طاہرالقادری کی گالیاں
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
وضاحت کردوں کہ میں منہاج
القرآن یا عوامی تحریک کا رکن نہیں اور نہ تحریک انصاف کا رکن ہوں ۔ بس
میرا کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی
دینی خدمات کا معترف ہوں جیسا کہ ملت اسلامیہ کے دیگر افراد۔ میں نے دھرنوں
میں جاکر بچشم خود جو کچھ دیکھا اور سنا وہ قابل تحسین ہے۔ایک دفعہ تحریک
انصاف کے کیمپ سے گذرا تو نماز مغرب کا وقت تھا۔ لوگوں نے نماز کے لیئے صف
بند کی ہوئی تھی اور مجھے امامت کے لیئے کہا تو میں نے نماز پڑھائی۔پھر ایک
دفعہ انقلابی سٹیج پر تھا تو وہا ں بھی نماز مغرب پڑھی۔عمران خان کا دھرنا
سکاؤٹس کیمپ اور علامہ صاحب کا تبلیغی و تربیتی اجتماع پایا۔ ملت کی اصلاح
کے لیئے لکھتا ہوں اور لکھتے ہوئے مجھے کسی کی خوشنودی یا ناراضگی کا خیال
تک نہیں آتا۔ کوئی خوش ہوگا تو دعا دے گا اور ناراض ہوگا تو وہ نہ میرا رزق
بند کرسکتا ہے اور نہ ہی میرے نفع نقصان پر اسے کوئی اختیار ہے۔ بحیثیت بشر
ہم سب خطاکار ہیں اور ہم میں کوئی بھی فرشتہ نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ
اندھوں میں کوئی کاناہے جو راجا بننے کے قابل ہو۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ
نے کئی مقامات پر فرمایا کہ قیامت کے روز ہر نفس کا اعمال نامہ طشت از بام
کردیا جائے گا اور ظالم اپنے کرتوتوں پر پشیمان تو ہونگے ہی لیکن انکے ہم
عصر انہیں لعنت ملامت کریں گے۔ قیامت کا معاملہ کل کا ہے اور جو کچھ کل
ہونا ہے اسکا کچھ حصہ اگر آج ہی عوام دیکھ لیں تو کیسا ہے؟ اور یہ سب کچھ
انسان کے بس میں نہیں جب تک کسی کے کرتوت طشت از بام کرنے کے لیئے حکم
ربانی نہ ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب نے مصدقہ اعداد وشما ر کی وہ دستاویزات
میڈیاکے سامنے پیش کیں کہ جن میں حکمران طبقہ کی کھربوں لوٹ مار موجود ہے۔اﷲ
کا شکر ہے کہ ایسا دور اس نے ہمیں دکھا دیا کہ ہم جنہیں پارسا سمجھتے تھے،
سرپر ٹوپی خانہ خدا میں حاضری اور روضہ رسول پر حاضری کے مناظر سے ہم انہیں
خدا رسیدہ تصور کرتے تھے۔ انکے کرتوت سرکاری اداروں نے ڈاکٹر صاحب اور
عمران خان تک پہنچا کر بہت بڑا کارخیر سرانجام دیا۔ انقلاب اور آزادی کے
رہنماؤں کا عوام تک حکمرانوں کی کرپش ظاہر کرنا پہلی گالی قرار دی گئی۔
لاہور کے قتل عام پر خادم اعلیٰ کا فرمان تھا کہ تحقیقات میں اگر میں ملوث
ہوا تو مستعفی ہوجاؤں گا۔ رپورٹ آگئی اور وہ ملوث پائے گئے مگر اپنا قول
پورا نہ کیا ۔ اس حقیقت کا اظہار تو میڈیاوالوں نے خوب کیا ۔ مگر جناب خادم
اعلیٰ سے ایفائے عہد کا مطالبہ بھی گالی ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب نے
پارلیمنٹ کے اندر سپہ سالار اعلیٰ سے کسی قسم کی مدد مانگنے کا انکار
فرمایا جسکی تردید فوجی محکمہ اطلاعات نے کردی ۔ظالم میڈیا نے وسیع پیمانے
پر اس حیرت انگیز واقعہ کی تشہیر کی ۔ اندرون وبیرون ملک وزیر اعظم کی غلط
بیانی کو ہدف تنقید بنایا گیااور پاکستانی عوام کی مٹی پلید کرکے رکھ دی
لیکن منصب مہتمم اعلیٰ ریاست پاکستان کا تقدس خاک میں مل گیالیکن پاکستان
کی منتخب پارلیمنٹ کے بزرجمہروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔حیران کن بات یہ
کہ جس سے دماغ بھی مختل ہوگیا کہ پاکستان کے قاضی القضاۃ نے بھی اس حادثہ
پر گرفت کرنا درخور اعتنا نہ سمجھا۔ جبکہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت
وزیراعظم غلط بیانی کرکے صالحیت کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ وزیر اعظم پہلے کیا
تھے؟ اس سے بحث نہیں مگر تازہ غلط بیانی کی پاداش میں وہ وزارت عظمیٰ کے
اہل نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے اس کا مطالبہ بھی گالی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر
صاحب کی گالیوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ۔ اس قسم کی دشنام طرازیوں کی دو
رانی توپیں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اکثر شام کے اوقات میں گولہ باری کرتی
ہیں۔سلسل دو ہفتے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر ضروری اور غیر آئینی جاری
رہا۔ میڈیا وہاں بھی جہاں نما رہا لیکن اندر سے کوئی موئثر جواب نہ آیا
سوائے چند ایک پرانے کارتوسوں کے استعمال کے۔ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی حق
بات کہتا ہے تو مخالفین اسے امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی سازش قرار دیتے
ہیں۔
انقلاب اور آزادی توپوں کی گھن گرج خاموش کرنے کے لیئے بھی یہی کہا گیا کہ
علامہ صاحب اور عمران خان کو غیر ملکی امداد ملی ہے۔ اس کا جواب دوران
اجلاس پارلیمنٹ جناب علامہ صاحب نے دیا کہ دوسرے ممالک سے فنڈز حاصل کرنے
والوں کے لیئے سزائے موت کا قانون پارلیمنٹ پاس کردے اور جس کسی نے غیر
ممالک سے امداد لی ہے اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ لیکن جواب نہیں آیا ۔
دوسرے ممالک سے فنڈز حاصل کرکے ملک میں اتنا بڑا فساد برپا ہوجائے اور
پارلیمنٹ اسے روکنے کے اقدامات بھی نہ کرے تو عوام اسے کیا سمجھیں گے؟ یہاں
ایک بات اور سامنے آئی کہ قومی خزانے سے پونے تین ارب روپے وزیر اعظم صاحب
نے IB کو دیئے۔ ہم عوام کیا جانیں کہ خفیہ ادارے کو غریبوں کی اتنی بڑی رقم
کیوں دی گئی۔ یہ کونسی جمہوریت اور اسلام ہے کہ قومی خزانہ لٹایا جائے اور
کوئی اس کا حساب نہ مانگ سکے۔علامہ صاحب نے ایک اور گالی دیدی کہ وزیر اعظم
نے کچھ لکھاری خریدے جنہوں نے رانی توپوں کو خاموش کرنے کے لیئے تازہ ترین
گولہ بارود تیار کیا کہ امریکی ادارے CIA اوربرطانیہ کے ایک ادارے نے
پاکستان کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیئے ڈاکٹر صاحب اور کپتان صاحب کو بڑی
رقم دی۔ اسکے ساتھ ہی شاہ کے حاشیہ بردار وزرا اپنے روشن مستقبل کے لیئے
گویا ہوئے کہ پارلیمنٹ کے سامنے دو غیر مسلح لشکر امریکہ اور برطانیہ نے
بھیجے ہیں۔ علامہ صاحب کے پاس جواب کے لیئے گولہ بارود اور دشنام طرازی کے
وافر ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پہلے تم نے ہم پر غیرملکی فنڈ
لینے کا الزام لگایا، ہم نے کہا کہ فنڈ لینے والوں کو تختہ دار پر لٹکانے
کا قانون پاس کردو وہ مقدس پارلیمنٹ نے نہیں کیا ۔ اب نیا باب کھولاہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے جو ابا فرمایا کہ امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کو دفتر
خارجہ طلب کرکے جواب طلبی کرنا حکومت کا فرض ہے۔ مگر ایسا تو موجودہ حکومت
کبھی نہیں کرے گی ۔کیونکہ کہ قول اور فعل میں تضاد ہے۔عمران خان اور حضرت
علامہ صاحب نے ملک کے عوام کی پریشانیوں اور مصیبتوں کے بیان کا جو
لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے وہ بڑا طویل اور جان گداز اور مظالم کا ذکر
روح فرسا ہے۔ میں نے جنرل محمد ایوب خان کا دور دیکھا ۔ اس وقت بائیس
خاندانوں کا نام سنتے تھے ۔ اشیاء خوردونوش کی قلت کردی گئی تو فوج آگئی۔ہر
چیز کی فراوانی ہوگئی۔ بھارت نے جنگ مسلط کی تو اس وقت ہمیں ایک مسلمان
جرنیل کی گرجدار آواز میں ایمان کا پتہ چلا۔ ایک طرف فوج نے جہاد اسلامی کا
نقشہ پیش کیا تو دوسری طرف صوبے کے گورنر نے ایک مخلص حکمران ہونے کا ثبوت
دیا کہ جنگ کے دوران اور بعد میں بھی عوام کو کسی چیز کی دستیابی میں کوئی
تکلیف نہ ہوئی۔ اس دور میں کسی کو جان کا خطرہ نہ تھا۔ جنرل صاحب کے بیٹے ،
بھانجے ،بھتیجے و دیگر رشتہ دار اقتدار کے ہنڈولے میں مزے لینے سے محروم ہی
رہے اسی طرح گورنر امیر محمد خان کے طور اطوار اسکے خاندانی حکمران ہونے کی
غماصی کرتے تھے۔ اتفاقا انکے لڑکے اسد نے سرکاری کار استعمال تو کرلی مگر
گورنر(باپ) کی جو صلواتیں سنیں تو آئیندہ توبہ کی۔ مجھے یاد نہیں کہ گورنر
نے کسی کو سزا دی ہو۔ انکے رعب اور دبدبہ سے ہی سارے حکومتی اور عوامی کام
درست رہے۔ قوم کو اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہیئے ۔ جب کسی قوم میں
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل کوئی ادا نہ کرے تو اس قوم پر عذاب
الہٰی نازل ہوتا ہے۔ عمران خان اور علامہ صاحب کے امر با لمعروف اور نہی عن
المنکر کی اس کاوش سے قوم کا مستقبل روشن ہوگا۔ ہمیشہ اﷲ ہی سے ڈرو اور سچ
بولو۔ گنبد خضرا کے ٹکڑوں پر پلنے والے کی آنکھوں میں شہوں کی شہی نہیں
جچتی۔ |
|