جموںجموں توی اوراسرارآباد۔مجین
سدھراکے نالے میںآئے سیلاب نے ان کے کنارے آبادبستیوں میںریاست کے مختلف
حصوں مثلاًکشمیر،ریاسی ،ڈوڈہ،رام بن،جموں وغیرہ کے خانہ بدوشوں ومہاجروں کی
عمربھرکی کمائی مٹی میں ملادی ہے ۔اسرارآباد۔مجین سدھراجوکہ شہرجموں سے
چندہی میل کی دوری پرواقع ہے کے سیلاب متاثرین کے تئیں ضلع انتظامیہ کی عدم
توجہی سے حکومت اورانتظامیہ کے سیلاب متاثرین کوامدادپہنچانے کے بلندبانگ
دعوﺅں کی پو ل کھل جاتی ہے۔ علاقہ ہذاکے سیلاب متاثرین تک انتظامیہ کاکوئی
کارندہ ریلیف لیکرنہیںپہنچاہے جس کی وجہ سے ٹینٹوں،کمبلوں ،راشن
اوردیگرضروری اشیاءسے محروم ان سیلاب متاثرین کی پریشانیاں روزبروز بڑھتی
چلی جارہی ہیں۔اسرارآباد۔سدھرا میں توی اورنالے کے پانی کی وجہ سے آئے باڑھ
کے 25دِن گذرنے کے باوجودضلع انتظامیہ خواب غفلت میں مبتلاہے جس کے سبب
کھلے آسمان تلے بے سروسامانی کے عالم میں زندگی گذارنے پرمجبورہیں۔نمائندہ
نے سدھرا جین۔ سرارآبادکے سیلاب متاثرین کی حالت زارکااندازہ اس بات سے
لگایاجاسکتاہے کہ اگران لوگوں سے کوئی شخص پوچھے کہ سیلاب سے آپ کاکیانقصان
ہواہے توان لوگوں کی آنکھیں اوردِل آہوں،آنسوﺅں اورسسکیوںکامنظرپیش کرتے
ہیںاوریوں لگتاہے کہ یہ بستی آہوں اورسسکیوں کی بستی ہے ۔راشن ،کمبل،ٹینٹ
ودیگرضروری سامان سے محروم یہ سیلاب متاثرین حکومت کے ایوانوں تک امداد کی
گہارلگالگاکرتھک چکے ہیں مگرانتظامیہ کے کانوں تک اِن سیلاب متاثرین کی چیخ
پکارسے جوں تک نہ رینگ رہی ہے اوران سیلاب متاثرین کو رِستے زخموں کے حال
پرچھوڑدیا ہے جس کے سبب ان سیلاب متاثرین میں انتظامیہ اورحکومت کے تئیں
شدیدغم وغصہ پایاجاتاہے۔
مذکورہ علاقہ کی ایک سیلاب متاثرہ بیوہ عورت شائستہ بیگم زوجہ مرحوم
محمدامین راتھر نے الزام لگایاکہ” اکھنورکے گردونواح کے سیلاب متاثرین
کوبھاری امدادمہیاکی گئی ہے مگرجموں سے چندمیل کی دوری پراسرارآباد۔مجین
سدھراکے سیلاب متاثرین کونظراندازکیاگیاہے جوکہ ہمارے ساتھ سراسرناانصافی
ہے“۔شائستہ کہتی ہیں کہ” انورعلی نے ہمیں بچایااوراگرانورعلی محلے کے لوگوں
کونہ بچاتاتوآج ہم سب زندہ نہ ہوتے “۔انہوں نے مزید کہاکہ ”میراتین سالہ
بچہ رات کے تین بجے جب انورعلی مجھے پانی سے نکال رہاتھا، تین مرتبہ سیلاب
کے پانی سے نکلتے ہوئے پانی میں گرامگرپھربھی اللہ کے فضل سے نکل
گیا“۔شائستہ بیگم نے سرکارپربرستے ہوئے کہاکہ ” بارش کوتھمے ہوئے دوہفتوں
سے زائدوقت گذرچکاہے مگرابھی تک ہمارے لیے سرکارنے کچھ نہیں کیا۔انہوں نے
کہاکہ بچوں کی کتابیں سیلاب میں بہہ گئی ہیں۔وہ پچیس دِنوں سے سکول نہیں
گئے“۔اس نے روتے ہوئے جذباتی لہجے میںکہاکہ ”اللہ کی قسم کل میرے پاس دس
روپے بھی نہیں تھے۔میں نے کسی سے پانچ سوروپے ادھارلیے اورپھرکھاناکھایا۔اس
نے کہاکہ میںاپنے گھرمیں بیک وقت پچیس افرادکوکھاناکھلانے کی طاقت رکھتی
تھی مگراب میں خودمجبورہوگئی ہوں۔گھرمیں ایک روپیہ بھی نہیں اوراناج
اورچاول کاایک دانابھی نہیں ہے۔بچوں کی کاپیاں لینے کےلئے پیسے نہیں
ہیں۔ہمیں بتائیں ہم جائیں توکہاں جائیں۔ہم فریادسنائیں توکس کوسنائیں؟“
علاوہ ازیں اسی بستی میں سیلاب سے متاثرہ ایک دیگربیوہ خاتون زبیدہ بیگم
زوجہ مرحوم محمدرفیق کاکنبہ زیرتعمیرپرائمری سکول اسرارآبادمیں پناہ گزین
ہے۔بیوہ زبیدہ بیگم نے جب اپنی داستان بیان کی تواس کی آنکھوں سے آنسوچھلک
پڑے۔اس نے کہاکہ اس کی دوگائیاں اوردیگرساراسامان سیلاب میں بہہ گیا۔اس کے
ساتھ ہی کھڑی اس کی دونوں بیٹیوں طاہرہ اورنگینہ کی آنکھوں سے بھی آنسوﺅں
کے پھوارے پھوٹ پڑے۔یہ منظرقابل دیدتھا۔ایوب حسین ولدولی حیدرنے بتایاکہ جب
سیلاب آیاتوہم جان بچانے کےلئے سی آرپی کیمپ میں چلے گئے ۔انہوں نے کہاکہ
سیلاب ہماری لیے قیامت صغری ٰ سے کم نہ تھا۔اب ہم سکول میں رہتے
ہیں۔سدھرامجین کے ایک اور سیلاب متاثرہ شخص عبدالطیف ولدمحمدابراہیم نے
بتایاکہ اس کاپکامکان ،کچن ،باتھ روم سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوگیاہے۔اوراب
ہم اقرامسجدمیں پنا ہ لیے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ مجین
سدھرا۔اسرارآبادمیںقاسم دین ،طالب حسین ،محمدیوسف کے علاوہ غلام نبی ،حسین
جمیل زوجہ غلام رسول، محمدحنیف وغیرہ کوتوی اوراسرارآباد۔سدھرانالہ میں آئی
طغیانی (باڑھ ۔سیلاب) سے بھاری اورناتلافی نقصان ہواہے ۔ان لوگوں نے کہاکہ
”ہمیں افسوس ہے کہ ہم مصیبت زدہ لوگوں کے دُکھ بانٹنے کے لیے انتظامیہ
کاکوئی آفیسرنہ پہنچاہے اورامدادی سامان شہرکے دیگرحصوں میں دیاجارہاہے مگر
دھرا جین۔اسرارآبادکے سیلاب متاثرین کونظراندازکرکے امتیازکاشکاربنایاگیا۔“
مزیدایک بیوہ عورت شبوبیگم زوجہ مرحوم جاویدنے کہاکہ” انتظامیہ کاکوئی
اہلکارسوائے پٹواری کے یہاں نہیں پہنچا۔پٹواری نقصان کی تفصیل لیکرچلاگیااس
کے بعدہمیں کب معاوضہ دیاجائے گااس کی کوئی خبرنہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمیں
تواس وقت راشن ،کمبل اورٹینٹوں اورکھانے پینے کی چیزوں کی شدیدضرورت
ہے۔مگرحکومت کاکوئی اہلکاریہاں پرامدادلیکرنہیں آیا“۔شیبوبیگم نے جذباتی
لہجے میں کہاکہ” ہماراکچھ نہیں بچاہے۔روتے ہوئے شبوبیگم نے مزید کہاکہ اگلے
ہی مہینے میری بیٹی کی شادی تھی ۔گھرمیں رکھاہواشادی
کاجہیز،زیوراوردیگرساراسامان جودس لاکھ روپے تک کی لاگت کاتھاسیلاب میں بہہ
گیا“۔
اس کے علاوہ پریشانی کے عالم میں زندگی گذاررہے چارکنبے جوایک ہی ٹینٹ جوکہ
تمام کنبوں نے اپنی بچی کھچی چادریں اورکمبل جوڑکر بنایاہے نے بتایاکہ ہم
چارکنبے کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں،ہماری حالت زارجاننے کےلئے حکومت کاکوئی
اہلکارنہیں آیا،ڈی سی اوپروالے علاقے میں آیاجہاں پرپکے لنٹروں
کوتھوڑانقصان ہواتھا”۔انہوں نے کہاکہ ”یہاں پر اسرارآباد۔سدھرامجین میں 25
سے 30 کنبے بالکل بے گھرہوگئے ہیں اوردیگر30کنبوں کے مکانات کوجزوی نقصان
پہنچاہے۔ ابھی تک ہمارے گھروں میں کیچڑکے ڈھیرلگے ہوئے ہیں اوربچوں کی
کتابیں، دیگرسامان کیچڑسے لت پت ہے۔گھروں کاکوئی سامان نہیں بچاہے“۔ان
سیلاب متاثرین نے کہاکہ” وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اوراس کے وزیراورانتظامیہ کے
آفیسرجو محلوں اورنئی طرزکی اونچی عمارتوں اورچمکتی گاڑیوںمیں زندگی کے مزے
لے رہے ہیں انہیں ہم سیلاب متاثرین کی کوئی فکرنہیں“۔انہوں نے سوال
اُٹھایاکہ ”2100کروڑروپے جومرکزی سرکارنے دیئے اوردیگرممالک اورریاستوں کی
جانب سے دی گئی امدادریاستی سرکارنے کہاںچھوڑی ہے؟۔کیاہمارے لیے ایک ایک
ٹینٹ اورکمبل بھی حکومت کے پاس نہیں ہے“۔انہوں نے مزیدکہاکہ” ووٹ ہم سے لیے
جاتے ہیں مگراس مشکل کی گھڑی میں ہمیں نظراندازکیاجارہاہے “۔
مجین سدھرا۔اسرارآبادکے سیلاب متاثرین نے مزیدکہاکہ یہاں پرصرف حزب اختلاف
پی ڈی پی کاایک لیڈر حسین علی وفاہی آیا،اس نے پانچ پانچ کلوگرام راشن ،دال
اوردیگرکھانے پینے کاسامان تقسیم کیاہے۔مجین سدھرا۔اسرارآبادکے سیلاب
متاثرین نے حسین علی وفاکے جذبہ ہمدردی کوسراہااوران کاتہہ دِل سے شکریہ
اداکیا۔اس کے علاوہ ان سیلاب متاثرین نے کہاکہ ریڈکراس اورآکارانڈیاکے
رضاکاروںجن میںراحت علی۔سبیہ۔کاجل۔انورعلی۔مقامی نوجوان۔محمداشرف۔مقامی
نوجوان۔مشتاق علی۔مقامی نوجوان۔محمدالیاس۔مقامی نوجوان۔روی داس۔چنئی
سے۔جولی دہلی سے ۔رینڈوناگالینڈسے شامل ہیں اور مقامی نوجوانوں بالخصوص
انورعلی نے ہماری بہت مددکی جس کےلئے ہم ان کاشکریہ اداکرتے ہیں۔ انہوں نے
کہاکہ ان نوجوانوںنے ہماے اعتمادکوبحال کرنے میں اہم کردارنبھایا۔انورعلی
نے بتایاکہ اس نے چوکی آفیسرمحمدعارف کی موجودگی میںجموں توی کے سدھراپل کے
نزدیک توی سے پانچ افرادجن میں تین بچے اوردوبزرگ شامل تھے کوتوی سے ڈوبتے
ہوئے بچایا۔اس کے علاوہ سدھرا۔اسرارآبادکھڈسے بھی مقامی چوکی آفیسرمحمدعارف
کی ہی موجودگی میں رات کے اندھیرے میں40 سے
45افرادکوبچایا۔سدھرااسرارآبادمجین کے سیلاب متاثرین کےلئے انورعلی مسیحابن
کرآئے اورواقعی علاقہ کے ہیروہیںنے کہاکہ میری حوصلہ افزائی جموں انتظامیہ
کی طرف سے نہیں کی ہے تاہم پولیس کے سینئرآفیسربسنت رتھ نے اسے 500روپے کے
انعام سے نوازاہے۔نمائندہ نے جب چوکی آفیسرمحمدعارف سے رابطہ کیاتوانہوں نے
کہاکہ میری موجودگی میں 40کے قریب افرادکی زندگی کوانورعلی نے سیلاب سے
بچایاہے ۔انہوں نے انورعلی کے کارنامے کی ستائش کی۔اس کے علاوہ علاقہ کے
تمام سیلاب متاثرین انورعلی کی تعریف کرتے اورداددیتے نہیں تھکتے۔اس کے
علاوہ سیلاب متاثرین نے ریڈکراس اورآکارانڈیاکے رضاکاروں خاص کرراحت علی کی
امدادکےلئے ان کاشکریہ اداکیاہے اوران کے سماجی فلاح کے کردارکوناقابل
فراموش قراردیا۔ریڈکراس اورآکارانڈیاکے رضاکاروںنے ان سیلاب متاثرین کےلئے
میڈیکل کیمپ اوررکھانے کاانتظام کیا مگرضلع اانتظامیہ جموں ہے کہ غفلت کی
نیندسے جاگتی ہی نہیں۔ غربت، بیروزگاری ،معاشی نابرابری اورحکومت وقت کی
مارجھیل رہے اسرارآباد۔سدھرامجین کے سیلاب متاثرین نے نمائندہ سے بات کرتے
ہوئے کہاکہ اکھنورکے قریبی علاقوں کے سیلاب زدگان کی امداددِل کھول
کرانتظامیہ کی طرف سے کی گئی ہے مگریہاں پرشہرکے قریب کسمپرسی کی حالت میں
رہ رہے سیلاب زدگان کی امدادکیوں نہیں کی جارہی ہے۔لوگوں نے کہاکہ حکومت
اورانتظامیہ دعوے کررہی ہے کہ وافرمقدارمیں مرکزی اورریاستی سرکارکی
امدادسیلاب متاثرین تک پہنچائی جارہی ہے مگرحقیقت میں یہ سب ڈھکونسلاہے
۔اورحکومت کے کارندے سیلاب متاثرین کی امدادہڑپ کرنے میں مصروف ہیں۔کیاکسی
مخصوص طبقہ کونشانہ بناکربھوک مری کاشکاربنانے کامنصوبہ تشکیل دیاگیاہے
؟یہاں پرہم سکولوں،مسجدوں وغیرہ میں اپنے عارضی خیمے لگاکربنیادی سہولیات
بالخصوص اشیائے خوردنی کی قلت اورگھربارلٹ جانے کے کرب اورپریشانی کودِل
میں لیے بے یارومددگار بھوک مری کی زندگی گذاررہے ہیں۔اسرارآباد۔سدھرامجین
کے سیلاب متاثرین نے انتظامیہ سے پرزورمطالبہ کیاکہ ہمیں فوری طورپرراشن
،کمبل ٹینٹ ،بجلی ،پانی ودیگربنیادی سہولیات دی جائیں تاکہ ہماری مشکلات
میں کمی آسکے۔اس سلسلے میں جب ضلع ترقیاتی کمشنرجموں اجیت کمارسے رابطہ
کرکے پوچھاگیاکہ سدھرا۔اسرارآبادکے سیلاب متاثرین کوراشن ،کمبل،ٹینٹ
ودیگرضروری سامان فراہم کیوں نہیں کیاگیاہے۔اس کے جواب میں ڈی سی جموں نے
کہاکہ میںنے بذات خودسدھرامجین کادورہ کرکے سدھراکے سیلاب متاثرین کوراشن
دیاہے۔جب یہ بتایاگیاکہ اگرمجین کے کچھ سیلاب متاثرین کوکوئی امدادملی ہے
تواسرارآبادکے سیلاب متاثرین کوکیوں امدادنہیں دی گئی ۔انہوں نے کہاکہ میرے
نوٹس میں یہ بات نہیں ہے کہ اسرارآبادکے متاثرین کوامدادنہیں ملی ۔اب یہ
بات نوٹس میں آئی ہے تومیں ابھی نائب تحصیلدار کو اسرارآبادکے سیلا ب
متاثرین تک امدادی سامان پہنچانے کےلئے احکامات صادرکروں گا۔سیلاب متاثرین
کوکمبل مہیانہ کیے جانے کے سلسلے میں ڈی سی جموں اجیت کمارساہونے کہاکہ
ہمارے پاس ٹینٹ اورکمبل ہیں ہی نہیں؟۔ |