گذشتہ آرٹیکل میں جمہوریت کے دو
ستونوں کا ذکر کیا تھا باقی دو کا ذکر آج کرنا چاہوں گا ۔ جمہوریت کا تیسرا
ستون عدلیہ کو مانا جاتا ہے، تمام صحت مند جمہوری معاشروں اور ممالک میں
عدلیہ آذادانہ کام کرتی ہے - عدل وانصاف کی فراہمی کے بغیر کوئی بھی ملک
جمہوریت کے ٹریک پر نہیں چڑھ سکتا۔ عدل وانصاف کی اہمیت کا اندازہ اس بات
سے لگالیں کہ باب مدینہ العلم حضرت علی کرم الله وجہہ کریم نے فرمایا کہ
ملک و معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں مگر ظلم ونانصافی کے ساتھ نہیں چل
سکتے- لیکن میرے وطن عزیز میں تو گنگا الٹی بہتی ہے ، جگاڑی سیاستدان اور
نیم خواندہ دانشور ظلم و بربریت و نانصافی کا بازار بھی گرم رکھنا چاہتے
ہیں اور محترمہ جمہوریت کو بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان
میں جمہوریت کی سر وردھم پر ناچتے مداریوں کی کثرت پائی جاتی ہے ، جبکہ
جمہوریت کے ایک اہم ستون معزز عدلیہ کا حال یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ وکیل
کرنے کی بجائے جج ہی کرلو، یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ ایک اٹل حقیقت
ہے جسکا مشاہدہ میں خود کرچکا ہوں - عدالتوں میں آپکو بہت سے ٹاؤٹ مل جائیں
گے جو آپکی سیٹنگ معزز جج صاحبان سے کروا دیتے ہیں- وطن عزیز میں یہ دھندہ
دہائیوں سے جاری تھا پھر حالات نے کروٹ بدلی اور پاکستانی قوم کا درد ایک
انصاف کے دیوتا کے دل میں اٹھا پھر قوم کا درد لے کر یہ شخص اکیلا ہی جانب
منزل چلا پھر ریاست ہوگی ماں کے جیسی کا نعرہ لگانے والا ڈرائیور اسے مل
گیا، جب یہ گاڑی شارع دستور پر عدلیہ آذاد کروانے کے لئیے چلی تو قوم بھی
مسحور کن نعروں سے جاگ اٹھی اور ایک قافلہ بن گیا، جگاڑی سیاستدان بھی
برساتی مینڈکوں کیطرح بلوں سے نکل آئے ، میڈیا اور نیم خواندہ دانشور بھی
اس قافلے کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔ یہ قافلہ تحریک میں بدلا اور عوام کی
آنکھوں میں آذاد عدلیہ کے دیپ جگمگانے لگے- اور نیم خواندہ دانشوروں اور
ڈھولچی اینکرز نے ایسی ملمع کاری کی کہ عوام کی نظربندی ہوگئی اور عوام کو
ایک دجال مسیحا نظر آنے لگا۔ قصہ مختصر ریاست ہوگی ماں کے جیسی والے نعرے
کا جادو چل گیا اور انکی جدوجہد رنگ لائی اور چوروں کی ماں ، دو دفعہ پی سی
او پر حلف اٹھانے والا دودھ سے نہا دھو کر انصاف کا سب سے بڑا دیوتا بن گیا۔
انصاف کی کرسی پر بحال ہونے کے بعد اس انصاف کے دیوتا نے بڑے سوموٹو نوٹس
لئیے مگر نتیجہ صفر ، دکھاوے کی بھاگ دوڑ تو بہت کی مگر عوامی مفاد میں ایک
ڈھنگ کا فیصلہ نہ کرسکا اور اسکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں
اس وقت پڑ گیا جب اسکے ہونہار سپوت نے اسکا ہاتھ بٹانا شروع کردیا- ویسے یہ
منصف تھا بڑا عقلمند اسنے اپنے بیٹے کو ہی اپنا ٹاؤٹ بنا لیا تآکہ چند فیصد
کمیشن بھی گھر سے باہر نہ جاسکے ۔ شریفوں کے ساتھ بھی اسے بے پناہ محبت ہے
انکا الیکشن میں موصوف نے بھرپور ساتھ دیا- اسطرح چور اور کتی کا گٹھ جوڑ
ہوگیا اور ملکر لوٹنے لگے - رہی بات عوام کی تو انھیں انصاف نہ ملنا تھا نہ
ملا اور نہ کبھی ملے گا- انصاف لینے کی خاطر عوام کو پہلے چور اور کتی کا
گٹھ جوڑ توڑنا پڑے گا اپنے حقوق اور طاقت کا ادراک کرنا ہوگا۔ انصاف کے
حصول کی خاطر لوگوں کی زندگیاں بیت جاتی ہیں، جمع پونجی لٹ جاتی ہے، بعض کو
خود سوزی کرنی پڑتی ہے لیکن اس سب کے باوجود نیم خواندہ دانشوروں کو
جمہوریت کا رآگ الاپتے شرم نہیں آتی -
جمہوریت کا چوتھا ستون لاڈلے میڈیا کو مانا جاتا ہے مگر صد افسوس عدلیہ
جہاں شکلیں دیکھ کر فیصلے کرتی ہے وہاں میڈیا بھی چہرے اور پارٹیاں دیکھ کر
حقائق سے پڑدہ ہٹاتا ہے - مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں
میڈیا روزانہ ایک نئی کرپشن کی داستان سناتا تھا اور میڈیا کی ڈارلنگ چیف
جسٹس اس پر سوموٹو ایکشن لیتا تھا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا آج کرپشن نہیں
ہورہی ؟ آج کرپشن گذشتہ کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے مگر آج حکمرآن
مختلف ہیں اور آج کے حکمرآن عدلیہ کیطرح میڈیا کو بھی مٹھی میں کرنا جانتے
ہیں اور یہ سب کرنے کے مختلف حربے ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر کبھی یہ پوری
حکومتی مشینری کو ایک چینل کے پیچھے کھڑا کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں ہم
دلیل والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں، کبھی وزیرآعظم ایک اینکر
کی سالگرہ مری کے پرفضاء مقام پر مناتا ہے ، کبھی میڈیا پرسنز کو قیمتی
تحائف دیے جاتے ہیں ، کسی اینکر کے کاروبار میں مدد کردی ، کسی کو مشیر رکھ
لیا ، کسی صحافی کے بھائی کو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا ، کسی کے
سپرد پی ٹی وی کردیا تو کسی کو کرکٹ بورڈ نواز دیا المختصر اور بھی بہت
طریقے ہیں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے جو جگاڑی خوب جانتے ہیں ۔ صلے میں نیم
دانشور اور اینکرز نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے خاندانی بادشاہت اور غریب
کش استحصالی نظام کو جمہوریت کہتے نہیں تھکتے۔ اکثر جب میں نیم خواندہ
دانشوروں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہے؟ تو جواب دیتے
ہیں کہ بالکل جمہوریت موجود ہے مگر کارکردگی صفر ہے آگے ایک اور بھونڈی سی
جگاڑی مارکہ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت انقلابی نہیں ارتقائی عمل ہے، یہ
دلیل دینے والے ذہنی کرپٹ نیم دانشوروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت کا
پتہ ہی اسکی کارکردگی و علامات سے چلتا ہے کیونکہ جمہوریت کوئی مجسم چیز تو
ہے نہیں جو دیکھ کر یا چھو کر اسکی موجودگی کا احساس کیا جاسکے۔
ایک اور علمی بات بتا دوں آپکو نیم خواندہ دانشورو، جمہوریت یا ہوتی ہے یا
نہیں ہوتی ، یہ ایسے کام نہیں چلتا اور نفی اور اثبات کے درمیان والی کوئی
حثیت نہیں ہوتی ، جمہوریت کے اثبات کا اقرار بھی کرتے ہو اور ساتھ بہت بڑا
مگر پر چونکہ چنانچہ بھی لگاتے ہو ، جوکہ منافقت کہلاتی ہے ، کیونکہ نفی
اور اثبات کے درمیان اگر کچھ ہے تو اسے منافقت ہی کہا جاسکتا ہے ۔
آخر میں قارئین کسی بھی جمہوری ریاست میں چار ستون ہوتے ہیں جن پر جمہوریت
کی عمارت کھڑی رہتی ہے اور میں اوپر بیان کرچکا کے یہ چاروں ستون کرپشن کی
دیمک چاٹ چکی جب ستون ہی نہ رہے تو عمارت کیسی ؟ پاکستان میں جمہوریت نہیں
خاندانی بادشاہت کا استحصالی نظام رآئج ہے اور یہ نظام ہتھوڑوں ، چھینیوں
اور کدالوں سے زمین بوس نہیں ہوگا - اس استحصالی نظام کو زمین بوس کرنے کے
لئیے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا اور تعلیم و شعور کے ہتھیار سے مسلح
ہونا پڑے گا ۔۔۔۔۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔۔ |