانے
دوسرے علاقوں کو جاتے تھے لیکن وہ اپنی چھٹیاں مزدوری میں گزار کر کہیں
انہیں نئے کپڑے پہننے کو نصیب ہوتے۔ سراج الحق کا خطاب ایک ایسے موقع پر
اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے جماعت کے منشور سے ہٹ کر بلوچستان
کے اہم ایشوز کو فوکس کیا تھا جو سابقہ ادوار میں کسی بھی سربراہ جماعت
اسلامی کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے پر خطابات میں نہیں ملتی یہی وجہ تھی
کہ سراج الحق پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں
بلکہ اپنی غربت اور نوجوانوں کی قدر وقیمت کو حقیقی کو جانتے ہیں۔ لیکن
بلوچستان میں شورش چل رہی ہے تو ایسے موقع پر بلوچستان کے نوجوان سراج الحق
کے اس پیغام سے اتفاق نہ کریں کیونکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد جو حالیہ
انتخابات کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پر
امید تھے کہ انکی جماعت موجودہ حکومت میں لیڈ کرتے ہوئے نوجوانوں کو بے
روزگاری کے بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو سکے گی مگر ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر
جانے کے باوجود موجودہ حکومت نوجوانوں کے لئے حوصلہ افزاء اقدامات اٹھانے
میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ بلکہ تعلیم اورصحت کے شعبے میں اقدامات اٹھانے
کے اہم فیصلے کیچ، پنجگور میں اسکولوں کی نذر آتش اور پرائیوٹ اسکولوں کو
نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی آنے کے بعد وہاں کی تعلیمی نظام کو دیکھ کر
اسکا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر ہونے کے ناطے
بلوچستان کے حوالے سے اعلانات ہمت افزاء ہیں مگر ان پر عملی طور اقدامات
اٹھانا کہیں بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بلوچستان میں جماعت اسلامی
کا سیٹ اپ اول تو بہت ہی کمزور ہے اور دوسری بات کہ اسے بلوچستان مولانا
عبدالحق بلوچ جیسا لیڈر نصیب نہیں ہوا ہے جو بلوچستان خصوصاً بلوچ بیلٹ میں
اعتماد بحال کر سکے۔ اور اگر جماعت اسلامی مستقبل قریب میں مرکز کی سطح پر
حکومت سازی میں شریک ہو بھی جائے تو بھی اسے بلوچستان میں نظام کی تبدیلی
میں خاطر خواہ مدد نہیں مل سکے گی اسکی وجہ یہ کہ بلوچستان میں جو سیاسی
نطام پایا جاتا ہے اس میں سراج الحق جیسا لیڈر کا فیل ہونا بھی لازم و
ملزوم ہے اسکی مثال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے
اور سیاسی شعور رکھنے والے لیڈر بھی ا س نظام میں بہتری لانے کے لئے دعوے
تو کر سکتے ہیں مگر اس پر عملی اقدامات بہت کم دکھائی دیتی ہے۔جو یقینا
سراج الحق کے اعلانات کو غیر مؤثر ثابت کرنے لئے بھی کافی ہے۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ موجودہ حکومت نوجوانوں میں اعتماد کی فضاء قائم کرتے ہوئے انکے
مسائل پر غور و خوض کرے اور انکے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے اور دیگر
اہم ایشوز پر اہم اقدامات اٹھائے ۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یقینا وہ
نوجوان جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اپنے مسائل جمہوری اور پرامن
انداز سے حل کرنا چاہتے ہیں وہ ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں کا رخ نہ کریں۔ |