جمہوریت کے دعوے داروں اور امن کے ٹھیکداروں نے جہاں ایک
طرف ماڈل ٹاؤن لاہور دوسری طرف پارلیمنٹ اسلام آباد کے باہر اور اب تیسری
طرف بلاول ہاؤس کراچی کے باہر جو ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ان
نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے آچکا ہے پاکستان
عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے ورکروں پر جان لیوا تشدد کو ابھی
بہت زیادہ وقت نہیں گذرا کہ کراچی میں بلاول ہاؤس کے باہر پر امن اساتذہ
پراس وقت لاٹھی چارج کردیا گیا جب وہ جمہوریت ،امن وانصاف ،رواداری،وضع
داری اور حب الوطنی کے نام نہاد پیکروں ،روٹی کپڑا اور مکان کے کھوکلے
نعروں سے عوام کو بیوقوف بنانے والوں سے اپنے لیے انصاف طلب کرنے سندھ کے
بادشاہوں کے دروازے پر جارہے تھے مگر ان بچے پڑھانے والوں کو کیا معلوم کہ
کتابوں میں جو لکھا ہوتا ہے وہ عام زندگی میں نہیں ہوتا جو جمہوریت کتابوں
میں پڑھائی جاتی ہے اسکے بلکل الٹ پاکستان میں ہورہا ہے یہاں پر اپنا حق
مانگنا جرم ہے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا اس سے بھی بڑا جرم تصور ہوتا
ہے اور جب کوئی بغیر سوچے سمجھے عوام کے حقوق کی بات کریگا تو پھرحکمرانوں
کو لاشوں کے ڈھیر بھی لگانا پڑیں تو لگا دیں گے یہ ہمارے حکمرانوں کی
جمہوریت نما غنڈہ گردی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پوری قوم تکلیف میں مبتلا ہے
ایک طرف عوام کا سیلاب ہے جو اپنے حقوق کی خاطر ایک ماہ سے اسلام آباد کی
سڑکوں پر ہے اور دوسری طرف پانی کا سیلاب ہے جو ہمارے حکمرانوں کی نااہلیوں
کی بدولت آج پاکستان کو تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ہمارے حکمران بھی
کتنے عجیب ہیں کہ مرنے کے بعد کروڑوں روپے لواحقین میں بانٹ دیتے ہیں مگر
ان کو مرنے سے بچانے کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر نہیں کرتے جتنے پیسے ہم نے
آج تک سیلاب متاثرین میں بانٹ دیے ہیں ان سے بھی کم پیسوں میں ہم اتنے ڈیم
بنا سکتے تھے کہ یہ سیلابی پانی پاکستان پر عذاب بن کر نازل نہ ہوتا بلکہ
ہمارے لیے خوشحالی لاتا اور ہم پورا سال اس پانی سے اپنی زمینوں کو شاداب
کرتے نئی نہریں نکالتے اور اپنے چولستان کو آباد کرتے مگر ہمارے حکمران
ملکی دولت لوٹ لوٹ کر پاکستان کو کنگال کرکے قوم کو غلام بنانے کی کوششوں
میں مصروف ہیں ہمیں ایسے سیاستدان اور ایسے حکمران نہیں چاہیے جو لوگوں کے
مرنے کے بعد تو کفن لیکرتو پہنچ جائیں مگر زندہ انسانوں کو قریب بھی نہ آنے
دیں آجکل تو ویسے بھی سیلاب نے نہ صرف پوری قوم کے پریشانی میں ڈبو رکھا ہے
الٹا ہمارے آرام پسند حکمرانوں کی نیندیں بھی حرام کررکھی ہیں جو کبھی اپنے
محل نما گھروں سے نہیں نکلے وہ بھی آجکل پانی میں کھڑے ہو کر بڑے شوق سے
تصویریں بنوا رہے ہیں اور ہر شہر سیلابی شہر کا دورطوفانی دورہ کرکے اپنی
ہمدردیاں ظاہر کررہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہ سیلابی حکمرانی
ہیں جو صرف ان ہی موسموں میں باہر نکلتے ہیں جب ملک میں سیلاب آجائے اور ان
پانیوں سے جو سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے وہ ان لوگوں کا ہے
جو دریا کے اندر غیر قانونی طور پر آباد ہوجاتے ہیں جاگیرداروں ‘حکمران
طبقے اور با اثر شخصیات، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کی پشت پناہی کے باعث
دریاؤں کے پیٹ (River Bed)پر ناجائز تعمیرات اور ناجائز طو رپر کاشت اورزیر
استعمال لانے کے باعث قوم کو اتنے بڑے سانحے کا سامنا کرنا حالیہ سیلاب کی
تباہ کاریاں لمحہ فکریہ اور مرکزی وصوبائی حکومتوں کی انتظامی ناکامی کا
منہ بولتا ثبوت ہیں فیڈرل فلڈ کمیشن ‘ صوبائی فلڈ ریلیف کمیشنز اور محکمہ
آبپاشی کو اربوں روپے کے فنڈز دئیے گئے لیکن انہیں تعمیرات و اصلاحات پر
خرچ کرنے کی بجائے ان میں خرد برد کر لی گئی جس کی وجہ سے آج دریا بپھر گئے
ہیں اور دریاؤں کا پانی آبادیوں کو عبور کرکے شہروں میں داخل ہو رہا ہے اور
حکومتی ادارے تاحال تباہ کن سیلاب کی وجوہات جاننے میں کامیاب نہیں ہو سکے
اسکی تحقیق اور مستقبل میں ایسے سیلابوں سے بچنے کے لئے بورڈ تشکیل دیا
جائے جس میں آبی ماہرین‘ انجینئرز ‘ متاثرہ فریقین خصوصاً کسانوں کو شامل
کیا جائے تاکہ ملک کی زراعت اور مالی و جانی نقصان سے بچا جا سکے ۔ موجودہ
سیلاب فطری طورپر ضرورہے لیکن پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق
پاکستان میں اس پیمانے پر بارشیں نہیں ہوئیں جتنا دریاؤں میں تباہ کن سیلاب
آیا ہے پاکستان میں عوام کو سیلاب اور اسکی تباہ کاریوں سے پیشگی آگاہ کرنے
کے لئے کوئی انتظام موجود نہیں اس لئے فیڈرل فلڈ ریلیف کمیشن میں اصلاحات
نا گزیر ہیں دریاؤں کے پیٹ (River Bed)میں لاکھوں کروڑوں لوگ غیر قانونی
طور پر رہائشگاہیں آباد کر کے مال مویشی پال چکے ہیں جبکہ ناجائز طو رپر
فصلیں کاشت کر رہے ہیں جو کہ حکومت کی انتظامی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے
‘ زیادہ تعداد انہی لوگوں کی ہے جو ناجائز طور پر زرعی زمینیں کاشت اور
تعمیرات کر رہے ہیں اور انہیں اراکین قومی وصوبائی اسمبلی ‘با اثر شخصیات
‘جاگیرداروں اور حکمران طبقے کی پشت پناہی حاصل ہے بعض دریاؤں میں بند
باندھ دئیے گئے ہیں لیکن دریاؤں کے پھیلاؤ کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ
سے آج دریاؤں کا پانی آبادیوں کو عبور کر کے شہروں کا رخ کر رہا ہے جس سے
اربوں ‘ کھربوں کی کی زرعی معیشت تباہ ہونے کے ساتھ بڑے پیمانے پر جانی و
مالی نقصان بھی ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت نے
مقبوضہ کشمیر میں جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کئے ہوئے ہیں اور پاکستان کو
معاشی طور پر اپاہج بنانے کیلئے خوفناک منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اُس کی
آبی جہارحیت سے پاکستان کے زراعت وصنعت شدید خطرات سے دور چار ہے انڈیا نے
لداخ میں ڈیم مکمل کرلیا تو اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔ |