ہرآنکھ یہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
جب تک خون میں دھڑکن اورنطق سلامت ہے ،ہم بولتے اورلکھتے رہیں گے کہ قحط
الرجال نے اِس خطۂ بے نظیر کی نَس نَس میں ایساموادِ بَدبھردیاہے جس کی
جراحی اِس’’اشرافیہ‘‘کے بَس کاروگ نہیں کیونکہ یہ متعفن موادانہی کی
’’کرشمہ سازیوں‘‘سے پیداہوا۔طبقۂ اشرافیہ کوتو’’مسجودِملائک‘‘سے اتنابھی
پیارنہیں جتنایہ اپنے کتوں سے کرتے ہیں۔گئے دنوں کے اوراق پلٹتے ورق ورق
پریہی لکھانظرآتاہے کہ قوم کامقدرکاسۂ گدائی اوراس کے خون سے کشیدکیاایک
ایک قطرہ اشرافیہ کے لیے ’’کشتۂ شاہی‘‘۔قوم کاظرف توسمندروں جیسالیکن یہ
نام نہاداشرافیہ،یہ تَن اُجلے مَن میلے لوگ بخیل ابنِ بخیل جنہوں نے اپنی
زمینوں کے گردبڑے بڑے بندباندھ کربستیوں کی بستیاں اُجاڑکررکھ دیں لیکن اُن
کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَرہوئی نہ حکمرانوں میں اتنی ہمت کہ اُنہیں نشانِ
عبرت بنادیں۔ہوں گے بہت مداح سرائی کرنے والے لیکن جب ہرطرف بہتی لاشوں
کاطوفان اُمنڈآیاہوتوصرصرکوصباکیسے کہہ دوں۔مجھے تووہ لاشیں نظرآتی ہیں جن
کے مردہ ہونٹوں پریہ سوال چپک کررہ گیاہے کہ ’’آخرہماراقصورکیاتھا؟‘‘۔مجھے
تواُس بوڑھے کی دہائی نے بے کل کررکھاہے جس کی زیست کاساراترکہ نذرِآب
ہوا۔میں توبچشمِ نَم اُس باپ کی آہ وبکاسُن رہاہوں جس کے کڑیل جوان پانی
میں بہہ گئے اورننھی منی نسلِ نَوبھی۔مجھے تووہ ماں بے چین کررہی ہے
جوگودمیں اپنے معصوم بیٹے کی لاش اُٹھائے ہرآنے جانے والے کوٹَکرٹَکرگھورتی
جارہی تھی۔کہانیاں بیشمار،کہی بھی اوراَن کہی بھی لیکن لکھنے
کایارانہیں۔سوچتاہوں کہ بے بس وبے کَس مظلوم ربِ لَم یزل سے یہ
فریادتوضرورکرتے ہونگے کہ
نہیں ہے کچھ نہاں تُجھ سے خُدایا
سلوک ہم سے جودنیانے کیاہے
یہ بجاکہ حکمران سرتوڑکوششیں کررہے ہیں۔میاں برادران کی کاوشیں بھی
بجامگرہم وزیرِاعظم صاحب کایہ کہاتسلیم کرنے کوتیارنہیں کہ یہ ناگہانی آفت
ہے جس کاپہلے سے کچھ پتہ نہیں تھا۔ قوم کوسیلابوں کاسامناتو1950ء سے
ہے۔چھوٹے موٹے سیلابوں کوچھوڑیے ،اب تک 21 ایسے بڑے سیلاب آچکے ہیں جن کی
تباہ کاریوں کی داستانیں اب بھی زباں زدِعام ہیں۔پھریہ ناگہانی آفت کیسے
قراردی جاسکتی ہے؟۔چلیں حکمرانوں کوتوغفلت اورکوتاہی کاطعنہ دے کرچُپ ہورہے
کہ اِس کے سواکربھی کیاسکتے ہیں لیکن اُن رہنماؤں کاکیاکیجئے کہ جنہوں نے13
ستمبرکوجشن منانے کااعلان کررکھا تھا؟۔اُس وزیرِاعلیٰ کے لیے سزاکاانتخاب
کون کرے گاجوایک ماہ سے اپنے صوبے کوبے یارومددگارچھوڑکراسلام آبادمیں
دھرنادیئے بیٹھاہے؟۔
ماؤزے تنگ نے کہا’’سو طرح کے پھولوں کوبہاردکھانے دو،سوطرح کے
افکارکومقابلہ کرنے دو۔خوشبووہی حاوی ہوگی جوبہترہے،رنگ وہی غالب آئے
گاجوحقیقی ہے‘‘۔خاں صاحب کے اول توکوئی افکارہی نہیں تھے لیکن اگرکچھ لوگ
بضد ہیں کہ تھے توپھربھی اُن کے رنگ پھیکے پڑگئے اورقوم نے اُنہیں رَد
کردیا۔ جاویدہاشمی کہتے ہیں’’دھرنوں کاکوئی انجام نہیں،ظالموں نے عمران خاں
کے لیے واپسی کاکوئی راستہ نہیں چھوڑا‘‘۔راستہ توتھا،بڑاباوقارراستہ۔خاں
صاحب اپنی انانیت کے خول سے باہرآتے اور سیلاب کابہانہ
بناکردھرنامؤخرکردیتے لیکن وہ توعالمِ غیض میں ہیں۔شایداُن کے نہاں خانۂ دل
میں بھی یہ تمنا انگڑائیاں لے رہی ہوکہ
خواہش توہے کہ دل کوسکوں آشناکریں
کم ہوں نہ شورشیں ہی لہوکی توکیاکریں
لیکن ایک تووہ اسیرِانانیت ہیں اوردوسرے اُنہیں یقین
دلادیاگیاتھاکہ’’وہ‘‘اُن کے ساتھ ہیں اِس لیے کچھ فرق نہیں پڑتاکہ دھرنے
میں دس لاکھ لوگ ہیں یادس ہزار۔’’وہ‘‘کابھانڈاپہلے جاویدہاشمی نے
پھوڑااورپھرپاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف باجوہ نے کھُل کرکہہ دیاکہ
’’فوج کاموجودہ سیاسی بحران سے کوئی تعلق نہیں۔وہ آئین کی پاسداری
اورجمہوریت کے تسلسل پریقین رکھتی ہے‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ’’سکرپٹ
رائٹرکی باتوں پرافسوس ہوا۔یہ سیاسی بحران ہے اور سیاسی جماعتوں نے مِل
بیٹھ کرحل کرناہے‘‘۔فوجی ترجمان کے اِس بیان کے بعدتحریکِ انصاف کے غبارے
سے رہی سہی ہوابھی نکل گئی اورخاں صاحب جوپہلے امپائرکی انگلی اُٹھنے کے
اشارے دیاکرتے تھے ،اُنہیں بھی یہ کہناپڑا’’عدلیہ سے کوئی توقع ہے نہ فوج
سے،جوکچھ کرناہے عوام نے ہی کرناہے‘‘۔یہ بجاکہ جوکچھ کرتے ہیں عوام ہی کرتے
ہیں سوال مگریہ ہے کہ کیا20 کروڑکے پاکستان میں تین،چارہزارلوگ انقلاب
لاسکتے ہیں؟۔کیاخاں صاحب کے نئے پاکستان کا تصوریہی ہے جس کی جھلکیاں ہم
دھرنوں میں دیکھ رہے ہیں؟۔کلامِ منورتودرسِ حیادیتا ہے اوراجدادکاورثہ بھی
یہی لیکن خاں صاحب تومادرپدرآزادمعاشرے کی بنیادوں پرنیاپاکستان استوارکرنے
کی تگ ودَومیں ہیں اورایساکرتے ہوئے وہ یہ تک بھول بیٹھے کہ قومی وملی
یکجہتی کے تقاضے کیاہیں۔قولِ علیؓ ہے’’جلدبازکامیابی سے،تیزمزاج درست اقدام
سے اورجھوٹاعزت سے ہمیشہ محروم رہتاہے‘‘۔خاں صاحب کی جلدبازی اظہرمن الشمس
ہے۔اُنہوں نے عقیل وفہیم اصحاب کے باربارمنع کرنے کے باوجودعین اُس دن
دھرنے کاپروگرام بنایاجب پوری قوم جشنِ آزادی کی خوشیاں منارہی تھی۔حکومت
نے بھی خاں صاحب سے استدعاکی کہ وہ اپنادھرنامؤخرکردیں لیکن خاں صاحب
کوتوجلدی ہی بہت تھی۔لاریب تیزمزاجی اورغضب ناکی میں اُن کاکوئی ثانی
نہیں۔وہ عالمِ غیض میں ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جنہیں سُن کرسرشرم سے
جھک جاتے ہیں۔رہی جھوٹ کی بات توکبھی ہم بھی اُنہیں سچااورکھراانسان
سمجھاکرتے تھے لیکن جب وقت نے طنابیں کھینچیں توقوم نے اپنے سامنے ایک ایسے
انسان کوکھڑاپایاجسے سچ بولنے کی عادت ہی نہیں۔اب یہ عالم ہے کہ اُن کے
دھرنے میں یاتوتواترسے جھوٹ بولاجاتاہے پھرمیوزیکل کنسرٹ اورہلاگُلا۔اگرنئے
پاکستان کایہی تصورہے تواﷲ وطنِ عزیزکوایسے پاکستان سے بچائے۔ |
|