ایبولاوائرس کا جائزہ اور چند
حقائق کہ یہ مہلک وبا ء کیسے پھیلی؟مارچ دوہزار چودہ میں مغربی افریقہ کی
ریاست گینیا میں پہلی بار اس وبا کی ابتدا ہوئی اور یکے بعد دیگرے ہمسایہ
ممالک لائبیریا ، سیرا لیون اور نائیجیریا میں پھیلنے کی رپورٹس درج کی
گئیں۔اگست میں عالمی ادارہ صحت نے اسے ہنگامی اور بین الاقوامی وبا قرار
دیا۔امریکا اور یورپ سے کئی امدادی کارکن مغربی افریقہ روانہ ہوئے۔اگست کے
آخر میں سینیگال میں اس وبا کی پہلی رپورٹ درج ہوئی۔عالمی ادارہ صحت نے اب
تک ڈھائی ہزار افراد کی اموات اور پانچ ہزار سے زائد افراد کے ایفیکٹڈ ہونے
کی تصدیق کی ہے یہ اعداد وشمار اوفیشل رجسٹرڈ ہوئے ، اندازے کے مطابق نان
رجسٹرڈ افراد کی اموات اوراس وبا میں مبتلا افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ
ہونے کا امکان ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ایبولا وبا پر
قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے ،مغربی افریقا میں گزشتہ دنوں چار سو افراد
کی اموات ہوئیں ،ایک ڈوکٹر کا کہنا ہے یہ وبا گھانا میں بھی پھیل رہی
ہے،عالمی ادارے نے بدھ کی شام اس خطرناک جان لیوا وائرس سے ایفیکٹڈ اور
ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد و شمار سے آگاہ کیاادارے کا کہنا ہے کہ اب
تک پانچ ہزار افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں اور ڈھائی ہزار افراد کی
ہلاکت ہوئی،صرف گزشتہ ہفتہ کے دوران چار سو امواتیں ہوئیں،امریکا میں
بیماریوں کو کنٹرول کرنے والے ایک ادارے کے ڈائیریکٹر نے پریس کانفرنس میں
بتایا کہ یہ وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اگر اسے فوری کنٹرول نہ کیا
گیا تو علاج کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے انہوں نے اس وبا پر قابو پانے
کیلئے بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی
ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جلد از جلد اقدامات نہ
کئے گئے تو ممکن ہے اس ماہ کے آخر تک اموات کی تعدا ددس ہزار تک ہو سکتی
ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ریاست لائبیریا اس وائرس سے زیادہ متاثر ہے لیکن
خوفناک سیچو ئیشن نائیجریا کے شہر لاگوس کی ہے جہاں بیس جولائی کو ایک شخص
لائبیریا سے آیا وہ ایبولا میں مبتلا تھا اس کی جسمانی حالت کو مدنظر ہوئے
ائیر پورٹ حکام نے اسے ایک مخصوص مقام پر رکھا اور ڈوکٹر سے رجوع کیا لیکن
وہ وہاں سے فرار ہو نے کے بعد پورٹ ہیر کورٹ پہنچے میں کامیاب ہو گیااور
ایک ہوٹل میں شفٹ ہونے کے بعد مقامی ڈوکٹر سے رجوع کیا ڈوکٹر کے علاج سے
مریض کی حالت قدرے بہتر ہوئی لیکن گیارہ اگست کو مریض کے جسم پر نئی علامات
ظاہر ہونے پر اسے مقامی ہوسپیٹل کے مخصوص وارڈ میں منتقل کیا گیا، علاج
جاری رہا لیکن کوئی دوا راس نہ آئی اور وہ چھ دن بعد انتقال کر گیا،دو سو
سے زائد افراد جانتے ہیں کہ دوران علاج اس ڈوکٹر کا سوائے ہوسپیٹل کے عملے
کہ کن کن قریبی افراد سے رابطہ رہا مثلاً اس کا خاندان، دوست وغیرہ اور
ڈوکٹر نے کن افراد کو چھوا،ادارے کا کہنا ہے جن افراد کو ڈوکٹر نے چھوا وہ
سب ممکنہ طور پر اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے یہ
واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد اپنی ٹیم پورٹ ہیرکورٹ بھیجی تاکہ ان لوگوں
کا سراغ لگائیں جن سے ڈوکٹر کا رابطہ رہااور کامیابی حاصل ہونے پر ایک
مخصوص انسٹیٹیوٹ پہنچانے کے بعد علاج کیا جائے،جرمنی کی وائرس پر قابو پانے
والی ایک تربیت یافتہ ٹیم بھی ہیمبرگ سے پورٹ ہیرکورٹ روانہ ہو چکی ہے جہاں
تشخیصی لیبارٹیریز قائم کرے گی ۔جرمن محقیقین کا کہنا ہے ایبولا وباآزادی
سے ایک وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے،نظریاتی طور پر اس پر قابو پانا مشکل
نہیں ہے اس پر قابو پانے کے لئے ایفیکٹڈ افراد کو ایک الگ تھلگ مقام اور
مخصوص وارڈ ز کی تشکیل لازمی ہے دوران علاج ان افراد پر کڑی نظر رکھی جائے
جن کا مریضوں سے رابطہ ہو ،ماضی میں بھی کئی وائرس پر اسی طرح قابو پایا
گیا تھا لیکن اس بار ایک زیادہ خطرناک وائرس نے اٹیک کیا ہے جس کے بارے میں
سوچا بھی نہیں جا سکتااس تباہ کن صورت حال میں میڈیسن بھی تبدیلی نہیں لا
سکتیں۔جمعرات کو جینوا میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں عالمی ادارہ
صحت اور دیگر ممالک کے دو سو سے زائد ایکسپرٹ اس وبا پر بات چیت کریں گے کہ
ان حالات میں ڈوکٹر کون سا لائحہ عمل اختیار کریں ، کون سی ادویات استعمال
کی جائیں اور کون سے ایسے ٹیسٹ پر عمل درآمد کیاجائے جو اس سے پہلے انسانوں
پر نہیں کئے گئے،ڈوکٹرز امید کرتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت ضرور ایسی ادویات
استعمال کرنے کی اجازت دیں گے جن سے اس جان لیوا وبا میں کمی واقع ہو ،لیکن
اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ ادویات کے استعمال کے بعد ایفیکٹد افراد
کب تک زندہ رہتے ہیں۔
امریکن محقیقین کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایبولا وائرس میں ہزاروں افراد
ایفیکٹڈ ہیں ان کا کہنا ہے یہ وبا مغربی افریقہ میں تاریخی ، بد ترین اور
مہلک ثابت ہو رہی ہے ،آنے والے بارہ سے اٹھارہ ماہ تک اس میں نمایاں اضافہ
ہو گا اور مزید پچاس ہزار افراد میں پھیلنے کا خدشہ ہے ۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس وبا پر پانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے
لیکن ادویات اور ویکسین پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی اثر کرتی ہیں ۔
دنیا بھر میں خوف کی ایک لہر پھیل چکی ہے مغربی ممالک کے تمام ائیر پورٹس
ہائی الرٹ کر دئے گئے ہیں اور براعظم افریقہ سے آنے والے افراد کی خاص
چیکنگ کی جارہی ہے ،ساری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ افریقی ممالک کی حالت
کتنے نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے ،صحت کے عالمی ادارے ان ممالک کے افراد کی
صحت کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں،امریکی محکمہ دفاع نے تیس میلین ڈولرز کا
تشخیصی ساز وسامان ، آلات اور فیلڈ ہوسپیٹل ایکسپرٹ عملے سمیت مغربی افریقہ
بھیج دیا ہے ان کا کہنا ہے ان کارروائیوں میں اضافہ کیلئے مزید پانچ سو
میلین ڈولرزکی امداد افریقہ بھیجی جائے گی۔
ترقی پذیر ممالک میں بنیادی بات کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے ’’
ریاست کا ڈھانچہ ‘‘ ریاستوں کے سیاست دان جب تک ملک میں پھیلی بے روزگاری
اور صحت جیسے اہم امور پرتوجہ نہیں دیں گے تو آئے دن ایسی کئی وبائیں
پھیلتی رہیں گی اور لوگ مرتے رہیں گے،یہ کافر ہزاروں میل دور سے انسانوں کو
بچانے کیلئے اربوں ڈولرز پانی کی طرح بہا رہے ہیں اور ایک ہمارے ملک کے
بادشاہ ہیں جو اربوں ڈولرز بچانے کیلئے انسانوں کو سیلاب میں بہا رہے
ہیں،ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے جو امداد غیر ملکی کافروں سے ان
بادشاہوں کو ملتی ہے اس کا ایک روپیہ بھی وقوم و ملک پر خرچ نہیں کیا جاتا
،سوچنا یہ ہے کہ انسان کون ہے اور حیوان کون؟ مسلمان کون ہے اور کافر کون؟
پاکستان میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اور اس آفت سے جو وبا پھیل سکتی ہے
وہ بھی کسی ایبولا سے کم نہ ہو گی ،بادشاہوں کو علم ہے کہ پاکستان میں ہر
سال سیلاب آتا ہے یا لایا جاتا ہے تو کیوں نہیں اس کا سد باب یا حکمت عملی
تیار کی جاتی ،انسان و حیوان گدلے کیچڑ میں بہہ جاتے ہیں دو چار ہزار
غریبوں کی اموات انہی بادشاہوں کی جمہوریت کی مر ہون منت ہیں اور یہ کلف
لگے سفید کالر پہن کر آرمی کے ہیلی
کوپٹر میں تشریفیں رکھ کر مردہ انسانوں اور حیوانوں کا نظارہ کرنے نکل پڑتے
ہیں اور فوج کی شب و روز کی انتھک محنت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کوئی
انہیں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ ریاستوں کے ’’ بادشاہ ‘‘ عوام کی لاشوں کے
نظارے نہیں کرتے بلکہ ریاست میں بسنے والی عوام کے لئے ایسا ٹھوس مکمل نظام
اور ماسٹر پلان تکمیل دیتے ہیں کہ کسی قسم کی قدرتی آفات سے وہ جانی
اورمالی نقصان سے محفوظ رہیں۔
ان نام نہاد بادشاہوں نے ذات پات ،قوم اور فرقوں سے بے نیاز ہو کر ایک
پاکستانی کی حیثیت سے دو ڈیم بنا دئے ہوتے تو ہر سال بے گناہ غریب لوگ نہ
اجڑتے اور نہ مرتے۔کون انہیں سمجھائے؟۔ |