فردوسِ ارضی کشمیر میں چند لمحات: مشاہدات و مسافرت کاایک ورق

آج جنتِ ارضی سیلاب زدہ ہے- یہ سفر ۳؍ماہ قبل اختیار کیا گیا-اس وقت ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی یہ بستی قدرتی وسائل سے مالا مال، اسلامی روایات کی آماجگاہ اور زندہ دلوں کا مسکن ہے-سیلاب نے گلستاں کو خزاں رسیدہ کر دیا ہے، ہمیں اپنے کشمیری مسلمانوں کا خیال رکھتے ہوئے اُن کے دُکھوں کا مداوا کرنا چاہیے-

۸؍جون کی صبح تھی۔ ہمارا قافلہ تنگ گھاٹیوں اور بل کھاتی شاہراہ سے ہوتا ہوا حدودِکشمیر میں داخل ہوا۔ اِدھر گرمی کی حدت عروج پر تھی۔ جیسے ہی حدودِ فردوسِ ارضی میں داخل ہوئے موسم تبدیل ہوگیا۔ بھینی بھینی خنک ہوائیں چل رہی تھیں۔ ماحول قدرے سرد تھا۔ حدِ نگاہ تک درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ۔ پرندوں کی چہکار و نغمگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر شے معبودِ حقیقی کی تسبیح وتہلیل میں مشغول ہو۔ ہمالہ کے سربہ فلک سلسلے اور وادی میں اُبلتے، جھومتے، مچلتے،لہکتے چشمے۔ عجب دل کش نظارہ کہ آنکھیں مسحور ہو جائیں اور زبان نغماتِ توحید و نعتِ رسالت سے گنگنا اُٹھے۔

قدرت نے قسم قسم کی نعمتوں سے اِس خطے کو مالا مال کیا ہے۔صدیوں قبل یہاں بدھشٹ آباد تھے۔ کچھ کشمیری برہمن بھی تھے۔ حضرت بُلبُل شاہ رحمۃاﷲ علیہ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے ۷؍صدی قبل سرزمین کشمیر تشریف لا کر اربابِ اقتدار کو نغمۂ توحید سے آشنا کیااور شرک کی تیرگی سے نکالا۔ اولیاء اﷲ کے مبارک قدموں نے فردوسِ ارضی میں انقلاب برپا کیا۔ حضرت امیر کبیر سید شاہ علی ہمدانی رحمۃاﷲ علیہ نے سب سے پہلے عوامی سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا اور مشرکین کو اسلام کے دامن میں کامیابی کے ساتھ داخل کیا۔ دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ؂
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

آپ کی مساعی جمیلہ سے ۷؍صدی قبل اسلام کی اشاعت زبردست طریقے سے ہوئی۔ آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے۔ ویسے بھی اہلِ کشمیر اولیائے کرام سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ نے اہلِ کشمیر کو اورادِ فتحیہ کی عام اجازت دی ہے۔ عقیدت کیش ہر نماز کے بعد اپنے محسن جن سے اسلام جیسی دولت ملی، کے عطا کردہ وِرد کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ہر نماز کے بعد مساجد سے مائک پر ’’اورادِ فتحیہ‘‘ کی صدائے دل نواز بلند ہوتی ہے تو وادی کی فضا مشک بار ہو جاتی ہے،جس میں آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم سے استمداد طلب کی گئی ہے، اس وِرد میں اِس طرح کے صیغے بھی ہیں:

الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ۔ وِرد میں غوث الاعظم سے استمداد بھی ہے:یاعبدالقادِر جیلانی شئیالِلّٰہ۔

حضرت امیرکبیر سیدشاہ علی ہمدانی پہلی بارربیع الاول ۷۷۴ھ میں تشریف لائے۔ یہ دورہ مختصر تھا۔ دوبارہ ۷۸۱ھ میں ۷۰۰؍سادات مبلغین اسلام کے ہم راہ آئے اور پوری وادی میں اشاعتِ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔ آخری بار ۷۸۵ھ میں تشریف لائے ایک سال قیام کیا اور اپنا مشن مکمل کر کے واپس تشریف لے گئے۔ یکم ذی الحجہ کو علالت کا آغاز ہوا۔ ۶؍ذی الحجہ کو اپنے اعزا، مریدین،اقربا کو بلایا اور ضروری وصیتیں کیں اور پھر معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں حاضرہو گئے۔ آپ کی تدفین کولاب،علاقہ ختلان تاجکستان میں ہوئی۔اہلِ کشمیر آپ کی بارگاہ سے دل وروح کا رشتہ رکھتے ہیں۔

اشاعتِ اسلام کے لیے اولیائے کرام کی آمد ہر دور میں رہی۔ ایران و عراق سے زیادہ تر اولیاتشریف لائے اور وادی میں صدائے توحید و رسالت بلند کرتے رہے، ان کی اذانِ سحر اور آہِ صبح گاہی نے کشتِ ایماں کو شاد کیا جس کا نتیجہ ہے کہ آج %۹۵مسلمان یہاں آباد ہیں۔ مناظرِ فطرت اور سیر گاہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی کثرت نے ان مقامات کو فحاشی کا اڈہ بننے سے بچائے رکھا، ورنہ نینی تال، مسوری، شملہ،اوٹی وغیرہ ہل اسٹیشن پر جس طرح کا حیاسوز ماحول ہے کہ انسانیت شرما جائے۔ اﷲ کا فضل ہے اور اولیا کافیض کہ اہلِ کشمیر بہت حد تک اسلامی طرزِ زندگی گزار رہے ہیں، جس کا ایک سبب اولیائے کرام کی بارگاہوں سے نسبت وتعلق ہے۔

ہم اپنے چند روزہ قیام کے دوران اولیائے کشمیر کے آستانوں پر حاضر ہوئے۔ ہر بارگاہ پر پروانوں کا ہجوم دیکھا۔محبتوں کی سوغات لٹاتے دیکھا، جھولیاں بھرتے دیکھا،جن زیارت گاہوں میں ہم نے حاضری دی ان کی ایک مختصر فہرست اس طرح ہے:
[۱]حضرت بل- یہاں سرکار اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا موئے مبارک ہے، جسے خاص مواقع پر عام زیارت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہاں ہزاروں افراد ہمہ وقت آتے ہیں۔ اسی سے متصل بڑی عالی شان مسجد اور وسیع و عریض صحن ہے۔ کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے یہاں آگ لگا دی تھی جن کا مقصد موئے مبارک صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین تھا۔عمارت چوں کہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی اس لیے جل گئی اور موئے مبارک والا حجرہ قدرتی طور پر شدید آگ سے محفوظ رہا۔پُرانے نقشے کے مطابق مسلم اوقاف بورڈ کشمیر نے دوبارہ عمارت ومسجد کی تعمیر کروادی۔ پوری عمارت فنِ تعمیر کا نمونہ ہے۔حضرت بل غالباً کشمیری زبان میں موئے مبارک کے لیے محترم اصطلاح کے طور پر رائج ہے۔یہاں قرآن مجید کے قدیم و جسیم نسخے کی زیارت کی گئی۔زیارت گاہ سے متصل ڈل جھیل ہے۔ جس کے اطراف خوب صورت باغات اور پھولوں سے لدی کیاریاں ہیں۔ پانی سے لبریز جھیل میں سرد ہواؤں سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے توعجب کیف محسوس ہوتا ہے۔ پشت پر ہمالہ کے حدِ نگاہ تک سلسلے۔ کہیں کہیں برف پوش چوٹیاں جن سے سورج کی کرن ٹکراتی ہے اور انعطاف ہوتا ہے تو جنتِ ارضی کا حسن اور دوبالاہوجاتا ہے۔
[۲]زیارت گاہ حضرت امیر کبیرسید علی شاہ ہمدانی-نہایت عالی شان وباوقار مسجد میں دا ہنی سمت آپ کا ہجرہ زیارت گاہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے آپ نے اسلام کی اشاعت کی۔ جلالت ایسی کہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے، یہاں اپنے و سبھی کے لیے دعائیں کیں ۔
[۳]حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومی-بلند وبالا مقام پر آستانہ تعمیر ہے۔ کشادہ صحن اور متصل مسجد۔ یہاں سے پورہ سری نگر دکھائی دیتا ہے۔ ڈل جھیل ایک نصف دائرے کی شکل میں یہاں سے نظر آتی ہے اور ہمالہ کی فلک بوس چوٹیاں دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔
[۴]حضرت خواجہ حبیب اﷲ جسّی نوشہری رحمۃاﷲ علیہ -اس مزار اقدس سے متصل آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم سے منسوب تبرکات بھی ہیں۔جن کی زیارت مخصوص مواقع پر کروائی جاتی ہے۔
[۵]حضرت احمد مچام سرہندی(وصال ۱۳؍شعبان۱۲۹۲ھ)-آستانہ وسیع وعریض اور بڑا خوب صورت ہے۔ جلالت عیاں ہے۔
[۶]حضرت سخی شاہ محمد فاضل۴۵۰-؍سال قبل کشمیر آئے۔ اشاعتِ دین کی۔ سلسلۂ قادریہ کے بزرگ تھے۔ یہاں کئی تبرکات ہیں۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی مہر،قرآن مجید کا قدیم نسخہ، غوث اعظم کا موئے مبارک، عمامہ شریف شامل ہیں۔ غوث اعظم سے انتساب کے باعث زیارت گاہ کو ’’درگاہ شیخ عبدالقادر جیلانی‘‘بھی کہا جاتا ہے، جسے دہشت گردوں نے آگ لگادی تھی، مسلم اوقاف بورڈ کشمیر نے تعمیر نو کروائی۔ فی الوقت تعمیر زیرِ تکمیل ہے۔افسوس کہ اسلامی آثار آج حجازوشام، عراق و افغان، مصر ولیبیا، مالی و افریقہ سمیت کئی ملکوں میں دہشت گرد موحدین کی زد پر ہیں۔ اسلامی تاریخ وآثار کھڈیڑنے کا یہ بھیانک عمل یہود ونصاریٰ بھی نہ کر سکے۔ مسلمانوں کو بدعتی و مشرک قرار دینے والے دہشت گردگروہ چاردانگِ عالم میں اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ المیہ ہے اور تاریخی آثار کے ساتھ ظلم بھی۔

اور بھی زیارت گاہیں ہیں وقت کی تنگی کے باعث جہاں حاضری نہ ہوسکی۔ ان شاء اﷲ آئندہ پھر جانا ہوا تو زیارت کا شرف حاصل کیا جائے گا۔

زیارت گاہیں دیودار اور کائری کی لکڑیوں سے بنی ہوئی ہیں، جس میں نقاشی ایسی عمدگی سے کی گئی ہے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔ اﷲ نے کشمیری مسلمانوں کو اس ہنر سے نوازا ہے کہ وہ لکڑی میں منفرد نقاشی کرتے ہیں اور اس فن کے زبردست ماہر ہیں۔مسجدوں، زیارت گاہوں اور مزارات پر گنبد مخروطی ہوتے ہیں جو کشمیری تہذیب کا حصہ ہے۔ عمارت لکڑی کی ہونے کے باجود اتنی پختہ ہوتی ہے کہ صدیاں گزرنے بعد بھی نئی معلوم ہوتی ہے۔لکڑیوں میں نقاشی و فن کاری کے لیے جدید تعمیرات میں اخروٹ کی لکڑی کا بھی اب استعمال کیا جانے لگا ہے۔

ڈل جھیل کے باغات میں کشمیر یونی ورسٹی کے طلبا سے ملاقات ہوگئی جو اسلامک اسٹڈیز میں زیرتعلیم تھے۔ انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر ہمیں مواد مہیا ہو گیا تو ہم عبقری اسلام امام اہل سنت اعلیٰ حضرت پر کشمیر یونی ورسٹی سے تحقیق کریں گے۔ راقم نے ان سے علمی تعاون کا وعدہ کیا۔ ایڈریس اور روابط کے ذرائع قلم بند کروائے گئے۔نوری مشن کی مطبوعات ہدیہ کیں۔ علمی گفتگو ہوتی رہی۔

علی الصبح گلمرگ کی سیر کو نکلے۔ نہایت بلندی پر یہ مقام واقع ہے۔ پورہ راستہ وادیوں، گھاٹیوں سے پُر ہے۔درختوں کے جھنڈ، پھولوں کے ہجوم، چنار، سیب، اخروٹ، بادام اور چیری کے درختوں کی قطار، پھولوں سے لدی وادیاں، سبحان اﷲ۔گلمرگ میں وسیع وعریض میدان جس کے ایک سمت ہمالہ کے سلسلے، برف پوش چوٹیاں، سبز پوش وادیاں۔ ٹھنڈ کا احساس بڑھ رہا تھا۔ ہم نے وضو کیااور وادی میں واقع جامع مسجد میں نمازِ ظہر ادا کی۔ فراغت کے بعد معاًنظر ایک فریم پر جا رُکی جس پر لکھا ہوا تھا ؂
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

قدرت کے نظاروں میں آقا صلی اﷲ علیہ وسلم پرسلام، یہ اﷲ کا انعام ہی ہے، اس سلام نے تو فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے اور روح گنبدِ خضریٰ کی بہاروں میں رقصاں دکھائی دیتی ہے۔بہر کیف!احباب نے برف پوش چوٹیوں کاقصد کیا اور بلندی پر پہنچ کر نعت خوانی کی۔ہم گلمرگ سے عازمِ بارہمولہ ہوئے جہاں سیدخورشید احمد شاہ (سجادہ نشین ومتولی درگاہ حضرت سید محمد جاں باز ولی رحمۃاﷲ علیہ) ہمارے منتظر تھے۔ مسافت تقریباً ۵۵؍کلو میٹر تھی۔ راستہ پہاڑی تھا۔ جگہ جگہ مسلمانوں کے مکانات تھے۔ وادی میں کہیں کہیں مسجد بھی مل جاتی تھی۔ جھرنوں اور چشموں، لق ودق گھاٹیوں سے ہوتے ہوئے ہم بارہمولہ پہنچے ۔ شاہ صاحب اوران کے بھانجے مدثر نقشبندی (ایڈوکیٹ سری نگر ہائی کورٹ) نے ہمارا استقبال کیا۔ اپنے دولت کدہ پر لے گئے۔ نماز سے فراغ کے بعد عمدہ ضیافت کی۔ علمی گفتگو رہی۔ اشاعتی موضوعات پر بھی بات ہوئی۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ ہم نے ۱۹۸۲ء میں عظیم الشان ’’جاں باز لائبریری‘‘ قائم کی جہاں قدیم وجدید کتابوں کا ذخیرہ ہے۔

شاہ صاحب نے بتایا کہ اعلیٰ حضرت کا تعارف جب سے کشمیر میں ہوا تجسس بڑھ گیا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ اعلیٰ حضرت کی تحقیقاتِ علمیہ اور دینی خدمات کا مطالعہ پسند کرتا ہے۔ اسی غرض سے ہم نے ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا قائم کیا ہے۔ جس نے ۸۸؍کتابوں کی اشاعت کی اور مسلمانوں کی اصلاح و فلاح کے ساتھ ہی تعارفِ رضا میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اسی کے ساتھ مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں کے انعقاد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔کتب اہلِ سُنّت کے سیٹ ادارہ نے کشمیر یونی ورسٹی کی آل فیکلٹز میں پیش کیے،نیز قیدیوں میں بھی کتابیں پیش کی گئیں۔اپنے مورث اعلیٰ، حضرت سیدجاں باز ولی(وصال۲۴؍ربیع الاول۸۴۰ھ) سے متعلق بتایا کہ اشاعت دین کی غرض سے ۶۰۰؍برس قبل اصفہان سے کشمیر تشریف لائے۔ مزید بتایا:کشمیر میں میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے۔ ماہِ ربیع الاول میں وادی میں ہر گاؤں، قصبہ، شہر سے جلوسِ میلاد بر آمد ہوتا ہے، کئی مقامات پر پورے ماہ جلوس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گستاخوں کا وجود درانداز دہشت گردوں کی وجہ سے ہے، وہ مال و دولت کے سہارے مسلمانوں میں انتشار ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اولیائے کرام سے محبت نے اب تک وادی کے مسلمانوں کی لاج رکھی ہے۔عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دل آباد ہیں۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں درود وسلام والہانہ اندازمیں پیش کیے جاتے ہیں۔ بارہویں شریف میں پوری وادی صلوٰۃ اور ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘و ’’یانبی سلام علیک‘‘ سے گونجتی رہتی ہے۔ موصوف نے بتایا کہ سالِ گزشتہ اننت ناگ میں جب حضورتاج الشریعہ کی آمد ہوئی تو ایک لاکھ سے زیادہ مجمع تھا۔مجمع نے بیعت کی سعادت بھی حاصل کی۔

کشمیری زبان عمومی طورپر بولی جاتی ہے جو رائٹ ہینڈ ہے۔ سرکاری زبان اردو ہے۔ دفتری کام اور تمام بورڈز اردو میں ہوتے ہیں۔ بس، ایمبولینس، کمپنیوں کے اشتہار، پولس وین، اسکول وکالج کے نام سبھی اردو میں لکھے ملتے ہیں۔ کئی ڈیلی و ویکلی اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ یہاں کی تہذیب مشرق کی آئینہ دار ہے۔ لباس ومعاشرت اوررہن سہن سبھی پر اسلامی رنگ غالب ہے۔پیشہ سیاحت، باغبانی، زراعت، لکڑی پر نقاشی،مویشی پالن، چادر وقالین سازی، کڑھائی وغیرہ ہے۔دگرگوں حالات نے بہر حال کشمیر کو ترقی سے دوررکھاہے۔ اگر سیاسی حالات بہتر ہوجائیں تواہلِ کشمیر کو ترقی کے زیادہ مواقع مل سکیں گے۔ اﷲ کریم مسلمانوں پر فضل فرمائے۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.