وزیر اعظم کا جرات مندانہ۔۔یا۔۔۔مجبورانہ موقف
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
کئی برس قبل اخبارات میں ایک خبر
شائع ہوئی تھی کہ بھارت میں ایک ایسی دوا ایجاد ہوئی ہے جس کے استعمال کرنے
سے آدمی کی یادداشت کی قوت بڑھ جاتی ہے ۔اس خبر کے کچھ دن بعد ایک انگلش
اخبار میں ایک صاحب کا اس خبر کے حوالے سے مراسلہ نظر سے گزرا جس میں لکھا
تھا کہ بھارت میں قوت یادداشت بڑھانے کی جو میڈیسن ایجاد ہوئی ہے میری
تجویز ہے کہ یہ دوا بھارت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو استعمال کرائی
جائے تاکہ انھیں یاد آجائے کہ ان کے ایک سابق حکمران نے اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم کشمیر میں استصواب رائے کرائیں گے
تا کہ اہل کشمیر اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرلیں کہ انھیں کس کے ساتھ رہنا ہے
۔جب ہم کوئی جانور ذبح کرتے ہیں تو پہلے تو نرخرے پر چھری چلاتے ہیں جس سے
اس کا گلا کٹ جاتا ہے اور بڑی مقدار میں خون بہنے لگتا ہے لیکن یہ بھی
دیکھتے ہیں گلا کٹنے کے باوجود وہ جانور زندہ رہتا ہے اسی لیے بڑے جانوروں
کے پیروں کو رسی سے باندھ دیا جاتا ہے ،پھر کچھ دیر بعد قصائی اس کی شہ رگ
کاٹتاہے اور جانور کے جسم کو دبا دبا کر اس کی رگوں سے خون نچوڑتا ہے جس کے
بعد وہ جانور ٹھنڈا ہو جاتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو
پاکستان کی شہ رگ اسی لیے قرار دیا تھا کہ کشمیر سے جو دریا نکلتے ہیں اس
پر ہی پاکستان کی بقا کا انحصار ہے ۔برطانیہ کے وائسرائے نے ایک گہری سازش
کے تحت کشمیر پر بھارت کا قبضہ کروایا اور پاک بھارت تعلقات میں ایک ایسی
دیوار کھڑی کردی جس کی وجہ سے اس برصغیر میں تین جنگیں برپا ہو چکیں ہیں یہ
بھلا ہو ہمارے قبائلی مجاھدین کا جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے
آزاد کشمیر کا حصہ پاکستان کو دلا دیا ان کو اگر نہ روکا جاتا تو آج ہمارے
ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اسی لیے نہرو دوڑے دوڑے اقوام متحدہ میں گئے
اور وہاں انھوں نے استصواب رائے کا وعدہ کیا ،اب یہ الگ بات ہے کہ ان
قبائلیوں کے احسان کا بدلہ ہم ان پر بمباری کرکے اتار رہے ہیں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر کے اصولی موقف
کا اعادہ کیا ہے قومی حلقوں میں اس پر حیرت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ
اس حساس موضوع پر ایسا اظہار خیال جس پر بھارتی حکمراں ناراض ہوجائیں شاید
نہ ہو اور ہمارے وزیر اعظم بھارتی حکمرانوں کی ناراضگی برداشت نہ کر سکیں ۔ایسی
سوچ اس لیے بھی پیدا ہوئی کہ جب بھی سول حکومتیں آتی ہیں بالخصوص نواز شریف
جب بھی اقتدار میں آئے بھارت سے کور اشوز پر مذاکرات کیے بغیر دوستی کی
پینگیں بڑھانے کی کوششیں کیں جو ہمارے یہاں اسٹبلشمنٹ کی ناراضی کاسبب بن
جاتی ہیں 1999میں بھی واجپائی کا پاکستان کا دورہ ہوا تھا تو اس وقت کے چیف
آف آرمی اسٹاف نے سلامی دینے سے انکار کردیا تھا اس دورے میں یہ خبریں بھی
گرم تھیں کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر کا کوئی ایسا حل تلاش کرلیا
گیا ہے جس پر دونوں ممالک کے سربراہان متفق ہو چکے ہیں جب کے کشمیری
مجاھدین کی تنظیمیں مسلسل یہ بیان دے رہی تھیں کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر
کشمیر کا کوئی بھی حل قابل قبول نہیں ہو گا ۔اس موقع پر جماعت اسلامی نے
احتجاج کیا تھا جس کو ریاستی تشدد کر کے دبانے کی کوشش کی گئی کئی کارکنان
پولیس کے تشدد سے زخمی ہوئے سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اس احتجاج سے
پوری دنیا کو یہ پیغام چلا گیا کہ کشمیر جیسے حساس مسئلے پر کشمیری مجاھدین
کی مرضی کے بغیر کوئی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا ۔
اب جب کے نوازشریف صاحب تیسری مرتبہ بر سر اقتدار آئے ہیں ،تو آنے کے فوری
بعد انھوں نے بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی تھیں جس کے نتیجے
میں ہماری اسٹبلشمنت جو پہلے ہی کئی اہم معاملات پرحکومتی اقدامات سے خوش
نہیں تھی اس پر حکومت سے اور زیادہ کھچاؤ پیدا ہو گیا ان ہی حالات میں جناب
عمران خان نے 14اگست سے انتخابات 2013میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے سلسلے
میں اپنا احتجاج شروع کیا جو اب تک دھرنوں کی شکل میں جاری ہے بلکہ ابھی جو
لاہور میں جلسہ ہوا ہے اس کی ریکارڈ حاضری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ
پاکستانی عوام موجودہ حکمرانوں سے بیزار نظر آتے ہیں ۔جب سے یہ دھرنے شروع
ہوئے ہیں نواز حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے ۔اسی دباؤ کے ماحول میں نواز
شریف صاحب کا جنرل اسمبلی خطاب تھا جس میں انھوں نے کشمیر کے اس اصولی موقف
کا اعادہ کیا جو ہماری فوج اور پوری قوم کا موقف ہے نواز شریف صاحب کی اس
تقریر سے بھارت کے نریندر موری بیک فٹ پر چلے گئے ،بھارت کا میڈیا بہت
ناراض ہے بلکہ ایک اخبار کا تبصرہ تو یہ ہے کہ نوازشریف صاحب نے آئی ایس
آئی کی لکھی ہوئی تقریر پڑھی ہے بہت سارے تجزیہ نگار یہ تجزیہ کر سکتے ہیں
کشمیر کے حوالے اس طرح کی تقریر کرنا نواز شریف صاحب کی مجبوری تھی کہ وہ
ملک کے اندرونی سیاسی حالات میں فوج کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ایک درجے میں
یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو وزیراعظم کی مجبوری
سمجھنے کے بجائے اسے ان کی طرف سے جرات مندانہ قدم ہی قرار دینا چاہیے کہ
جب مئی 98میں امریکا کی طرف سے پانچ ٹیلفون آئے کہ ایٹمی دھماکا نہ کیا
جائے لیکن اس وقت نوازشریف صاحب نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور قوم کی
امنگوں اور امت مسلمہ کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکا کرہی دیا
اس دھماکے سے پہلے چونکہ بھارت دھماکا کرچکا تھا اور بھارتی حکمراں اور
سیاستداں بہت بڑھ چڑھ کر پاکستان کے خلاف بیانات دے رہے تھے لیکن اس دھماکے
بعد انھیں چپ لگ گئی۔
آج کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے کہ بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
یکطرفہ طور پر مزاکرات ختم کردیے تھے اور بڑے تکبرانہ انداز میں اس کا
الزام بھی پاکستان پر لگا رہے تھے ۔وزیر اعظم نے کشمیر کے مسئلے پاکستان کے
اصولی موقف کا دبنگ لہجے میں اعادہ کر کے عالمی برادری کی توجہ ان کی ذ مہ
داریوں کی طرف مبذول کرائی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی کشمیر
میں استصواب رائے کرایا جائے ابھی چند ہی روز پہلے اسکاٹ لیند کے لوگوں کو
ریفرنڈم کے ذریعے یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرلیں
مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کو پچھلے چند برسوں کے دوران اپنے
مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جاچکاہے ۔لہذا کشمیری عوام کو بھی بھارت کی
جانب سے یہ حق دیا جانا چاہیے اور عالمی برادری کو اس سلسلے میں بھارت پر
دباؤ ڈالنا چاہیے کہ کہ وہ کشمیری عوام کو بھی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا
موقع فرہم کرے ہم اب یہ دیکھ رہے ہیں نواز شریف صاحب کی اس تقریر کے بعد اب
بھارت نے خود مذاکرات کی بات کرنا شروع کردی ہے بھارتی سکریٹری خاجہ اکبر
الدین اس حوالے سے آج کے اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا ہے کہ یہ دو ملکوں
کے درمیان کا مسئلہ ہے جسے مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے ۔ |
|