امن،محبت کے پھول دھوکہ ہیں

امن کی سرحدیں کسی ایک ملک،ریاست یا قوم تک محدود نہیں ہیں،امن ہر معاشرے،قوم اور ریاست کی آج سے نہیں بلکہ بالکل ابتدا سے ایک ناگزیر شہ ہے اور اِس کو قائم رکھنا کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر قوم پر لازم ہے۔دنیا میں کوئی بھی ملک یا قوم اگر جنگ اور بدامنی سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ اس ملک کی ایک بڑی بھول ہے،کیونکہ اگر وہ آج کسی ملک کے حالات خراب کرنے کی متمنی ہے تو پھر وہ وقت بھی جلد آپہنچا ہے جب اُن کے اپنے گھر میں آگ لگ جائے۔ اِس لیے اگر امن کو ہر ایک ملک ،قوم آج کے دور میں اپنے لئے ایک ضرورت سمجھ لے تو یہی ترقی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے ۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم نواز شریف کا خطاب واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے صحیح لیڈر کی تقریر تھی،ان کا کشمیر پر دو ٹوک مؤقف پیش کرنا اور اس مسئلے کے حل نہ ہونے کا ذمہ دار اقوام عالم کو قرار دینا ایک حقیقت ہے،عالمی امن کے دعویدارو ں نے مسلمانوں کے حوالے سے دورخی اختیار کررکھی ہے،ایسی دو رخی جو دنیا کو تباہی کی جانب لے جا رہی ہے،مذہبی تفریف کو جنم دے رہی،یہ دو رخی قوموں کو تقسیم بھی کررہی ہے،اقوام متحدہ نے جہاں عیسائیوں کا معاملہ آیا تو فوری رائے شماری کرادی،مشرقی تیمور میں امن فورسز بھی بھیجیں لیکن کشمیر آج تک امن کو ترس رہا ہے،اسے امن نصیب نہیں ہو رہا ،گزشتہ 67برسوں سے اولاد آدم کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے،اقوام عالم کی اس معاملے پر بے حسی لمحہ فکریہ ہے، وزیراعظم پاکستان نے خطے میں امن اور برابری کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کو تعلقات کی بھی دعوت دی ہے ۔وزیراعظم نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کا بھارت کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔وزیراعظم نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کی بھی مذمت کی، مسئلہ فلسطین کا نتیجہ خیز حل نکالنے پر زور دیا ۔

اقوام متحدہ کو آج کے دور میں یہ کوششیں کرنی ہوں گی کہ کسی ملک میں امن کو خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔کشمیر جیسے مسائل جہاں بھارت فوجی طاقت کے استعمال سے کشمیر کے امن کو خراب کیے ہوئے ہے،اقوام متحدہ کو نوٹس لے کر ان ممالک میں امن کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔تب ہی دنیا میں اقوام متحدہ کااصل مشن کامیاب ہو سکتا ہے۔ورنہ عالمی امن کے وہ مقاصد حاصل کرنا مشکل ہوں گئے جو اقوام متحدہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کاکہنا تھا کہ امریکا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر یقین نہیں رکھتا، دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لئے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا، عراق اور شام میں سرگرم جنگجو تنظیم داعش کے خلاف تنہا نہیں لڑ سکتے جبکہ داعش کے خاتمے کے لئے 40 سے زائد ممالک کارروائی کے لئے تیار ہیں، اسلام عظیم مذہب ہے اور امریکا کی اس سے کوئی لڑائی نہیں،کسی بھی غیرملکی سر زمین پر قبضے کے لئے فوج نہیں بھیجیں گے۔

جناب اوبامہ کے دل میں ایک بار پھر مسلمانوں کیلئے محبت جاگ رہی ہے،امریکہ جب بھی کسی مسلمان ملک کیلئے ’’محبت‘‘ کا اظہار کرتا ہے تو اس کی خیر نہیں ہوتی،امریکہ اب شام میں جمہوریت لانے آرہا ہے،مظلوموں کی داد رسی کیلئے دلکش پیکج بھی لایا ہے،داعش تو بہانہ ہے،ایسے ہی جیسے افغانستان کے طالبان،عراق کا صدام تھا۔کل طالبان ظالم تھے،اسامہ دہشتگرد تھا تو آج شام کا بشارالاسد،امریکہ کی پیداکردہ داعش ان کی جگہ لے چکے ہیں۔ستم یہ ہے کہ کل پاکستان اور قطر نے اپنے بھائیوں کو مروانے کیلئے راستہ فراہم کیا تو آج ایران ، سعودی عرب اور عرب امارات یہ سہولت فراہم کررہے ہیں۔امریکہ دنیا میں ایک ایسا دوست ہے جس کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔اس کا برملا اعتراف ایک سابق امریکی صدر کرچکے ہیں،کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی دشمن کو تباہ کرنا ہے تو اسے دوست بنا لو۔معروف امریکی مصنف نوم چومسکی کا خیال کہ امریکہ کا دشمن ہونے سے بدتر اس کا دوست ہونا ہے۔آج امریکہ شام کے عوام،ایران اور دیگر عرب ممالک سے دوستی کا ہاتھ ملا رہا ہے،کل یہی ہاتھ شانوں سے جدا کردے گا۔محبت کیلئے زبانیں گنگ کردے گا۔خونخوار درندے کے ہاتھوں میں محبت کے پھول دھوکہ ہیں۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68596 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.