ایک سوال جس نے مجھے ایک مہینے
سے پریشان کر رکھا ہے، کلاس روم ہو دوستوں کا بیٹھک ہو ، پبلک پلیس ہو
یاکہیں اور۔ ہر جگہ اسی ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میرے پاس اسی سوال
کا کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں ہے۔میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ سے اس بارے
میں کوئی سوال ہی نہ کرے اور نہ ہی میں اس معاملے پر لب کشائی کروں۔سوال یہ
ہے کہ آپ کی ہمدردیاں موجودہ سیاسی بحران میں کس کے ساتھ ہیں، دھرنے والوں
کے ساتھ، حکومت کے ساتھ یا پھر کسی اور کے ساتھ۔؟
دھرنے پچھلے ایک ماہ سے جوں کہ توں جاری ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ شرکاء کی
تعداد لاکھوں، ہزاروں یا پھر سینکڑوں میں ہے۔یہ بھی ایک علیحدہ موضوع کہ ان
دھرنوں کے پیچھے کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں۔عمران خان کس کے ایجنٹ ہے
اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کس کے مہرہ۔ان باتوں
سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم دھرنوں کے مثبت پہلؤں پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ بات
سب کو تسلیم کرنی چاہیے کہ ان دھرنوں نے عوام کو جو آگہی دی وہ پاکستان کی
آذادی سے لیکر آج تک کوئی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی نہ دے سکی۔جس طرح عوام
کو استحصالی نظام اورجمہوریت کی آڑمیں گھسی پٹی وراثتی جمہوریت اور نسل
درنسل اقتدار میں رہنے والے محصوص لوگوں کے خلاف پرامن اور آئینی دائرہ کار
میں رہ کرنفرت کے اظہار کاجوموقع ان دو جماعتوں کے دھرنوں نے دیا، وہ آج تک
نہ کوئی اسلامی تحریک دے سکی نہ ہی کوئی سیاسی تحریک۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت سے مجھے بھی اختلاف ہے اور آپ کو بھی ہوسکتا
ہے۔لیکن پاکستانی قوم تو اس بات سے بھی لاعلم تھی کہ عوام کی نمائندگی کا
ڈھونک رچانے والے آئین کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہی
نہیں۔موجودہ سیاست دانوں میں جو پارلیمنٹ کے اندربیٹھ کر روز جمہوریت اور
آئین کے حق میں دھواں دار تقریریں کرتے ہیں ،اس گھسی پٹی جمہوریت کی طرف
میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نوچ ڈالنے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں،
یہی لوگ اسی آئین کے شق 62,63کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہی
نہیں۔جس دن ان دو شقوں کا صحیح معنوں میں اطلاق ہوگا یہ سارے پارلیمنٹ سے
اٹھا کر باہر پھینک دیے جائیں گے۔اوریہ شعور مجھ سمیت پوری قوم کو
طاہرالقادری نے دیا۔دوسری بات ،پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کی بنیادوں
میں ماڈل ٹاؤن کے درجن بھر شہیدوں کا لہو شامل ہے۔جس طرح پاکستان کی سیاسی
اور دینی جماعتوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سکوت اختیار کرکہ ’’مٹی پاؤ‘‘ کی
پالیسی اپنائی وہ باعث حیرت ہی نہیں باعث شرم بھی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری اور
اس کے عزائم سے لاکھ اختلافات سہی لیکن مولی گاجر کی طرح معصوم انسانوں کی
کٹائی پر شرمناک حد تک خاموشی کا مطلب یہ ہے ، کہ عوام جائے جہنم میں ، ہم
نے اپنی لولی لنگڑی جمہوریت کا دفاع کرنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے ان لوگو ں کو جنجھوڑا ہے جو کبھی سیاسی عمل سے الگ
تھلگ رہنے میں ہی عافیت سمجھتے رہے، اوراسی کا فائدہ اٹھا کر اشرافیہ ہمیشہ
اپنا الو سیدھا کرتی رہی۔آج وہی لوگ سیاسی عمل کا حصہ بن کر ان کالی بھیڑوں
کے حلق میں ہاتھ ڈال رہے ہیں جو اس ملک کے عوام اوروسائل کو باپ کی جاگیر
سمجھ کر ہڑپ کر جانے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے
لانگ مارچ اور دھرنوں کی بنیاد دھاندلی کے الزامات ہیں۔اور یہ الزامات ثابت
کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ،
وسیع پیمانے پر ہوئی، ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اوراگر آج اس بنیاد پر اٹھنے
والی تحریک خدانخواستہ ناکام ہوگئی تو پھر آئندہ اس سے بڑھ کر دھاندلی ہوگی
،پھر صرف مخصوص علاقوں میں ہی نہیں پورے ملک میں الیکشن نہیں صرف سلیکشن ہی
ہونگے۔
لیکن اس صورت حال میں تحریک انصاف کی ایک منطق میری سمجھ سے بالاتر
ہے۔کراچی کئی دہایؤں سے مخصوص ٹولے کے قبضے میں ہے۔ جہاں ہمیشہ سلیکشن ہی
ہوتے ہیں۔حلقے کے مجموعی ووٹ سے زیادہ ایک پارٹی کا امیدوار زیادہ ووٹ لے
رہا ہوتا ہے۔پولنگ عملہ اغواء کیا جاتا ہے، پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر کہ
عملہ یرغمال بنایا جاتا ہے۔لیکن تحریک انصاف اس بارے میں’’ احتیاط و احترام
واجب ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اس بارے میں تحریک انصاف کی خاموشی معنی
خیز ہے۔اگر گزشتہ انتخابات کی صاف و شفاف تحقیقات ہوجائیں تو مجھے ایک سو
ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ کراچی کے تمام حلقوں کے انتخاب کالعدم
قرارپائیں گے۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف، کہ میری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں؟ ۔سچ بتاؤں
تو میری ہمدردیا ں سب کے ساتھ ہیں۔ حکومت کے ساتھ اس بنیاد پر کہ بیچاری
حکومت چاہتے ہوئے بھی ان دھرنوں کے خلاف کاروائی نہیں کرسکتی۔اور کیوں نہیں
کر سکتی اس کی وجہ وہ پریس ریلیز ہے جس میں واشگاف الفاظ میں لکھا گیا تھا
کہ ’’طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے‘‘۔ دھرنے والوں کے ساتھ میری ہمدردی
کی بنیاد یہ ہے کہ میوزک کنسرٹ کی وجہ سے عمران خان اور اس کے دھرنے کوملک
کے مذہبی طبقے نے یکسر مسترد کر دیا۔ممولانا فضل الرحمان اور محمود خان
اچکزئی بے چارے نمک کا حق ادا کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ سب
سے بڑھ کر مجھے جماعت اسلامی پر ترس آتا ہے، جس نے دھاندلی کی بنیاد پر
کراچی میں انتخابی عمل کے دوران بائیکاٹ کیا۔ لیکن وہ بھی آج اسی انتخابات
کے نتجے میں پنپنے والی ــ’’جمہوریت‘‘کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کیلئے تن من
دھن کی بازی لگا رہے ہیں۔جماعت اسلامی سے ایک سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے اسی
پاکستان برانڈجمہوریت کو سہارا ہی دینا تھا تو کراچی میں عین وقت پر
بائیکاٹ چی معنی دارد۔ |