آزادی مارچ کی لاہور واپسی

عمران خان نے 13 اگست کو لاہور سے آزادی مارچ کا آغاز کیا تھا۔انہوں نے اسے ملین مارچ قراردیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی حکومت فارغ ہوچکی ہو گی۔پاکستان عوامی تحریک نے بھی ان کے شانہ بشانہ اسلام آباد کی طرف قدم بڑھائے۔ 14اگست آیا، پھر پندرہ اگست مگر ملین افراد اکٹھے نہ ہوسکے۔ سولہ اگست سے اسلام آباد میں دونوں جماعتوں نے پینتیس چھتیس ہزار افراد پر مشتمل دھرنے کا آغاز کیا تو حکومت کو الٹی میٹم اور پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ امپائر کی انگلی کا ذکر بھی ہوا۔ دھرنوں کو مقررہ جگہ سے ریڈ زون تک لے جایا گیا ۔ پھر چشم نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ یہ دونوں لیڈراپنے اپنے کنٹینروں پر سوار ہوکر ہاتھ میں مائیک تھامے اپنے اپنے کارکنوں کو پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنے کے احکامات دینے لگے، پولیس اہلکاروں پر تشدد پر اکسانے لگے۔پارلیمنٹ کو روندھا گیا، پی ٹی وی پر چڑھائی کی گئی۔اس موقع پر معصوم بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کیا گیا۔ یہ پتہ بھی چلا کہ بہت سے افراد کو تو دیہاڑی پر لایا گیا ۔ انہیں تین دن کے پیسے دیئے گئے تھے،معاملے نے طول پکڑا توکرائے کے یہ انقلابی تنگ آگئے اور واپس جانے کے لئے ضد کرنے لگے۔ اسی دوران میڈیا نے انکشاف کیا کہ آزادی لانے والوں نے تو خود بہت سے معصوم لوگوں، بچوں عورتوں کو تو خود یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ اپنے گھروں کو واپس جانے پر اصرار کرتے ہیں تو انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ بس اسٹینڈ پر ان کے بندے ہیں اگر وہ واپس گئے تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔

تمہید کچھ لمبی ہوگئی۔ مختصر یہ کہ 14اگست کو آزادی لانے کیلئے اسلام آباد روانہ ہونے اور وہاں ڈیڑھ ماہ تماشابپا کرنے والے نامرادہوکر اب پھر لاہور لوٹ آئے ہیں۔جو لوگ میدان میں اترے بغیر ہی لوگوں کو امپائر کی انگلی اٹھنے کا خبر سنا رہے تھے، انہیں ادراک ہوگیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ اتنے کمزور نہیں کہ اسے چند ہزارلوگ اکٹھے کرکے ختم کیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے براہ راست تصادم، الزام تراشی کا جو راستہ اپنایا ہے ، اسے سنجیدہ حلقوں نے یکسر مستردکردیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ جس سٹریٹ پاور کا مظاہرہ اور اس کے بل بوتے پر بہت بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں، اگر دوسری جماعتیں ایسا کرنے کی ٹھان لیں تو وہ بھی لوگوں کی بھاری تعداد سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔ خود نوازشریف نے گزشتہ روز نیویارک سے واپسی کے دوران کہا تھا کہ اگر انہوں نے جلسے کئے تو لگ پتہ جائے گا۔ اسی طرح دوسری جماعتوں کی اسٹریٹ پاور کا بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف سے بھی بڑے جلسوں کا اہتمام کرسکتی ہیں مگر ان کے نزدیک یہ سنجیدہ اور مثبت سیاسی طرزعمل نہیں۔

مسلسل احتجاج سے ملکی معیشت اور نظام میں رکاوٹ ڈالنا کوئی سیاست نہیں بلکہ عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ ملک میں انتشار، افراتفری پھیلانے کا رویہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں قراردیا جاسکتا۔ لوگوں کو آزادی کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریبان کرانا، ریاست کے خلاف ابھارنا، ریاستی اداروں پر تنقید اصل میں ملک کو تاریکیوں اور غلامیوں میں دھکیلنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی مضحکہ خیز ہے کہ آمریت پسندوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ روز تو عمران خان نے عافیہ صدیقی پر بھی بیان بازی کی تھی مگر یہ بھول گئے کہ جس دور میں عافیہ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اس وقت کے وزیرخارجہ تو ان کے پہلو میں کھڑے ہیں۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ نیویارک میں جب وزیراعظم نوازشریف پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کررہے تھے تو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے وہاں بھی احتجاج کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح پی ٹی آئی احتجاج میں مہارت رکھتی ہے، یہ فیصلہ بھی مرکزی قیادت کی جانب سے ہوا ہو گا تاہم اہم عالمی ایونٹ پر اس طرح کے احتجاج سے ملکی وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس اجلاس میں کشمیر، کشمیری عوام اور پاک بھارت تعلقات کا ذکر کیا۔ دنیا کو کشمیریوں کے دیرینہ حق خودارادیت کے وعدے کو یاددلایا۔ا سی طرح انہوں نے اسرائیل کے فلسطینیوں پر کئے جانے والے ظلم کے خلاف بھی آواز بلند کی مگر افسوس پی ٹی آئی نے وہاں بھی احتجاج کیا اور یقینا اس سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اسرائیلی وزیراعظم ضرور خوش ہوئے ہوں گئے کہ کشمیراور فلسطین کے نہتے عوام پرجو ظلم و ستم انہوں نے رواں رکھا ہے، اس پر کسی نے احتجاج نہیں کیا ۔

دھرنوں اور احتجاج سے ملک کے عالمی امیج اور اندرونی خلفشار کو تو نقصان پہنچا ہی ہے، معیشت بھی شدید دباؤ میں ہے۔ سرمایہ کاری رک چکی ہے۔ چین سمیت بہت سے سربراہان مملکت کے دورے منسوخ ہوئے جن سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبے التواء کا شکار ہوگئے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملکی معیشت پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دھرنے اور مارچ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملتوی کردئیے جاتے اور سیلاب کو قومی المیہ خیال کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کی جاتی مگر افسوس اس صورتحال کو بھی سیاسی تنقید کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ وزیراعظم اور وزیراعلی شہبازشریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور براہ راست امدادی سرگرمیوں میں شریک ہوئے تاہم اسلام آباد میں کنٹینر پر سوار ہوکر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر عمران خان واقعی عوام کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے جلسوں اور دھرنوں پر خرچ ہونے والی رقم متاثرین سیلاب کے لئے وقف کردیتے۔ان کے اس اقدام سے یقینا انہیں دھرنے سے زیادہ پذیرائی ملتی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بہت سے معاملات ایسے ہیں جنہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک بہتر نہیں کرسکی۔ اس سلسلے میں ’’تبدیلی کے نام پر ایک بہت بڑا دھوکہ ‘‘ کے عنوان سے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کیاگیا ہے جس میں ایسے حقائق موجود ہیں کہ اس سے پی ٹی آئی کے قول وفعل کی اصل قلعی کھل جاتی ہے۔

دھرنوں کی وجہ سے ہمارے اندرونی مسائل ومعاملات جن میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب، آئی ڈی پیز، توانائی اور دیگرشامل ہیں، وہ قومی سیاست سے گم نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے خطے میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں وہ بھی کافی حد تک پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ چینی صدر کا دورہ بھارت، بھارت کا مریخ مشن اور نریندر مودی کی امریکہ یاترا، افغانستان میں سیاسی تبدیلیاں، اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کی مشترکہ پاور شیئرنگ، شام اور ایران ، داعش اور آئی ایس آئی ایس جیسی سر اٹھاتی نئی دہشت گرد تنظیمیں ، اس طرح کے معاملات پر توجہ ہٹانے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ عمران خان کی لاہور واپسی کا یہی مطلب ہے کہ احتجاج اور دھرنے کے ذریعے جو تبدیلی وہ چاہتے تھے، ان کی وہ خواہش پوری نہیں ہوسکی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ ترک کرکے بامقصد مذاکرات کریں تاکہ وطن عزیز کے باسی جس بے چینی اور کرب سے گزررہے ہیں اس کا خاتمہ ہوسکے اور ملک کو جو اندرونی و بیرونی مسائل ہیں وہ پوری یکسوئی اور توجہ سے مل جل کر حل کئے جاسکیں۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.