ایون کے اختتام پر دوباش کی چیک پوسٹ آتی ہے۔چھوٹی سی پل ہے۔ ایک طرف چترال
بارڈر پولیس جبکہ دوسری طرف چترال پولیس کی چیک پوسٹیں ہیں۔ غیرمقامیوں کی
انٹری ہوتی ہے یا شناختی کارڈ رکھ لیے جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ایلیٹ فورس کے
جوان موجود تھے اور مقامی ساتھی بھی ،جس کی وجہ ہمیں فورا بغیر انٹری کے
جانے دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چترال پولیس اور چترال بارڈ فورس کے
نوجوان انتہائی ملنسارہیں۔ خندہ پیشانی سے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کے پولیس اور فورس کی طرح ترش روی سے پیش آنا ان کا شعار نہیں۔
ان کی خوش اخلاقی اور وجہہ طلقی پرقاضی صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
’’جب چیک پوسٹ سے رخصت کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہمیں چائے پلا کر رخصت
کرررہے ہیں تو حق نواز صاحب نے کہا کہ نہیں حضرت بلکہ یوں لگتاہے کہ ہم نے
انہیں کھانا کھلایا ہے‘‘۔ واقعی جب بیریئر اوپن کرتے تھے تو ان کی مسکراہٹ
دل افروز ہوتی۔ دوباش چیک پوسٹ سے بمبوریت تک بارہ میل کا سفر ہے۔ درمیان
کی اکثر آبادی اہل سنت کی ہے۔ روڈ کی حالت بہت ہی خستہ تھی ۔ کچی روڈ ہے۔
بعض مقامات تو ڈراؤنے تھے۔نالے کے پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ جنگلی حیات کے
اثرات واضح نظر آرہے تھے۔دوباش سے رمبور تک کا فاصلہ آٹھ میل ہے۔ رمبور
کیلاشیوں(کافروں) کی دوسری آبادی ہے۔بمبوریت تک کا سفر بہت ہی پرلطف
تھا۔حسین اور خوبصورت وادیاں اور ان کی قدرتی رنگینی اور فطرتی دلفریبی
اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
چترال بہت بڑا ضلع ہے۔چترال کا رقبہ چار ہزار پانچ سو مربع میل ہے۔شاید
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔چترال کی آبادی پانچ لاکھ کے
قریب ہے۔ ضلع چترال کی سات تحصیلیں ہیں ۔چمبر کن، دارکوت،بروغل وغیرہ چترال
کے مشہور درے ہیں۔شندور، قزیدہ، چاں تار،کان خون بروغیل وغیرہ مشہور جھیلیں
ہیں۔ ارکاری ، لاسپور، تورکھو وغیرہ اہم گلیشئر جبکہ لاسپور، مولکہو،
بمبوریت، لٹ کہو وغیرہ چترال کے مشہور دریا ہیں اور یہ تمام دریا، دریائے
چترال میں جاگرتے ہیں۔1885ء تک چترال مکمل طور پر آزاد تھا، چترال کی مختلف
ریاستوں کے والیان آپس میں جنگ و جدل کرتے رہتے تھے۔ انگریز نے 1885ء کو
چترال پر قبضہ کیا تھا۔28جولائی 1969ء میں ریاست چترال کا پاکستان میں
ادغام ہوا جبکہ1974ء سے چترال میں مکمل پاکستانی قوانین کا اجراء ہوا۔یعنی
چترال کو باقاعدہ پاکستان کا آئینی حصہ بنا کر ضلع بنا دیا گیا۔ چترال میں
کئی زبانیں بولی جاتیں ہیں تاہم کھوار سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان
ہے۔چترال کے مشرقی جانب گلگت، سوات اور یاسین کے علاقے ، مغربی جانب بدخشاں
،چین اورروس جبکہ جنوبی کی طرف سے درہ لواری اور دیر کے علاقے واقع ہیں۔
مستوج سے ایک لنک روڈتاجکستان جالگتا ہے ۔ چترال کیلاش کے نالے سے ایک روڈ
جاکر افغانستان کا صوبہ نورستان کو لگتا ہے۔یہی نورستان گرم چشمہ کے ساتھ
بھی لگا ہوا ہے۔ مجاہدین کے زمانے میں افغانیوں کا کثرت سے آنا جانا تھا
بلکہ افغان مجاہدین کے لیے امدادی سامان بھی اسی روٹ سے ہی جاتا۔
چترال میں علماء و قراء کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ سیاسی طورجمعیت علمائے
اسلام کا ہولڈ ہے۔ تبلیغی جماعت والے بھی طول و عرض میں پھیلے ہوئے
ہیں۔چترال اکثریت اہل سنت آبادی ہے جبکہ اسماعیلی برادری بھی کافی تعداد
میں ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 70فیصد اہل سنت جبکہ30فیصد اسماعیلی
آبادی ہے۔ دونوں کی معاشرتی زندگی بہت پرامن ہے۔ چترال کے علماء بالخصوص
مولانا حفیظ الرحمان، گرم چشمہ کے مولانا جلال الدین،تبلیغی جماعت کے امیر
مولانا نثاراحمد اور ان کے احباب مذہبی ہم آہنگی اور معاشرتی امن کے لیے
کردار ادا کررہے ہیں۔دونوں طبقات میں ان کے کردار کو اچھی نگاہوں سے دیکھا
جارہا ہے۔ تین دن کے سفر میں میرا یہ مشاہدہ رہا کہ سخاوت اور مہمان
نوازی،اعتدال اور میانہ وری،آپس میں محبت اور اخوت، عفو اور درگذر،خوش
اخلاقی اور حسنِ معاشرت، نرم مزاجی اور رفق میں چترال کے لوگ بہت ہی اچھے
لگے۔ حدیث میں آتا ہے’’من اعطی حظہ من الرفق فقد اعطی حظہ من الخیر‘‘ جس کو
لطف اور نرمی میں سے اس کا حصہ دیا گیا ہو اس کو بھلائی سے اس کا حصہ دیا
گیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہے کہ’’ ان اﷲ رفیق یحب الرفق فی
الامر کلہ‘‘ اﷲ تعالیٰ لطف اور نرمی والا ہے اور تمام معاملات اور معاشرت
میں لطف اور نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔
|