آج الطاف حسین صاحب کی تقریر سن
کر میں حیرت کی وادیوں میں گم ہوگیا کہ آج اکیسویں صدی میں بھی الطاف بھائی
قومیت اور زبان کی بات کرتے ہیں۔ انکی تقریر مہاجرین پر ظلم وستم کی روح
فرسا داستان غم پر مبنی تھی۔ انکے بقول مہاجرین اردو سپیکنگ لوگوں پر ظلم
وستم کے پہاڑ توڑے گئے، نوکریوں سے نکالا گیا ، امتیازی سلوک برتا گیا ،
انھیں ہندوستوڑے کہہ کر ذہنی اذیت دی گئی۔ ساتھ ہی الطاف بھائی نے چودہ
سوال آرمی چیف جنرل رآحیل شریف سے پوچھے جن کا جواب تو فوج دے گی ۔ مجھے
جواب تو آتے ہیں لیکن جن سے سوال پوچھے جائیں جواب انھیں ہی دینے چاہئیں
مجھے خوامخواہ خود ساختہ فوج کا سپوکس پرسن بننے کی ضرورت نہیں ۔ مگر بحثیت
پاکستانی شہری میں بھی چند سوالات الطاف بھائی سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ پہلا
سوال مہاجرین پر اگر کوئی ظلم وستم ہوا ہے تو یہ ظلم کس نے کیا ؟ مجھے کامل
یقین ہے کہ یہ ظلم پاکستان کے انصار ( مقامی باشندے ) نے نہیں کیا - یقینی
طور پر یہ ظلم و ستم کے پہاڑ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ، فوجی آمروں نے ڈھائے
ہوں گے ، کیونکہ پاکستان میں حکومت انہی تین عناصر کی رہی ہے اور یہ بھی نہ
جھٹلانے والی حقیقت ہے کہ آپکی پارٹی ہر حکومت کے ساتھ رہی ہے بلکہ تادم
تحریر آپ سندھ حکومت میں شامل ہیں بلکہ گورنر بھی آپکا ہے۔ پھر یہ گلہ کیسا
اور کیوں ؟ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ قومی ولسانی منافرت
پھیلانے کی بجائے اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیر کر اصلاح کرلیں۔ ٹی وی پر
چیخنے چلانے کی بجائے اپنے دوست حکمرآنوں کے ساتھ بیٹھ کر معملات طے کرلیں
۔ ہم پہلے ہی دھڑوں فرقوں میں بٹے نفرتیں پال رہے ہیں اور آپ لسانیت کی
نفرت کا بیج نہ بوئیں جسے کاٹنا آئندہ نسلوں کو پڑے۔ میں جس محلے میں بڑا
ہوا ہوں وہاں بہت سے گھر اردو سپیکنگ لوگوں کے تھے اور آج بھی ہیں، ہم
اکٹھے کھیلے ، جوان ہوئے، ہم میں نہ کوئی نفرت تھی نہ ہے، جو حقوق ہمارے
تھے وہی انکے تھے۔ دوسرا سوال آپکو اصل درد کیا ہے ؟ کیونکہ مہاجرین کی بات
کرنا تو شائد ایک سیاسی کارڈ ہے ۔ اصل کہانی کیا ہے ؟ کہیں لندن میں عمرآن
فاروق قتل میں آپکے گرد گھیرا تنگ تو نہیں ہورہا اور پاکستانی حکومت نے جو
دو قاتل پکڑ رکھے ہیں اور سکاٹ لینڈ یارڈ ان دو بندوں کا مطالبہ کررہی ہے-
آپ کی خواہش ہے کہ وہ دو بندے لندن پولیس کے حوالے نہ کیے جائیں ۔ ان گوروں
پر تو بھائی کا بس نہیں چلتا اور آئے روز مہاجر کارڈ کھیل کر حکومت پاکستان
کو دھمکاتے رہتے ہیں کہ خبردار دو بندے لندن پولیس کے حوالے نہ کرنا۔ بھائی
کا تو حساب بالکل اس شخص جیسا ہے جو گرتا تو گدھے سے ہے اور غصہ کمہار پر
نکالتا ہے ۔ تیسرا اور آخری سوال ، بھائی میں پاکستان کا مقامی باشندہ ہوں
میرے آباؤ اجداد ہجرت کرکے نہیں آئے تھے بلکہ ہم نسل در نسل یہاں کے باسی
ہیں اور میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ میرے جیسے کروڑوں ہیں جنھیں پاکستان میں
بنیادی حقوق میسر نہیں، کسی حکومت نے غریب کے لئیے کچھ نہ کیا، اب آپ
بتلائیں ہم کس کا گریبان پکڑیں ؟ جتنے زرداری و نواز مجرم ہیں اتنے الطاف
حسین بھی مجرم ہیں کیونکہ آپ ہر حکومت کا حصہ رہے ہو اگر عوام کے حقوق پر
ڈاکے میں تم شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری ضرور کرتے۔ الطاف حسین صاحب نسل
پرستی، زبان پرستی کی بات نہ کریں۔ کیا مہاجر کیا مقامی سب کے حقوق صلب
کرنے میں آپ بھی ہر حکومت میں شامل رہے-
میرے سمیت بہت سے پاکستانی مقامی باشندے ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے
محروم ہیں، ہمیں بتائیں کس کا گریبان پکڑیں؟ آخر میں گذارش کروں گا گندی
سیاست کے لئیے پاکستانیوں کو مہاجر وانصار کے خانوں میں نہ بانٹیں نہ ہی
لسانیت کے نام پر تقسیم کریں۔ اس سے زیادہ ہم کیا کرسکتے ہیں آج پاکستان کا
وزیرآعظم بھی مہاجر ہے، جنرل مشرف بھی مہاجر ، جنرل ضیاء بھی مہاجر تھا۔ ہم
نے تو کبھی شکوہ نہیں کیا۔ ہم نے تو آپکے احساس محرومی کو دور کرنے کی ہر
ممکن کوشیش کی مگر آپ آج ٦٧ سال بعد بھی اپنے آپکو مہاجر کہتے ہیں ۔
آخر میں چند سطریں وکی پیڈیا سے ۔
جولائی 1997 میں ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی مومنٹ سے تبدیل کرکے متحدہ
قومی مومنٹ رکھا گیا۔ جس میں صرف مہاجر سیاست سے ہٹ کر تمام مظلوم طبقوں کو
ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بات کی گئی۔2002 کے انتخابات کے بعد الطاف
حسین کی پارٹی نے مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت میں شامل ہوئی۔
یوں ان کے بہت سے جلاوطن رہنما واپس آئے سندھ کے گورنر کا عہدہ بھی ان کی
پارٹی کو ملا۔ پرویز مشرف کے حمایتوں میں اس جماعت کا شمار ہوتا ہے۔ اور آج
تک الطاف حسین اور ان جماعت پرویز مشرف کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ 2008ء کے
انتخابات میں اپنی دیرینہ مخالف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد
ہوا۔ یوں الطاف زرداری بھائی بھائی کا نعرہ سامنے آیا۔ آج تک ایم کیو ایم
حکومت کا حصہ ہے۔ الطاف حسین آج بھی لندن میں مقیم ہیں اور وہاں پارٹی کے
انٹرنشینل سیکرٹریٹ سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ الطاف حسین پاکستانی
سیاست کی ایک متنازعہ شخصیت ہیں جن کے چاہنے والے اور مخالفین دونوں کی
تعداد لاکھوں میں ہے۔ الطاف حسین ایک جانب فوجی اسبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن
انہی کے ساتھ حکومت میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی
مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت میں بھی شمولیت اختیار
کرتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ بھائی دورنگی چھوڑ یک رنگ ہوجا ۔
دنیا میں قتیل اس سامنافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا |