تصویر کا دوسرا رخ

معاشرے جب تباہی کے دہانے پر پہنچتے ہیں تو مبالغہ آرائی اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔ضمیردھڑادھڑ بکتے ہیں ‘حکمران آنکھیں رکھتے ہیں مگردیکھ نہیں سکتے ‘کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے ۔اس دوران کئی شعبدہ باز بھی آتے ہیں لیکن محض قوم کی آنکھیں کھلوانے کی خاطراورپھر انہیں فطرت راہ سے ہٹاکربکھرے ہجوم کو ایسارہنماء میسرکرتی ہے کہ تاریخ رقم ہوتی ہے۔مگرشرط ہوتی ہے ‘یہاں بھی غیرمشروط طورپرکچھ نہیں ملتا۔دیدہ بینا‘خلوص نیت‘انتظامی صلاحیت اورجرات شرط اول وآخر۔
اسوقت غربت ‘انارکی‘دشمنوں کی پیوند لگی دہشت گردی‘مہنگائی ‘لوڈشیڈنگ‘اقرباپروری‘اغوابرائے تاوان‘بے لباسی‘سرعام خواتین کارقص ‘دروغ گوئی الغرض ہرسماجی‘معاشرتی ومعاشی برائی بدرجہ اتم ہم میں موجود ہے اوران میں سے بیشتر کی جڑیں لاقانونیت میں پیوست ہیں ۔ہم جس آئین کا روناروکراس فرسودہ نظام جمہوریت کی حمایت کررہے ہیں اس پر عمل درآمد ہی نہیں ہورہااگرمحض اسی آئین کی ہرشق قابل عمل بنادی جائے توپاکستانی عوام میں خوشحالی آسکتی ہے۔لفافہ کا الزام سہہ کر بھی چند کالم نویس محض اس وجہ سے حکومت وقت کا ساتھ دے رہے ہیں کہ انتشار کسی مسئلے کا حل نہیں ‘ریاستی عمارتوں پر حملوں کی وجہ سے آج جو جماعتیں زیر عتاب ہیں اگرکچھ عرصہ میں طرز حکمرانی نہ بدلا تو ان کے قلم بھی رخ تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائیں گے ۔پھر چاہے ووٹ کے ذریعے تبدیلی آئے چاہے تباہی کے ذریعے اسکے ذمہ دار پرانی سیاسی روش پر قائم امراء و سیاستدان ہونگے۔قلم کار جو فطری طور پر غریب کے دل کی آواز ہوتاہے کب تک آخر کب تک اس شورزدہ سیاسی زمین کو تحفظ فراہم کرے گا؟ان کی چاہت تو یہی ہے کہ بغیر کسی جانی ومالی نقصان کے سب کچھ امن وامان سے ہوجائے اگر ایسانہ ہوسکااورعوام نے حق چھیننا شروع کردیاتوموت کے فرشتے کے نظرآنے کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی۔دھرنے والوں کے استعفی کامطالبہ جائز ہے مگر بزوردھرنااسے حاصل کرناناجائز بات ہے ۔دھاندلی کے متعلق کچھ فیصد مقررہونی چاہیئے کے اگر اتنی مقدارمیں دھاندلی ثابت ہوگئی تو وزیراعظم استعفی دے دینگے ۔یہی معقول اورآئینی راستہ ہے ۔آئین واقعی انسان کابنایاہواہے اسے بدلاجاسکتاہے ‘ترمیم کی جاسکتی ہے مگر جب ہم ایک قوم ہوں تب ایساممکن ہوگا‘جوبن چکاسوبن چکااب دوردورتک کسی نئے متفقہ آئین کی منظوری کی اُمید نہیں۔
سیاست دانوں سمیت کوئی بھی شخص اگر تائب ہوجائے تو اسے سینے سے لگانے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے مگر اکثر تو آج تک قرون وسطی میں جی رہے ہیں اورببانگ دہل دربارمیں کہتے رہے کہ ’’عوام نے معزز درباری کو ہاتھی پر سے اتارکرقبیح حرکت کا ارتکاب کیاہے‘انکے خلاف تحقیق کی جائے ‘وغیرہ وغیرہ‘‘۔حیرت ہے ہاتھی پر سوار ہونے والے اور اسکے حمایتی بھول گئے کہ ان کے جسم میں دوڑتاخون اپنی خوراک خط غربت سے نیچے بسنے والوں پرمحصول لگاکروصول کرتاہے۔اگرمعززہیں تو پھر وہی اشخاص معزز ہیں جوبغیر کچھ کام کیئے آپ کو‘ آپ کی تنخواہ اداکرتے ہیں‘سوداسلف لانے اورنااہل ہونے کے باوجود آپ کونوکری دینے پربضد ہیں مگر ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھاجائے قیمت بھی اتنی ہی اداکرنی پڑتی ہے۔بعض کی عقل گھاس چرنے گئی ہے اور آخری سانس تک واپسی کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی ‘انہونی ہوجاناالگ معاملہ ہے۔

مانا کہ دھرنے کی طوالت نے بہت سے نقصان کیئے مگر اسکے مثبت اثرات بھی منظرعام پر آچکے ‘۔کچھ احباب دھرنے کی تعداد کے متعلق چٹ پٹی باتیں کرکے قہقے لگاتے ہیں ۔اگر پانچ ہزاریاچھ ہزار دھرنے کے شرکاء کی تعداد ہے اور دوسری جانب حکومتی ارکان پارلیمنٹ توواضح لفظوں میں یوں ہواکہ حکومت کو 294(افراد کی اور دھرنے والوں کو پانچ ہزار افراد کی سپورٹ حاصل ہے۔اگر آپ کہتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ ووٹ کی طاقت سے آئے ہیں اورصرف حکومتی ارکان کو سوایاڈیڑھ کروڑ ووٹ ملے ہیں تو پھر سن لیجئے آپ کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ ptiکو محض 4یا5ہزارلوگ سپورٹ کررہے ہیں‘ انہیں جنرل الیکشن میں 75 لاکھ ووٹ ملے ہیں ان کے دھرنے کا مطلب 75لاکھ ووٹرز کی سپورٹ ہے‘جسے 18کروڑ عوام میں تقسیم کریں تو انکے حامیوں کی تعداد پانچ کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔جسے کبھی جلسیوں اوردھرنیوں کانام دیاجاتاہے۔ایک اور زاویہ یہ ہے کہ کچھ ارباب اختیار اس بات پر بضد ہیں کہ اسوقت خان صاحب مکمل عوامی حمایت کھو چکے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ جناب آپ بغیر کسی پروٹوکول کہ تن تنہا ملک کے کوچہ وبازار سے گزرکردیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ آپ کے پاس اب کتنی حمایت باقی ہے ۔اگر آپ دھرنے کو معاشرتی واسلامی پیمانے پر تولناچاہتے ہیں تو دین کے پردے کے احکامات کسی عالم سے پوچھ لیجئے اورمعاشرے کے متعلق آپ کو اندازہ ہوناچاہیے کہ ہم مشرق میں جی رہے ہیں مگر اس ترازومیں صرف ایک جماعت کو نہیں بلکہ ان جماعتوں کو بھی شامل رکھیئے جو دین کالبادہ اوڑھے بیٹھی ہیں اورانکی پارٹی میں بھی برصغیرکی بیٹی پارلیمان کی ممبرہے۔ایک نہیں تصویرکا دوسرارخ بھی دیکھناسیکھئے ‘جن لوگوں کے توسط سے آپ کو بات پہنچ رہی ہے ان کے اپنے پیشے سے اخلاص کوجانے بغیرآپ سوفیصد فیصلہ نہیں کرسکتے اگرچہ یہ ایک مشکل زاویہ ہے مگرحقیقت یہی ہے۔

isi اورفوج کو زیرعتاب لانے والوں کے پاس کوئی شہید صوبیدار عناب ہے تو بتائیے جو بغیرکسی رنگ ‘نسل‘زبان اورفرقہ وارانہ عصبیت کے غریب پاکستانیوں کی جان بچانے کی خاطر محفوظ مقام سے سیلاب کی بے رحم موجوں میں کود پڑاہو ‘کوئی معززومقدس پارلیمان میں صوبیدارعناب جیسافرد اب بھی موجود ہے تو بتائیے ہم صوبیدارعناب کے ساتھ ساتھ اسے بھی سلام پیش کریں گے ۔مانا کہ ان اداروں کے چند افراد سے انفرادی غلطیاں ہوئیں مگراسکاالزام افواج پاکستان پر رکھنااورہرالٹی سیدھی حرکت کو افواج پاکستان سے سونپ کر ’’بہادر‘‘کہلوانے کاشوق رکھنے والے بتائیں کیا افواج پاکستان کو ایک ہی رخ سے دیکھناچاہیئے کہ انھوں نے جمہوریت کے ساتھ کیاسلوک کیا؟؟کیا ضرب عضب‘غیرملکی دشمنوں سے جنگیں اورسوئے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کے ادوار میں آنے والے سیلابوں میں افواج پاکستان کی بیش بہاخدمات اتنی مختصرہیں کہ انھیں فراموش کردیاجائے۔اگر سیاستدانوں کی کوتاہیوں کے باوجود جمہوریت معصوم ہے تو پھر دوسروں کی تصویرکاایک ہی رخ کیوں دکھایاجاتاہے اوروہ بھی مسخ کرکے۔

معاشرے جب تباہی کے دہانے پر پہنچتے ہیں تو مبالغہ آرائی اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔ضمیردھڑادھڑ بکتے ہیں ‘حکمران آنکھیں رکھتے ہیں مگردیکھ نہیں سکتے ‘کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے ۔اس دوران کئی شعبدہ باز بھی آتے ہیں لیکن محض قوم کی آنکھیں کھلوانے کی خاطراورپھر انہیں فطرت راہ سے ہٹاکربکھرے ہوئے ہجوم کو ایسارہنماء میسرکرتی ہے کہ تاریخ رقم ہوتی ہے۔مگرشرط ہوتی ہے ‘یہاں بھی غیرمشروط طورپرکچھ نہیں ملتا۔دیدہ بینا‘خلوص نیت‘اخلاقی برتری ‘انتظامی صلاحیت اورجرات شرط اول وآخر۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174733 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.