ایک بھیڑیے کے حلق میں ہڈی پھنس گئی۔ اس کو
جان کے لالے پڑ گئے۔ جنگل میں وہ بے چینی کے ساتھ بھاگتا پھر رہا تھا۔ جان
بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اتفاق سے اس کی نظر ایک سارس پر پڑی۔ بے
تحاشہ اس کی طرف بھاگا اور کہنے لگا۔”بھیا سارس! میرے حلق میں ہڈی پھنس گئی
ہے۔ تمہاری چونچ بڑی لمبی ہے۔ میرے حلق میں پھنسی ہڈی نکال دو۔ میں اس کے
صلے میں تمہیں بڑی اجرت دوں گا۔“سارس کو بھیڑیے کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس
نے چونچ فوراً اس کے گلے میں ڈال دی۔ چونچ سے ہڈی کو پکڑ کر ایک جھٹکا دیا
تو چونچ کے ساتھ ہی ہڈی باہر آگئی۔ پھنسی ہڈی نکلتے ہی بھیڑیے نے سکون کی
سانس لی۔ جب سارس نے بھیڑیے سے مزدوری مانگی تو اس نے خونخوار دانت باہر
نکال کر غراتے ہوئے کہا! ”کیا یہ مزدوری کم ہے کہ تیری پوری چونچ میرے
جبڑوں کے شکنجے میں آگئی تھی۔ میں نے اسے چبایا نہیں۔ چبا دیتا تو مجھ سے
مزدوری نہ مانگتا۔“بیان کردہ حکایت پر ذرا غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ
کہانی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر صحیح صادق بیٹھتی ہے۔
استعماری قوتوں کا سرخیل و سپر پاور امریکہ کی پاکستان نے کب مدد نہیں کی؟
سوویت یونین کی افغانستان میں پسپائی سمیت امریکہ کا افغانستان میں
برسربیکار جنگ میں اتحادی ہونا مددگار ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ یہ پاکستان کی
قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج امریکہ قطبی طاقت ہے۔ ہمارے دو بڑے احسانات جس کا
بدلہ نہ کبھی پاکستان کو ملا اور نہ کبھی امریکہ بیچ کر چکایا جا سکتا ہے۔
پہلا احسان جب سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنا تھا۔ پاکستان ہی نے
طالبان کے ساتھ مل کراس وقت کی عالمی طاقت سوویت یونین کو پسپائی پر مجبور
کیا۔ اس کے بخیے ادھیڑے جانے کے بعد امریکہ بنا سپر پاور اور ہمیں انعام
کیا دیا؟ بے وفائی اور دہشتگردی کا عذاب و القابات۔ باوجود اس کے دوسرا
احسان گزشتہ آٹھ نو سالوں سے پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے جانی
نقصانات جتنے ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کا نصف بھی امریکہ کا نہیں ہوا جبکہ
ہمارے مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان احسانات
کے جواب میں القاعدہ اور طالبان کی پشت پناہی اور طالبان کی اعلیٰ قیادت کا
پاکستان میں موجودگی کا مستقل الزام لگاتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال
امریکی سینٹ کی ایک رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار دو میں
افغانستان کی تورا بورا کی پہاڑیوں پر ہونے والی بمباری میں اسامہ بن لادن
پھنس گئے تھے۔ اور اگر مزید امریکی فوج وہاں بھیج دی جاتی تو اسامہ بن لادن
کو وہاں سے بچ نکل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غائب ہوجانے کا موقع نہ
ملتا۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی برطانوی وزیراعظم گارڈن براؤن اس رپورٹ
کے منظر عام پر آنے کے بعد بیان دیتے ہیں کہ پاکستان کو ثابت کرنا ہوگا کہ
وہ القاعدہ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کو
خبردار کیا کہ اسے القاعدہ کی قیادت بالخصوص اسامہ بن لادن اور ایمن
الظواہری کو ڈھونڈ نکالنے میں دنیا کی پوری مدد کرنی ہوگی۔ موصوف مزید
فرماتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ آٹھ سال گزرنے کے
باوجود ہم القاعدہ کی اہم قیادت کے نزدیک کیوں نہیں پہنچ سکے ہیں۔ امریکہ
اور اس کے اتحادیوں کی زبان درازیاں، ذلت اور موت سے بچنے، شکست چھپانے اور
جان چھڑانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اپنی ناکامی کی کالک ہمارے منہ ملنے کی
ناکام کوششیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔
زمانہ اس حقیقت سے آشکار ہے کہ روس کے افغانستان کے نکلنے کے بعد جب طالبان
نے عنان حکومت سنبھالی تو امریکہ و نیٹو کی یلغار تک عموماً پاکستان اور
خصوصاً افغانستان میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی نہ تھی اور نہ ہی خودکش حملے
تھے۔ امریکی یلغار کے جواب میں شروع ہونے والی دہشتگردی دراصل جہاد فی سبیل
اللہ ہے۔ جو ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے جب کوئی دشمن ان کی سرزمین پر ان
کے مقابل صف آراء ہو جیسے افغانستان و عراق میں ہوا۔ اسے دہشتگردی کا نام
دے کر بدنام کرنے کا مقصد امریکہ کی خود ساختہ اور منظم دہشگردی کو چھپانا
ہے۔ لاکھوں مسلمانوں کو گزشتہ آٹھ سال میں دہشتگردی کے جہنم میں ڈال دیا
گیا۔ امریکہ، اس کے نیٹو اتحادی ہر طرح کا تباہ کن اسلحہ استعمال کرنے کے
باوجود دہشتگردی کی جنگ میں جیت سے کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تجزیہ
نگار یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ افغانستان امریکہ کے لیے دلدل بن چکی ہے۔
اس وقت افغانستان میں اڑسٹھ ہزار امریکی فوجی ہیں جو دیگر ممالک کی طرف سے
بھیجی گئی بین الاقوامی فوج کے ساتھ طالبان سے نبرد آزما ہیں یوں افغانستان
میں بین الاقوامی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ امریکی صدر کے اضافی
30 ہزار فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ اتنی بھاری فوج کی موجودگی کے باوجود
کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان
اٹھایا ہے۔ امریکہ اور اتحادی افواج کو اس ناکامی اور دلدل سے نکلنے میں
ایک بار پھر پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔ امریکہ جانتا ہے کہ جدید ترین
ہتھیاروں اور مہارت و تکنیک کار افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان سے
با عزت انخلاء میں ممکنہ مددگار پاکستان ضرور ہوسکتا ہے۔ حلق میں پھنسی ہڈی
(افغان طالبان) نکالنے کے لیے ایک بار پھر لمبی چونچ والی سارس کی ضرورت ہے۔
البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لمبی چونچ کو بھیڑیے کے جبڑوں میں دینا
آسان نہیں جب کہ اس مشکل کام کی مزدوری وغیرہ ملنے کا امکان بھی بہت کم ہو۔ |